Tafseer-e-Madani - Al-Baqara : 166
اِذْ تَبَرَّاَ الَّذِیْنَ اتُّبِعُوْا مِنَ الَّذِیْنَ اتَّبَعُوْا وَ رَاَوُا الْعَذَابَ وَ تَقَطَّعَتْ بِهِمُ الْاَسْبَابُ
اِذْ تَبَرَّاَ : جب بیزار ہوجائیں گے الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو اتُّبِعُوْا : پیروی کی گئی مِنَ : سے الَّذِيْنَ : جنہوں نے اتَّبَعُوْا : پیروی کی وَرَاَوُا : اور وہ دیکھیں گے الْعَذَابَ : عذاب وَتَقَطَّعَتْ : اور کٹ جائیں گے بِهِمُ : ان سے الْاَسْبَابُ : وسائل
تو ان لوگوں کی حالت قطعاً دگرگوں ہوتی جب کہ براءت و بیزاری کا اعلان کر کے الگ ہوجائیں وہ پیشوا جن کی دنیا میں پیروی کی جاتی تھی اپنے ان پیروکاروں سے جو ان کی پیروی کرتے تھے اور جبکہ دیکھیں گے عذاب اور کٹ جائیں گے وہ تمام رشتے جو کہ ان کے درمیان قائم تھے۔
447 گرؤوں کا اپنے پیروکاروں سے تبراء اور اظہار بیزاری : اور ان کی پیروی یہ لوگ اس امید پر کرتے تھے کہ ایسے مشکل وقت میں یہ ہمارے کام آئیں گے، مگر کام آنا تو درکنار وہ سرے سے ان کے اس شرک ہی کا انکار کر دینگے، اور ان سے براءت و بیزاری اور اپنی علیحدگی کا اعلان کردیں گے، بلکہ اس سے بھی آگے یہ کہ وہ ان کے مخالف اور دشمن بن جائیں گے۔ اس لئے قرآن حکیم " کَلَّا " کے حرف زجر و تنبیہ کے ساتھ ان کو خبردار کرتا ہے کہ ایسی خود ساختہ امیدوں کے جھوٹے سہاروں پر نہیں رہنا، ورنہ حساب کتاب کے اس کڑے دن بہت پچھتانا پڑیگا۔ ارشاد ہوتا ہے { کَلَّا سَیَکْفُرُوْنَ بِعِبَادَتِہِمْ وَیَکُوْنُوْنَ عََلَیْہِمْ ضِدًّا } ۔ (مریم : 82) ۔ سو اس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ قرآن حکیم کا دنیا پر کس قدر احسان عظیم ہے کہ اس نے ان غیبی حقائق سے پیشگی خبر کردی اور اس قدر تفصیل اور صراحت کے ساتھ تاکہ انسان آخرت کے اس یوم عظیم کیلئے تیاری کرلے، قبل اس سے کہ حیات دنیا کی یہ فرصت محدود اس کے ہاتھ سے نکل جائے اور اس کو ہمیشہ کیلئے پچھتانا پڑے، مگر دنیا ہے کہ اس کے باوجود خواب غفلت میں محو و منہمک ہے۔ والعیاذ باللہ العظیم ۔ بہرکیف اس سے آگاہ فرما دیا گیا کہ اس روز ایسے سب رشتے کٹ جائیں گے۔ اور اصل حقائق نکھر کر سب کے سامنے آجائیں گے۔ 448 باطل پرستوں کا قیامت کے روز کا حال : سو ان کی دنیاوی زندگی کے تمام رشتے اس روز کٹ جائیں گے، اور مٹ جائیں گے۔ عقیدت و غلو، چوما چاٹی اور پوجا پاٹ کے وہ سب روابط و تعلقات، جو انہوں نے اپنی دنیاوی زندگی میں باہم استوار کر رکھے تھے، اور کر کری ہوجائے گی ان کی وہ سب منطق، جو اپنی ان شرکیات کو صحیح ثابت کرنے کیلئے دنیا میں یہ لوگ بگھارا کرتے تھے، کہ صاحب یہ بت جن کی پوجا ہم کرتے ہیں، یہ کوئی ایسی بےجان و بےحقیقت اور گری پڑی چیزیں نہیں بلکہ یہ دراصل فلاں فلاں ہستیوں کی شبیہ اور ان کے مظاہر اور اوتار ہیں۔ ان کے آثار و اثرات ان کے اندر منتقل ہوگئے ہیں، اور یہ جو ہمارے قائم کردہ آستانے ہیں، سب حاجتیں یہیں ہی پوری ہوتی ہیں۔ یہ بڑی پہنچی ہوئی " سرکاریں " ہیں۔ وہ ہماری سنتا نہیں، اور ان کی رد نہیں کرتا۔ لہذا ہماری ان کے آگے، اور ان کی ان کے آگے۔ اور یہ کہ صاحب ہم نے فلاں ہستی کا دامن پکڑ رکھا ہے بس۔ وہی ہمیں کافی ہیں ہم نے فلاں " سرکار " سے تعلق جوڑ رکھا ہے اور ان کا لڑ پکڑ رکھا ہے۔ وہی ہمارا سب کام بنا دینگی۔ ہم سگ دربار فلاں ہیں وغیرہ وغیرہ۔ سو فیصلے اور عدل و انصاف کے اس روز میں اور کشف حقائق کے اس جہان میں ان سب لوگوں کے یہ سب سہارے ٹوٹ جائینگے، اور یہ سب رشتے اور تعلق کٹ جائینگے۔ تب اصل حقیقت مت کے مارے ایسے بدبختوں کے سامنے پوری طرح واضح ہوجائے گی۔ اس وقت ان کے افسوس اور ان کی یاس و حسرت کی کوئی حد نہیں رہے گی، مگر بےوقت کے اس پچھتاوے سے ان کو کوئی فائدہ بہرحال نہیں ہوگا سوائے یاس و حسرت میں اضافے کے۔ سو آخرت سے غفلت کا نتیجہ و انجام بہت برا ہے ۔ والعیاذ باللہ العظیم ۔ اللہ ہمیشہ اپنی پناہ میں رکھے ۔ آمین۔
Top