Tafseer-e-Madani - Al-Israa : 61
وَ اِذْ قُلْنَا لِلْمَلٰٓئِكَةِ اسْجُدُوْا لِاٰدَمَ فَسَجَدُوْۤا اِلَّاۤ اِبْلِیْسَ١ؕ قَالَ ءَاَسْجُدُ لِمَنْ خَلَقْتَ طِیْنًاۚ
وَاِذْ : اور جب قُلْنَا : ہم نے کہا لِلْمَلٰٓئِكَةِ : فرشتوں سے اسْجُدُوْا : تم سجدہ کرو لِاٰدَمَ : آدم کو فَسَجَدُوْٓا : تو انہوں نے سجدہ کیا اِلَّآ : سوائے اِبْلِيْسَ : ابلیس قَالَ : اس نے کہا ءَاَسْجُدُ : کیا میں سجدہ کروں لِمَنْ : اس کو جسے خَلَقْتَ : تونے پیدا کیا طِيْنًا : مٹی سے
اور (وہ بھی یاد کرو کہ) جب ہم نے فرشتوں سے کہا کہ تم سجدہ کرو آدم کے لئے، تو وہ سب سجدے میں گرپڑے بجز ابلیس کے (کہ اس نے سجدہ نہ کیا) ، کہنے لگا کیا میں اس کو سجدہ کروں جس کو تو نے پیدا کیا ہے مٹی سے ؟
113۔ قصہ آدم کی تذکیر ویاد دہائی برائے عبرت پذیری :۔ سو ارشاد فرمایا گیا ” اور وہ بھی یاد کرو جب ہم نے فرشتوں سے کہا کہ آدم کیلئے سجدہ کرو۔ “ کیونکہ آدم و ابلیس کے اس قصے میں بھی تمہارے لئے یہ بڑا اہم اور بنیادی درس ہے کہ ابلیس لعین تمہارا سب سے بڑا اور خطرناک دشمن ہے۔ پس اس کے دھوکے میں آکر کہیں تم راہ حق سے پھسل نہیں جانا۔ والعیاذ باللہ العظیم۔ نیزیہ کہ تکبر اور سرکشی ابلیس کا کام ہے نہ کہ کسی بنی آدم کا۔ اور یہ کہ اسی تکبر اور سرکشی کی بناء پر ابلیس ہمیشہ کیلئے مردود ہوگیا۔ والعیاذ باللہ العظیم۔ سو جو لوگ حق کے آگے جھکنے اور اس کو قبول کرنے کی بجائے تمردو سرکشی سے کام لیتے ہیں وہ دراصل ابلیس لعین کے پیرو اور اس کے دام تزویر کے اسیر ہیں۔ والعیاذ باللہ العظیم۔ اللہ تعالیٰ ہمیشہ اور ہر اعتبار سے اپنی حفاظت وپناہ میں رکھے۔ آمین ثم آمین یارب العالمین۔ 114۔ ابلیس کی متکبرانہ ابلیسی منطق اور اس کا انجام :۔ سو اس ملعون نے کہا کہ ” میں آدم کو سجدہ کیسے کروں جبکہ میں آگ سے پیدا ہوا ہوں “ جو کہ مٹی کے مقابلے میں افصل اور ایک جوہر لطیف ہے۔ اور آدم کو تو نے مٹی سے پیدا کیا ہے۔ تو پھر میں اس کو سجدہ کیسے کروں ؟ سو یہ تھی اس لعین کی متکبرانہ ابلیسی منطق جو اس نے حضرت حق۔ جل مجدہ کی بارگاہ اقدس میں بگھاری۔ اور جس کے نتیجے میں وہ ہمیشہ کیلئے مردود ومطرود ہوگیا۔ والعیاذ باللہ العظیم۔ سو جو لوگ آج اپنے استکبار اور غرور وگھمنڈ کی بناء پر دعوت حق پر لبیک نہیں کہتے وہ دراصل اپنے اسی امام ابلیس کی پیروی کرتے اور اس کی منطق ابنائے ہیں اور اسطرح وہ خود اپنی محرومی کا سامان کرتے ہیں مگر ان کو اس کا شعور نہیں۔ والعیاذ باللہ العظیم۔
Top