Tafseer-e-Madani - Al-Israa : 60
وَ اِذْ قُلْنَا لَكَ اِنَّ رَبَّكَ اَحَاطَ بِالنَّاسِ١ؕ وَ مَا جَعَلْنَا الرُّءْیَا الَّتِیْۤ اَرَیْنٰكَ اِلَّا فِتْنَةً لِّلنَّاسِ وَ الشَّجَرَةَ الْمَلْعُوْنَةَ فِی الْقُرْاٰنِ١ؕ وَ نُخَوِّفُهُمْ١ۙ فَمَا یَزِیْدُهُمْ اِلَّا طُغْیَانًا كَبِیْرًا۠   ۧ
وَاِذْ : اور جب قُلْنَا : ہم نے کہا لَكَ : تم سے اِنَّ : بیشک رَبَّكَ : تمہارا رب اَحَاطَ : احاطہ کیے ہوئے بِالنَّاسِ : لوگوں کو وَمَا جَعَلْنَا : اور ہم نے نہیں کیا الرُّءْيَا : نمائش الَّتِيْٓ : وہ جو کہ اَرَيْنٰكَ : ہم نے تمہیں دکھائی اِلَّا : مگر فِتْنَةً : آزمائش لِّلنَّاسِ : لوگوں کے لیے وَالشَّجَرَةَ : ور (تھوہر) کا درخت الْمَلْعُوْنَةَ : جس پر لعنت کی گئی فِي الْقُرْاٰنِ : قرآن میں وَنُخَوِّفُهُمْ : اور ہم ڈراتے ہیں انہیں فَمَا يَزِيْدُهُمْ : تو نہیں بڑھتی انہیں اِلَّا : مگر (صرف) طُغْيَانًا : سرکشی كَبِيْرًا : بڑی
اور (وہ بھی یاد کرو کہ) جب ہم نے آپ سے کہا تھا کہ آپ کے رب نے گھیر رکھا ہے، ان لوگوں کو (اپنے علم اور قدرت سے) ، اور (ان عجائب قدرت کا) وہ دیکھنا جو کہ ہم نے آپ کو دکھایا تھا (اپنی قدرت و عنایت سے) اور اس درخت کو جس پر لعنت وارد ہوئی ہے قرآن میں، (نہیں بنایا ہم نے اس سب کو) مگر آزمائش کا سامان لوگوں کے لئے، اور ہم انھیں برابر ڈراتے (اور تنبیہ کرتے) رہتے ہیں، (تاکہ یہ لوگ باز آجائیں) ، مگر اس سب سے ان کی اس بڑی سرکشی ہی میں اضافہ ہوتا جاتا ہے،3
108۔ تنبیہی نشانیوں کے بارے میں کفار قریش کا رویہ :۔ کہ انہوں نے بھی ایسی نشانیوں کا مذاق اڑایا اور ان کی تکذیب کی۔ مثلا جب ہم نے آپ کو خبر دی کہ بیشک آپ کے رب نے سب لوگوں کو گھیرے میں لے کر رکھا ہے اپنے علم قدرت کے اعتبار سے۔ سو یہ نہ تو اس کے علم محیط سے باہر ہوسکتے ہیں اور نہ ہی اس کی گرفت وپکڑ اور دائرہ قدرت سے نکل سکتے ہیں اور نہ ہی یہ اس بل بوتے کے مالک ہوسکتے ہیں کہ حق کے غلبہ و انتظار کو روک سکیں۔ سو یہ آپ کا کچھ بھی نہیں بگاڑ سکیں گے۔ لہذا آپ ان کی پرواہ کیے بغیر حق کی تبلیغ کیے جائیں۔ یہ اب تک آپ کا کچھ نہ بگاڑ سکے نہ آئندہ بگاڑ سکیں گے۔ اور یہ ایک بڑا ثبوت ہے اس بات کا کہ آپ اللہ کے رسول ہیں اور اللہ کی تائید ونصرت آپ کے ساتھ ہے۔ (المعارف وغیرہ) سو جب ان لوگوں کو اس حقیقت کی خبر دی گئی تو بجائے اس کے کہ یہ اس سے متنبہ ہوتے اور اپنے کفر و بغاوت کو ترک کرتے الٹا انہوں نے اس کا مذاق اڑایا اور اپنے کفر وعناد کی بناء پر کہا کہ یہ یونہی خواہ مخواہ کی ہوائی باتیں ہیں۔ والعیاذ باللہ العظیم۔ 109۔ معجزہ معراج اور منکرین کی فتنہ سامانی :۔ سو ارشاد فرمایا گیا ” اور آپ کا وہ دیکھنا (عجائب قدرت کا) بھی ان لوگوں کے لئے فتنہ و آزمائش کا ذریعہ بن گیا۔ “ یعنی معجزہ اسراء و معراج کے موقع پر عجائب قدرت کا دیکھنا جو کہ بیداری میں اور جسم و روح کے ساتھ ہوا۔ اور رو بھی اصل لغت میں رویت (بحالت بیداری دیکھنا) کے معنی میں آتا ہے۔ (المعارف، المحاسن اور المراغی وغیرہ) اس لئے یہاں پر اس سے مراد اسراء و معراج کا دیکھنا ہے۔ (ابن کثیر، محاسن اور معارف وغیرہ) سو سفر اسراء و معراج میں آپ کا وہ دیکھنا جو ہم نے آپ کو دکھایا یا جس کا ذکر سنسریہ کے کلمات کریمہ سے اس سورة کریمہ کے شروع میں ہوچکا ہے۔ سو وہ دیکھنا جہاں آپ کیلئے قدرت کی طرف سے ایک بڑا انہام و اکرام تھا وہیں وہ ان لوگوں کیلئے ابتلاء و آزمائش کا ذریعہ بن گیا۔ سو کچھ نے تصدیق کرکے اپنے ایمان و یقین کی تقویت کا سامان کیا جبکہ کچھ دوسروں نے اس کی تکذیب کرکے اپنی محرومی اور بدبختی میں اور اضافہ کیا۔ والعیاذ باللہ العظیم۔ (المعارف، المحاسن اور المراغی وغیرہ) سو ان منکرین و مکذبین نے اس کو مان کر اپنے ایمان و یقین کی دولت سے سرفرازی کا ذریعہ بنانے کی بجائے اس کا انکار کرکے اور اس کا مذاق اڑا کر اپنی حرمان نصیبی کو اور پکا کیا۔ والعیاذ باللہ العظیم۔ 110۔ شجرہ ملعونہ سے مراد اور اس کی وجہ ابتلاء ؟:۔ یعنی ” زقوم “ جو کہ دوزخیوں کا کھانا ہوگا۔۔ والعیاذ باللہ۔ سو یہ دونوں امور یعنی رؤیاء معراج اور شجرہ زقوم بھی ابتلاء و آزمائش کید و عظیم الشان سبب اور ذریعے بن گئے تھے۔ لوگوں کی جانچ اور تمیز کیلئے کہ اس سے اہل ایمان اور اصحاب صدق وصفا کے ایمان و یقین میں اضافہ ہوا اور اہل باطل کے کفر وضلال میں۔ والعیاذ باللہ العظیم۔ چناچہ معجزہ اسراء معراج کی طرف کفار نے شجرہ زقوم کا بھی مذاق اڑایا۔ چناچہ رورایات کے مطابق جب شجرہ زقوم کے بارے میں یہ آیات کریمہ نازل ہوئیں۔ انا جعلنا ھافتنہ للظالمین انھا شجرۃ تخرج فی اصل الجحیم طلعھا کانہ رء وس الشیاطین ، (الصافات : 62 تا 66) تو اس پر کفار نے اس کا مذاق اڑایا اور ابو جہل اینڈ کمپنی نے کہا کہ لو جی یہ کہتا ہے کہ ” زقوم “ کا درخت دوزخ کے بیچوں بیچ اگے گا۔ بھلا آگ میں کسی درخت کے اگنے کا کیا سوال ؟ تو یہ محمد کی اپنی گھڑت نہیں تو اور کیا ہے ؟ وغیرہ وغیرہ۔ سو اس طرح شجرہ ” زقوم کے بارے میں قرآن حکیم کے اس ارشاد سے اہل ایمان و یقین میں اضافہ ہوا اور اس میں مزید قوت آئی اور اہل کفر وباطل کے انکار میں اضافہ ہوا اور ان کے کفر وانکار اور ضدوعناد کی سیاہی مزید گہری اور گاڑی ہوگئی۔ والعیاذ باللہ العظیم۔ (معارف القرآن، روح المعانی اور ابن کثیر وغیرہ) 111۔ قدرت کی طرف سے تخویف و تنبیہ کی عنایت :۔ سو ارشاد فرمایا گیا ” اور ہم ان کو برابر ڈراتے اور خبردار کرتے رہتے ہیں “ تاکہ یہ سنبھل جائیں اور باز آجائیں اور ہولناک تباہی اور خوفناک انجام سے جس کی طرف یہ بڑھے جارہے ہیں۔ مگر یہ لوگ یہ ہیں کہ نہ کوئی سبق لیتے ہیں نہ اس طرف توجہ کرتے ہیں۔ سو قدرت کی طرف سے تنبیہ و تخویف کی یہ عنایت ایک عظیم الشان عنایت ہے تاکہ غافل انسان نوم غفلت سے چونک کر اپنے اس ہولناک انجام سے بچنے کی فکر و کوشش کرے جس کی طرف وہ اپنی غفلت و لاپرواہی اور اپنے کفر وعناد اور ہٹ دھرمی کی بناء پر بڑھے چلا جارہا ہے اور ہاویہ دوزخ کے اس ہولناک گڑھے سے بچنے کا سامان کرلے جس کی گہرائی گیرائی اور ہولناکی کا اس دنیا میں تصور کرنا بھی کسی کیلئے ممکن نہیں۔ اور وہ آنکھیں کھول لے قبل اس سے کہ فرصت حیات اس کے ہاتھ سے نکل جائے۔ وباللہ التوفیق والحمد للہ جل وعلا، 112۔ منکرین کی طغیانی اور سرکشی ہی میں اضافہ۔ والعیاذ باللہ العظیم :۔ سو ارشاد فرمایا گیا کہ ” اس سے ان لوگوں کی طغیانی اور سرکشی میں اضافہ ہوتا جاتا ہے۔ “ ان کی اپنی قساوت قلبی اور بدباطنی کی وجہ سے۔ والعیاذ باللہ العظیم۔ سو ایسے میں اگر ان کے فرمائشی معجزے پورے کردیئے جاتے تو انہوں نے ان کو بھی نہیں ماننا تھا تو پھر ان کا بھی انجام وہی ہوتا جو پہلی قوموں کا ہوچکا ہے کہ ان کو بھی اسی طرح ہلاک اور برباد کردیا جاتا جیسا کہ ان کو کیا گیا ہے۔ (المعارف، المراغی وغیرہ) سو ایسے میں انکے فرمائشی معجزے نہ دکھانا خود ان کیلئے بہتری اور بھلے کی چیز ہے۔ بہرکیف اس ارشاد سے واضح فرمایا گیا کہ ہم تو برابر ان کی تخویف و تنبیہ کا انتظام کرتے ہیں مگر یہ ایسے بدبخت ہیں کہ سبق لینے اور اپنی اصلاح کی طرف متوجہ ہونے کی بجائے اور بھی بگڑتے اور بہکتے جارہے ہیں۔ اور ان کی طغیانی اور سرکشی ہی میں اضافہ ہوتا جاتا ہے اور یہ آخرت کے اس عالم غیب و مشاہدہ کو دنیا کے اس عالم حضور و مجاہدہ پر قیاس کرکے ان غیبی حقائق کا مذاق اڑاتے ہیں جن سے ان کو بذریعہ وحی آگاہ و خبردار کیا جاتا ہے۔ حالانکہ اس دنیا میں بھی کتنے ہی ایسے حقائق ہیں جو عام قاعدہ و ضابطہ کے خلاف ہیں۔ مثلا یہ کہ شترمرغ دہکتے انگارے کھاتا ہے مگر جلتا نہیں۔ اسی طرح سے ” مندیل “ نامی ایک چھوٹا سا جانور ہے جو بعض بلاد ترک میں پایا جاتا ہے۔ اس کی اون جب میلی ہوجاتی ہے تو اس کو آگ میں ڈالتے ہیں جس سے اس کی میل جل جاتی ہے اور باقی مندیل رہ جاتا ہے۔ یعنی ” رومال “۔ سو اس کی اون سے رومال بنائے جاتے ہیں اور اسی بناء پر ان کو ” مندیل “ کہا جاتا ہے۔ (مدارک التنزیل وغیرہ) جبکہ آخرت کے اس جہان غیب کا تو معاملہ ہی الگ ہے۔
Top