Maarif-ul-Quran - As-Saff : 4
اِنَّ اللّٰهَ یُحِبُّ الَّذِیْنَ یُقَاتِلُوْنَ فِیْ سَبِیْلِهٖ صَفًّا كَاَنَّهُمْ بُنْیَانٌ مَّرْصُوْصٌ
اِنَّ اللّٰهَ : بیشک اللہ تعالیٰ يُحِبُّ الَّذِيْنَ : محبت رکھتا ہے ان لوگوں سے يُقَاتِلُوْنَ فِيْ : جو جنگ کرتے ہیں۔ میں سَبِيْلِهٖ : اس کے راستے (میں) صَفًّا : صف بستہ ہو کر۔ صف بنا کر كَاَنَّهُمْ بُنْيَانٌ : گویا کہ وہ دیوار ہیں۔ عمارت ہیں مَّرْصُوْصٌ : سیسہ پلائی ہوئی
اللہ چاہتا ہے ان لوگوں کو جو لڑتے ہیں اس کی راہ میں قطار باندھ کر گویا وہ دیوار ہیں سیسہ پلائی ہوئی
اگلی آیات میں اس اصل معاملہ کا ذکر ہے جو اس سورت کے نزول کا سبب بنا یعنی اس کا بیان کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک کونسا عمل زیادہ محبوب ہے، اس کے متعلق ارشاد فرمایا (آیت) اِنَّ اللّٰهَ يُحِبُّ الَّذِيْنَ يُقَاتِلُوْنَ فِيْ سَبِيْلِهٖ صَفًّا كَاَنَّهُمْ بُنْيَانٌ مَّرْصُوْصٌ، یعنی اللہ تعالیٰ کے نزدیک محبوب وہ صف قتال ہے جو اللہ کے دشمنوں کے مقابلہ میں اللہ کا کلمہ بلند کرنے کے لئے قائم ہو اور مجاہدین کے عزم و ہمت کی وجہ سے ایک سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی طرح ہو کہ ان کے قدموں میں کوئی تزلزل نہ آنے پائے۔
اس کے بعد حضرت موسیٰ اور عیسیٰ (علیہما السلام) کے جہاد فی سبیل اللہ اور اللہ کی راہ میں دشمنوں کی ایذا میں سہنے کا ذکر ہے اور اس کے بعد پھر مسلمانوں کو جہاد کی تلقین کی گئی، حضرت موسیٰ اور عیسیٰ (علیہما السلام) کے واقعات جن کا ذکر اس جگہ آیا ہے اس میں بھی بہت سے علمی و عملی فوائد اور ہدایات ہیں، حضرت عیسیٰ ؑ کے قصہ میں ہے کہ انہوں نے جب بنی اسرائیل کو اپنی نبوت کے ماننے اور اطاعت کرنے کی دعوت دی تو دو چیزوں کو خصوصیت سے ذکر فرمایا ایک یہ کہ وہ کوئی انوکھے رسول نہیں، انوکھی باتیں لے کر نہیں آئے بلکہ وہ باتیں ہیں جو پہلے انبیاء (علیہم السلام) کہتے آئے ہیں اور پہلی آسمانی کتابوں میں مذکور ہیں اور بعد میں بھی جو آخری پیغمبر آنے والے ہیں وہ بھی اسی قسم کی ہدایات لے کر آئیں گے۔
یہاں پہلی کتابوں میں سے تورات کا خصوصیت سے ذکر غالباً اس لئے کیا کہ بنی اسرائیل پر نازل ہونے والی قریبی کتاب وہی تھی ورنہ تصدیق انبیاء تو سب پچھلی کتابوں کو شامل اور عام ہے، نیز اس میں اشارہ اس طرف بھی ہے کہ شریعت عیسوی اگرچہ مستقل شریعت ہے مگر اس کے اکثر احکام شریعت موسوی اور تورات کے احکام ہی کے مطابق ہیں، صرف چنداحکام ہیں جو بدلے گئے ہیں، یہ تو پچھلے انبیاء اور کتابوں کی تصدیق کا مضمون تھا، دوسری چیز یہ کہ بعد میں آنے والے رسول کی خوشخبری سنائی، اس میں بھی اس طرف اشارہ ہے کہ ان کی ہدایات بھی اسی کے مطابق ہوں گی، اس لئے اس پر ایمان لانا عین تقاضائے عقل و دیانت ہے۔
