Tafseer-e-Madani - Al-Israa : 54
رَبُّكُمْ اَعْلَمُ بِكُمْ١ؕ اِنْ یَّشَاْ یَرْحَمْكُمْ اَوْ اِنْ یَّشَاْ یُعَذِّبْكُمْ١ؕ وَ مَاۤ اَرْسَلْنٰكَ عَلَیْهِمْ وَكِیْلًا
رَبُّكُمْ : تمہارا رب اَعْلَمُ : خوب جانتا ہے بِكُمْ : تمہیں اِنْ : اگر يَّشَاْ : وہ چاہے يَرْحَمْكُمْ : تم پر رحم کرے وہ اَوْ : یا اِنْ : اگر يَّشَاْ : وہ چاہے يُعَذِّبْكُمْ : تمہیں عذاب دے وَمَآ : اور نہیں اَرْسَلْنٰكَ : ہم نے تمہیں بھیجا عَلَيْهِمْ : ان پر وَكِيْلًا : داروغہ
تمہارا رب تمہیں خوب جانتا ہے (کہ تم میں سے کون کس قابل ہے، پس) وہ اگر چاہے تو تم پر رحم فرما دے، اور اگر چاہے تو تم کو عذاب میں ڈال دے، اور ہم نے آپ کو (اے پیغمبر ! ) ان کا ذمہ دار بنا کر نہیں بھیجا،3
96۔ رب اگر چاہے تو تم پر رحم فرما دے :۔ سو ارشاد فرمایا گیا کہ ” تمہارا رب تمہیں اور تمہارے ظاہر وباطن کو پوری طرح اور ایک برابر جانتا ہے۔ پس وہ اگر چاہے تو تم پر رحم فرما دے۔ “ اور تم کو ہدایت و ایمان کی دولت سے نواز دے جبکہ تمہارے دلوں میں اس کیلئے طلب صادق پائی جائے اور تمہارے دلوں کا حال دنیا سے تو پوشیدہ اور مخفی رہ سکتا ہے لیکن تمہارے اس خالق ومالک سے مخفی ومستور نہیں رہ سکتا جو کہ دلوں کے حال کو پوری طرح جاننے والا اور علیم بذات الصدور ہے۔ سبحانہ وتعالیٰ ۔ اس لئے تمہیں ہمیشہ اسی کی فکر و کوشش میں رہنا چاہئے کہ اس کے ساتھ ہمارا معاملہ اور تعلق صحیح اور درست رہے کہ اس کی رضاء و خوشنودی اگر مل گئی تو پھر سب کچھ مل گیا اور اس کے بغیر اگر دنیا ساری بھی مل گئی تو بھی کچھ نہیں ملا۔ وباللہ التوفیق۔ سو ارشاد فرمایا گیا کہ وہ تم سب کو جانتا ہے اور پوری طرح جانتا ہے کہ وکون اس کی رحمت و عنایت اور ہدایت کا مستحق ہے اور کون محرومی اور اس کے عذاب کے لائق ہے۔ والعیاذ باللہ العظیم۔ اللہ ہمیشہ اور ہر اعتبار سے اپنا ہی بنائے رکھے۔ آمین ثم آمین یارب العالمین۔ 97۔ اور وہ اگر چاہے تو تم کو عذاب میں ڈال دے :۔ نور ایمان و یقین سے محروم وبے بہرہ رکھ کر۔ جب کہ تمہارے اندر اس کیلئے طلب صادق موجود نہ ہو کیونکہ اس کے یہاں فیصلہ دراصل دل کی کیفیت ہی پر مبنی ہوتا ہے کیونکہ وہ علیم بذات الصدور۔ پوری طرح جانتا ہے کہ کس کے دل کی کیفیت کیا ہے۔ سبحانہ وتعالیٰ اسی کے مطابق وہ فیصلہ فرماتا ہے کہ فیصلے کا اختیار اسی وحدہ لاشریک کو ہے اور اسی کا فیصلہ ہر حق اور عدل وانصاف اور حکمت کے تقاضوں کے مطابق ہوتا ہے۔ سبحانہ وتعالیٰ ۔ سو پیغمبر اور اس کے پیروکاروں کا کام اور ان کی اصل ذمہ داری تبلیغ حق ہے اور بس۔ آگے منوا لینا نہ ان کے بس میں ہے اور نہ ان کی ذمہ داری۔ یہ سب اللہ تعالیٰ ہی کے قبضہ قدرت واختیار میں ہے کہ دلوں کا مالک وہی وحدہ لاشریک ہے۔ وہی جس کو چاہتا ہے اپنے علم وحکمت کے مطابق نور ایمان و یقین سے نوازتا ہے اور جس کو چاہتا ہے اس کے خبث باطن اور سوء اختیار کے نتیجے میں عذاب دیتا ہے۔ والعیاذ باللہ العظیم۔ اللہ تعالیٰ ہمیشہ اپنی حفاظت وپناہ میں رکھے۔ آمین۔ 98۔ پیغمبر کی اصل ذمہ داری تبلیغ حق ہے اور بس :۔ سو ارشاد فرمایا گیا ” اور ہم نے آپ کو (اے پیغمبر ! ) ان لوگوں پر ذمہ داری بناکر نہیں بھیجا “ کہ آپ ان کو راہ حق پر لاکرچھوڑیں۔ آپ ﷺ کا کام تو حق کو پہنچا اور بتلا دینا ہے اور بس۔ اس کے بعد حساب لینا اور ہر کسی کو اس کے کیے کرائے کا بھرپور بدلہ دینا ہمارے ذمے ہے۔ ان علیک الا البلاغ وعلینا الحساب۔ سو آپ کی ذمہ داری تبلیغ حق اور انذار وتبشیر ہے اور پس۔ اس سے آگے بڑھ کر حق کو منوالینا نہ آپ ﷺ کی ذمہ داری ہے اور نہ ہی یہ آپ ﷺ کے پس میں ہے پس آپ لوگوں کے عناد اور ان کی ہٹ دھرمی سے خواہ مخواہ غمگین اور پریشان نہ ہوں۔ فلاتذھب نفسک علیہم حسرات۔ (فاطر : 8) سو ماننے نہ ماننے کی ذمہ داری خود ان ہی لوگوں پر عائد ہوتی ہے۔ اور اس کی پوچھ خود انہی سے ہوگی نہ کہ آپ سے۔ لست علیہم بمصیطر۔” آپ کوئی ان پر داروغے نہیں ہیں۔ “ پس منوا لینا اور راہ حق پر ڈال دینا نہ پیغمبر کی ذمہ داری ہے اور نہ اس کے بس میں۔ ان کا کام تو صرف تبلیغ حق ہے اور بس، ان علیک الا البلاغ وعلینا الحساب،
Top