Tafseer-e-Madani - Al-Baqara : 167
وَ قَالَ الَّذِیْنَ اتَّبَعُوْا لَوْ اَنَّ لَنَا كَرَّةً فَنَتَبَرَّاَ مِنْهُمْ كَمَا تَبَرَّءُوْا مِنَّا١ؕ كَذٰلِكَ یُرِیْهِمُ اللّٰهُ اَعْمَالَهُمْ حَسَرٰتٍ عَلَیْهِمْ١ؕ وَ مَا هُمْ بِخٰرِجِیْنَ مِنَ النَّارِ۠   ۧ
وَقَالَ : اور کہیں گے الَّذِيْنَ : وہ جنہوں نے اتَّبَعُوْا : پیروی کی لَوْ اَنَّ : کاش کہ لَنَا : ہمارے لیے كَرَّةً : دوبارہ فَنَتَبَرَّاَ : تو ہم بیزاری کرتے مِنْهُمْ : ان سے كَمَا : جیسے تَبَرَّءُوْا : انہوں نے بیزاری کی مِنَّا : ہم سے كَذٰلِكَ : اسی طرح يُرِيْهِمُ : انہیں دکھائے گا اللّٰهُ : اللہ اَعْمَالَهُمْ : ان کے اعمال حَسَرٰتٍ : حسرتیں عَلَيْهِمْ : ان پر وَمَا ھُمْ : اور نہیں وہ بِخٰرِجِيْنَ : نکلنے والے مِنَ النَّار : آگ سے
اور اس وقت وہ پیروکار نہایت یاس و حسرت کے ساتھ کہیں گے کہ کاش ہمیں ایک مرتبہ پھر دنیا میں لوٹ جانے کا موقع مل جائے تو ہم بھی ان سے ایسے ہی کٹ کر الگ ہوجائیں جس طرح کے یہ لوگ ہم سے الگ ہوگئے ہیں سو اسی طرح اللہ دکھائے گا ان کو ان کے اعمال ان پر حسرتیں بنا کر اور یہ لوگ دوزخ کی اس آگ سے کبھی نکل نہ سکیں گے1
449 باطل پرستوں کی حسرت کا ایک منظر : سو اس وقت یہ لوگ رہ رہ کر تمنا کریں گے کہ ہمیں پھر دنیا میں جانے کا موقع مل جائے، مگر اب اس کا موقع کہاں۔ اب اس سے ان کی حسرتوں ہی میں اضافہ ہوگا کہ تلافی وتدارک کا زمانہ گزر چکا ہوگا ۔ وََالْعِیَاذ باللّٰہ العلی العظیم۔ { وَ اَنّٰی لَہُمْ ذَالِکَ اِذَا جَائَ تْہُُمْ ذِکْرٰہُُُمْْْ } ۔ کہ اس کا موقع تو حیات دنیا کی اس مدت محدود اور عمر رواں میں تھا جو کہ اس وقت بہرحال گزر چکی ہوگی۔ اور اب اس نے کسی بھی طرح واپس نہیں آنا۔ سو قرآن حکیم اس طرح جھنجھوڑ کر کہتا اور خبردار کرتا ہے کہ آج ہوش میں آجاؤ اور اس یوم عظیم کیلئے تیاری اور کمائی کرلو، قبل اس سے کہ عمر رواں کی یہ فرصت محدود تمہارے ہاتھوں سے نکل جائے اور تمہیں ہمیشہ کیلئے پچھتانا پڑے۔ مگر اس طرح کے غافل لوگ اس پر کوئی توجہ نہیں کرتے۔ سو ان کی اس غفلت اور لاپرواہی کا نتیجہ انکے سامنے اس روز اس طرح ظاہر ہوگا ۔ والعیاذ باللہ العظیم - 450 باطل پرستوں کے اعمال ان کیلئے باعث حسرت : کہ جن جن امور و اشیاء کو وہ سب کچھ یا بہت کچھ سمجھ رہے تھے وہ انکے کچھ بھی کام نہیں آسکیں گی۔ وہ سب کچھ تتر بتر بےنام و نشان اور " ہَبَائً مَّنْثُوْرًا " ہو کر رہ جائیگا، اور اب ان کو پتہ چلے گا کہ اصل چیز تو ایمان و یقین کی دولت اور صحت عقیدہ کا وہ سرمایہ تھا، جس کی کمائی کا موقع و مقام حیات دنیا کی وہ فرصت محدود ہی تھی جو کہ اس وقت بہرحال گزر چکی۔ جس کی بازیابی کی اب کوئی صورت ممکن نہ ہوگی { وَاَنّٰی لَہُمُ التَّنَاوُشُ مِِنْ مَّکَانٍ بََعِیْدٍٍٍ } ۔ پس صحت و سلامتی کی راہ یہ اور صرف یہی ہے کہ دین حق کی تعلیمات مقدسہ کی روشنی میں آخرت کے اس یوم عظیم کیلئے آج تیاری کی جائے، کہ حیات دنیا کی اس فرصت محدود ہی میں آخرت کیلئے کمائی کی جاسکتی ہے، ورنہ پھر اس کیلئے کوئی موقع ممکن نہیں ہوگا کہ " دار العمل " یہ دنیا ہی ہے اس کے بعد " دار الجزاء " ہے۔ وباللہ التوفیق لما یحب ویرید وعلی ما یحب ویرید -
Top