Tafseer-e-Madani - Al-Hijr : 65
فَاَسْرِ بِاَهْلِكَ بِقِطْعٍ مِّنَ الَّیْلِ وَ اتَّبِعْ اَدْبَارَهُمْ وَ لَا یَلْتَفِتْ مِنْكُمْ اَحَدٌ وَّ امْضُوْا حَیْثُ تُؤْمَرُوْنَ
فَاَسْرِ : پس لے نکلیں آپ بِاَهْلِكَ : اپنے گھر والوں کو بِقِطْعٍ : ایک حصہ مِّنَ : سے الَّيْلِ : رات وَاتَّبِعْ : اور خود چلیں اَدْبَارَهُمْ : ان کے پیچھے وَلَا : اور نہ يَلْتَفِتْ : پیچھے مڑ کر دیکھے مِنْكُمْ : تم میں سے اَحَدٌ : کوئی وَّامْضُوْا : اور چلے جاؤ حَيْثُ : جیسے تُؤْمَرُوْنَ : تمہیں حکم دیا گیا
لہذا آپ نکل جائیں (یہاں سے) رات کا کچھ حصہ رہے، اپنے تعلق داروں کو ساتھ لے کر، اور آپ خود ان کے پیچھے پیچھے چلیں، تم میں سے کوئی پیچھے مڑ کر بھی نہ دیکھیے، اور چل نکلو تم سب جہاں جانے کا تمہیں حکم دیا جاتا ہے،
53۔ حضرت لوط (علیہ السلام) کو فرشتوں کی ہدایت : کہ اب چونکہ اس بدبخت قوم پر عذاب آیا چاہتا ہے۔ لہذا آپ اپنے متعلقین سمیت رات کے پچھلے حصے میں یہاں سے نکل جائیں۔ تاکہ آپ سب اس عذاب سے محفوظ رہیں اور یہ لوگ اپنے کئے کا پھل پائیں۔ سو اس سے معلوم ہوا کہ اللہ کے پیاروں کا کسی قوم اور علاقے کے اندر موجود ہونا وہاں کے لوگوں کے لیے امن و سلامتی کا سبب ہوتا ہے۔ اور ان کا وہاں سے نکل جانا ان کے لیے نکال ووبال کا پیش خیمہ۔ والعیاذ باللہ العظیم۔ خاص کر حضرات انبیائے کرام علیہم الصلوۃ والسلام۔ کہ ان کا وجود سراپا رحمت ہوتا ہے۔ اس لیے اللہ سبحانہ وتعالیٰ جب کسی قوم کو مبتلائے عذاب کرنا چاہتے ہیں۔ تو اپنے ان پاکیزہ بندوں کو وہاں سے نکال لیتے ہیں۔ بہرکیف فرشتوں کی طرف سے حضرت لوط (علیہ السلام) کو یہ ہدایت فرمائی گئی کہ آپ راتوں رات اپنے اہل و عیال اور دوسرے متعلقین سمیت یہاں سے نکل جائیں اور جہاں کے لیے آپ کو حکم کیا جاتا ہے آپ وہاں چلے جائیں کہ صبح ہوتے ہی اس بستی پر عذاب الہی آدھمکنے والا۔ والعیاذ باللہ العظیم۔ 54۔ اپنے متعلقین کے پیچھے چلنے کی ہدایت : سو ارشاد فرمایا گیا کہ فرشتوں نے حضرت لوط (علیہ السلام) سے فرمایا کہ آپ ان کے پیچھے پیچھے چلیں تاکہ اس طرح آپ ان کی حفاظت و نگرانی کرسکیں، اور ان میں سے کوئی پیچھے نہ رہنے پائے اور حضرت امام الانبیاء علیہ وعلیہم الصلوۃ والسلام۔ غزوات وغیرہ میں عموما پیچھے ہی رہا کرتے تاکہ کمزروں اور ضیعفوں کی خبر گیری کرسکیں۔ (ابن کثیر، وغیرہ) بہرکیف آپ ان کی خبرگیری کے لیے ان کے پیچھے پیچھے رہیں تاکہ کہیں ایسا نہ ہو کہ ان میں سے کوئی کسی غرض کے لیے پیچھے رہ جائے اور وہ عذاب کی لپیٹ میں آجائے (المراغی وغیرہ) کہ عام قاعدہ اور ضابطہ یہی ہے کہ راعی اپنے گلے کے پیچھے پیچھے ہی چلا کرتا ہے تاکہ کوئی بھیڑ ریوڑ سے الگ ہو کر کسی بھیڑیے کا شکار نہ ہوجائے۔ 55۔ حضرت لوط (علیہ السلام) کو خاص مقام تک چلنے کی ہدایت : چناچہ ارشاد فرمایا گیا کہ فرشتوں نے حضرت لوط (علیہ السلام) سے کہا کہ تم چلو جہاں جانے کے لیے تم کو حکم دیا جارہا ہے یعنی ملک شام کی طرف، قالہ ابن عباس ، (صفوۃ التفاسیر، جامع البیان، وغیرہ) یعنی پیچھے مڑ کر بھی نہ دیکھنا کہ جس ملک پر رب کا عذاب آنے والا ہے اس کو کیا دیکھنا۔ اس لیے اب یہاں سے سیدھے ملک شام کی طرف چل پڑو۔ (تفسیر المراغی) بہرکیف فرشتوں کی طرف سے حضرت لوط (علیہ السلام) کو یہ ہدایت بھی فرمائی گئی کہ جدھر جانے کے لیے آپ لوگوں کو ہدایت کی جارہی ہے اس کے لیے چل نکلوں۔ اور آپ میں سے کوئی اس بستی کی طرف مڑ کر بھی نہ دیکھے جس سے نکلنے کا حکم ہوا ہے۔ یہ انسانی فطرت اور اس کی طبیعت کا ایک عام تقاضا ہے کہ انسان کسی جگہ سے نکلتے ہوئے اس کی طرف مڑ مڑ کر دیکھتا ہے۔ جو اس بات کی علامت ہوتی ہے کہ اس کو اس کے ساتھ طبعی انس اور لگاؤ ہے۔ سو ایسا انس ولگاؤ عام حالات میں تو ایک فطری اور طبعی چیز ہے لیکن جس بستی کے لیے اتمام حجت کے بعد عذاب الہی کا فیصلہ ہوچکا ہے اس کو کیا دیکھنا۔ اہل ایمان کو تو اس سے اس طرح دامن جھاڑ کر نکلنا چاہئے کہ دل کے لگاؤ کا کوئی شائبہ بھی باقی نہ رہے۔
Top