ساتھ ہی جس آنے والے رسول کی خوشخبری عیسیٰ ؑ نے بنی اسرائیل کو سنائی، اس کا نام پتہ بھی انجیل میں بتلا دیا گیا، اس میں بنی اسرائیل کو اس کی ہدایت ہے کہ جب وہ رسول تشریف لائیں تو تمہارا فرض ہوگا کہ ان پر ایمان لاؤ اور ان کی اطاعت کرو وَمُبَشِّرًۢا بِرَسُوْلٍ يَّاْتِيْ مِنْۢ بَعْدِي اسْمُهٗٓ اَحْمَد میں اسی کا بیان ہے، اس میں آنے والے رسول کا نام احمد بتلایا گیا ہے، ہمارے نبی خاتم الانبیاء ﷺ کا نام محمد بھی تھا اور احمد بھی اور بھی متعدد نام تھے، مگر انجیل میں آپ کا نام احمد بتلانے میں شاید یہ مصلحت ہو کہ محمد نام رکھنے کا عرب میں قدیم سے دستور تھا، اس لئے اس نام کے دوسرے آدمی بھی عرب میں تھے، بخلاف احمد کے، یہ نام عرب میں معروف نہیں تھا، وہ آپ کی ذات ہی کے ساتھ مخصوص تھا۔
انجیل میں رسول اللہ ﷺ کی بشارت
یہ سب کو معلوم ہے اور خود یہود و نصاریٰ کو بھی اس کا اقرار کرنا پڑا ہے کہ تورات و انجیل میں تحریف ہوئی ہے اور حقیقت تو یہ ہے کہ ان دونوں کتابوں میں تحریف اتنی ہوئی ہے کہ اصل کلام کا پہچاننا بھی آسان نہیں رہا، موجودہ تحریف شدہ انجیل کی بنا پر آج کل کے عیسائی قرآن کی اس خبر کو تسلیم نہیں کرتے کہ انجیل میں کہیں رسول اللہ ﷺ کا نام احمد لے کر خوشخبری دی گئی ہو، اس کا مختصر جواب وہ کافی ہے جو اوپر خلاصہ تفسیر میں آ چکا ہے۔
اور مفصل جواب کے لئے حضرت مولانا رحمتہ اللہ کیرانوی ؒ کی کتاب اظہار الحق کا مطالعہ کیا جائے جو مذہب عیسائیت کی حقیقت اور انجیل میں تحریفات اور باوجود تحریفات کے اس میں رسول اللہ ﷺ کی بشارتیں موجود ہونے کے متعلق بینظیر کتاب ہے، خود بڑے عیسائیوں کے مقولے چھپے ہوئے ہیں کہ اگر ”دنیا میں یہ کتاب شائع ہوتی رہی تو عیسائیت کا کبھی فروغ نہیں ہو سکتا“۔
یہ کتاب عربی زبان میں لکھی گئی تھی پھر ترکی، انگریزی میں اس کے ترجمے چھپے، مگر اس کے شواہد موجود ہیں کہ عیسائی مشن نے اس کتاب کو گم کردینے میں اپنی پوری کوشش صرف کی ہے، اس کا اردو ترجمہ اب تک نہیں ہوا تھا، حال میں اس کا اردو ترجمہ دارالعلوم کراچی کے مدرس مولانا اکبر علی صاحب نے اور تحقیقات جدیدہ مفید موجودہ زمانے کی مطبوعہ انجیلوں سے مولانا محمد تقی صاحب استاذ دارالعلوم نے لکھی ہیں جو تین جلدوں میں شائع ہوچکی ہے، اس کی تیسری جلد میں صفحہ 182 سے صفحہ 362 تک انہی بشارتوں کی تفصیل موجودہ انجیلوں کے حوالے سے اور شبہات کے جوابات مذکور ہیں۔
Top