Tafseer-e-Madani - Al-Israa : 73
وَ اِنْ كَادُوْا لَیَفْتِنُوْنَكَ عَنِ الَّذِیْۤ اَوْحَیْنَاۤ اِلَیْكَ لِتَفْتَرِیَ عَلَیْنَا غَیْرَهٗ١ۖۗ وَ اِذًا لَّاتَّخَذُوْكَ خَلِیْلًا
وَاِنْ : اور تحقیق كَادُوْا : وہ قریب تھا لَيَفْتِنُوْنَكَ : کہ تمہیں بچلا دیں عَنِ : سے الَّذِيْٓ : وہ لوگ جو اَوْحَيْنَآ : ہم نے وحی کی اِلَيْكَ : تمہاری طرف لِتَفْتَرِيَ : تاکہ تم جھوٹ باندھو عَلَيْنَا : ہم پر غَيْرَهٗ : اس کے سوا وَاِذًا : اور اس صورت میں لَّاتَّخَذُوْكَ : البتہ وہ تمہیں بنا لیتے خَلِيْلًا : دوست
اور (اے پیغمبر ! ) ان لوگوں نے اپنی اس کوشش میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی تھی کہ آپ کو فتنے میں ڈال کر پھیر دیں اس وحی سے جو ہم نے بھیجی ہے آپ کی طرف، تاکہ آپ اس کے خلاف ہماری طرف کسی اور بات کی نسبت کردیں، اور اگر ایسا ہوجاتا تو یہ لوگ یقیناً آپ کو اپنا گہرا دوست بنا لیتے،
134۔ پیغمبر کیلئے خاص حفاظت و حمایت خداوندی کا ذکر وبیان :۔ چنانچہ پیغمبر کو خطاب کرکے ارشاد فرمایا گیا کہ اگرچہ ان لوگوں نے اپنی اس کوشش میں کوئی کسر نہیں اٹھا رکھی تھی کہ آپ کو فتنے میں دال کر اس وحی سے پھیر دیں جو ہم نے آپکی طرف کی ہے تاکہ اس طرح آپ ہمارے خلاف ہماری طرف کسی اور بات کی نسبت کریں، لیکن اللہ کی طرف سے آپ کیلئے جو خاص حفاظت و حمایت ہے، اس کی وجہ سے آپ محفوظ رہے، اور یہ لوگ اپنی ایسی شرانگیزیوں میں کامیاب نہیں ہوسکے۔ سو اس سے پیغمبر حق کو اور ان کے توسط سے ہر داعی حق کو یہ درس دیا گیا ہے کہ کفار واشرار کی طرف سے آپ کو راہ حق سے پھیرنے کی کتنی ہی کوشش کی جائے آپ ان کے علی الرغم حق پر قائم اور ثابت قدم رہیں۔ سو یہ لوگ ایسا کریں گے۔ کئی طرح کی سودابازیوں اور تنازلات کی پیشکش کرکے۔ جیسا کہ روایات میں اس کی مختلف شکلیں ذکر فرمائی گئی ہیں۔ ملاحظہ ہو روح، ابن کثیر، محاسن التاویل، وغیرہ۔ سو ان روایات کے مطابق ابو جہل اور قریش کے کچھ دوسرے سرداروں نے حضور ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر کہا کہ آپ ﷺ آکر ہمارے بتوں پر ہاتھ پھیر دیں تو ہم آپ ﷺ کے دین میں داخل ہوجائیں گے اور آپ ﷺ چونکہ اپنی شفقت کی بناء پر یہ چاہتے تھے کہ یہ لوگ کسی طرح دین حق میں داخل ہو کر دوزخ سے بچ جائیں اس لیے آپ ﷺ کے دل میں ان کیلئے کچھ نرمی پیدا ہوگئی۔ تو اس پر یہ آیات کریمہ نازل ہوئیں (تفسیر المراغی وغیرہ ) ۔ بہرکیف ارشاد فرمایا گیا کہ مخالفین نے آپ کو راہ حق سے پھیرنے کیلئے بہت کچھ زور لگایا تھا مگر آپ ہمارے فضل وکرم کی بناء پر اس سے محفوظ رہے۔ 135۔ کفار و مشرکین کی اصل دشمنی حق کے ساتھ :۔ سو اس سے اس حقیقت کو واضح فرما دیا گیا کہ مشرکین کی اصل دشمنی حق کے ساتھ ہے اور اہل حق یہاں تک کہ حضرت امام الانبیاء سے ان کی دوستی وتعلق بھی راہ حق سے پھرنے کی قیمت پر ہے 136۔ سو ارشاد فرمایا گیا کہ سو ارشاد فرمایا گیا کہ ” اگر آپ ان کی باتوں میں آجاتے تو ایسی صورت میں یہ لوگ یقینا آپ کو اپنا گہرا دوست بنا لیتے “۔ اور یہ لوگوں سے کہتے کہ انہوں نے ہماری بات مان لی ہے اور ہمارا ان سے سمجھوتہ ہوگیا ہے۔ اس لئے ہم نے ان کو دوست بنا لیا ہے وغیرہ وغیرہ۔ حالانکہ حق اور باطل کے درمیان کسی اشتراک اور سمجھوتے کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ حق بہرحال حق ہے۔ اس میں کسی قسم کی آمیزش وملاوٹ کی سرے سے کوئی گنجائش ہی نہیں۔ جیسا کہ شاعر نے کہا اور خوب کہا۔ باطل دوئی پسند ہے حق لاشریک ہے۔ شریک میانہ حق وباطل نہ کر قبول۔ بہرکیف ارشاد فرمایا گیا کہ اگر بالفرض ایسے ہوجاتا تو یہ لوگ تو آپ کو اے پیغمبر اپنا دوست بنا لیتے۔ مگر اس صورت میں آپ ہماری دوستی اور ولایت سے محروم ہوجاتے۔ مگر اللہ پاک نے اپنے فضل وکرم اور اپنی رحمت و عنایت سے آپ کو اس طرح کے ہر شائبہ سے محفوظ رکھا۔ ولکن اللہ سلم۔ سو اس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ کفر و شرک کی میل کے جم جانے کے بعد آدمی کس قدر سیاہ بخت اور کتنا محروم ہوجاتا ہے کہ وہ نور حق و ہدایت کو اپنانے اور اس سے سرفراز و فیضیاب ہونے کی بجائے الٹا خود داعی حق کو بھی اپنی طرف مائل کرنے کی تگ ودو میں لگ جاتا ہے۔ کل بھی یہی تھا اور آج بھی یہی ہے۔ یہاں تک کہ وہ اس کے لئے حضرت امام الانبیاء ﷺ پر بھی ڈورے ڈالنے کی جسارت سے گریز نہیں کرتا۔ والعیاذ باللہ العظیم۔ مگر جسے اللہ رکھے اسے کون چکھے۔ اللہ پاک سبحانہ وتعالیٰ نے اپنے پیغمبر کو اپنی خاص ہدایت و عنایت سے نوازکر ایسے ہر شائبہ سے ہمیشہ محفوظ رکھا۔ سو اس سے یہ امر واضح ہوجاتا ہے کہ ابنائے کفر وباطل اہل حق میں سے کسی کو اسی صورت میں اپنا دوست بنا سکتے ہیں جبکہ وہ راہ حق و ہدایت سے پھر کر انہی کے طریقے کو اپنا لے اور انہی کی راہ پر چلنے لگے۔ لیکن خداونخواستہ اگر کوئی ایسا کرلے تو وہ اللہ تعالیٰ کی رحمت و عنایت اور اس کی تائید و حمایت سے محروم ہوجائے گا جو کہ خساروں کا خسارہ ہے۔ والعیاذ باللہ العظیم۔ (روایات میں وارد و منقول ہے کہ ان آیات کریمات کے نزول کے بعد آنحضرت ﷺ ہمیشہ یہ دعا پڑھا کرتے تھے۔” اللہم لاتکلنی الی نفسی طرفۃ عین “ یعنی ” اے اللہ مجھے کبھی پل بھر کیلئے بھی اپنی ذات کے حوالے نہیں کرنا “ آمین ثم آمین یا رب العالمین ویا اکرم الاکرمین۔
Top