Maarif-ul-Quran - Al-An'aam : 108
وَ لَا تَسُبُّوا الَّذِیْنَ یَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ فَیَسُبُّوا اللّٰهَ عَدْوًۢا بِغَیْرِ عِلْمٍ١ؕ كَذٰلِكَ زَیَّنَّا لِكُلِّ اُمَّةٍ عَمَلَهُمْ١۪ ثُمَّ اِلٰى رَبِّهِمْ مَّرْجِعُهُمْ فَیُنَبِّئُهُمْ بِمَا كَانُوْا یَعْمَلُوْنَ
وَ : اور لَا تَسُبُّوا : تم نہ گالی دو الَّذِيْنَ : وہ جنہیں يَدْعُوْنَ : وہ پکارتے ہیں مِنْ : سے دُوْنِ اللّٰهِ : اللہ کے سوا فَيَسُبُّوا : پس وہ برا کہیں گے اللّٰهَ : اللہ عَدْوًۢا : گستاخی بِغَيْرِ عِلْمٍ : بےسمجھے بوجھے کَذٰلِكَ : اسی طرح زَيَّنَّا لِكُلِّ : ہم نے بھلا دکھایا ہر ایک اُمَّةٍ : فرقہ عَمَلَهُمْ : ان کا عمل ثُمَّ : پھر اِلٰى : طرف رَبِّهِمْ : اپنا رب مَّرْجِعُهُمْ : ان کو لوٹنا فَيُنَبِّئُهُمْ : وہ پھر ان کو جتا دے گا بِمَا : جو وہ كَانُوْا يَعْمَلُوْنَ : کرتے تھے
اور تم لوگ برا نہ کہو ان کو جن کی یہ پرستش کرتے ہیں اللہ کے سوا پس وہ برا کہنے لگیں گے اللہ کو بےادبی سے بدون سمجھے اسی طرح ہم نے مزین کردیا ہر ایک فرقہ کی نظر میں ان کے اعمال کو، پھر ان سب کو اپنے رب کے پاس پہنچنا ہے تب وہ جتلا دے گا ان کو جو کچھ وہ کرتے تھے
خلاصہ تفسیر
اور دشنام مت دو ان (معبودان باطلہ) کو جن کی یہ (مشرک) لوگ خدا (کی توحید) کو چھوڑ کر عبادت کرتے ہیں، کیونکہ (تمہارے ایسا کرنے سے) پھر وہ براہ جہل حد سے گذر کر (یعنی غصہ میں آکر) اللہ تعالیٰ کی شان میں گستاخی کریں گے (اور اس کا تعجب نہ کیا جائے کہ ایسی گستاخی کرنے والوں کو ساتھ کے ساتھ سزا کیوں نہیں مل جاتی، کیونکہ) ہم نے (دنیا میں تو) اسی طرح (جیسا ہورہا ہے) ہر طریقہ والوں کو ان کا عمل (بھلا ہو یا برا ہو) مرغوب بنا رکھا ہے (یعنی ایسے اسباب جمع ہوجاتے ہیں کہ ہر ایک کو اپنا طریقہ پسند ہے، اس سے معلوم ہوا کہ یہ عالم اصل میں ابتلاء و امتحان کا ہے، پس اس میں سزا ضروری نہیں) پھر (البتہ اپنے وقت پر) اپنے رب ہی کے پاس ان (سب) کو جانا ہے، سو (اس وقت) وہ ان کو جتلا دے گا جو کچھ بھی وہ (دنیا میں) کیا کرتے تھے (اور مجرمین کو سزا دے دے گا) اور ان (منکر) لوگوں نے قسموں میں بڑا زور لگا کر اللہ کی قسم کھائی کہ اگر ان کے (یعنی ہمارے) پاس (یعنی ان کے فرمائشی نشانوں میں سے) کوئی نشان (ظہور میں) آجاوے تو وہ (یعنی ہم) ضرور ہی اس (نشان) پر ایمان لے آویں گے (یعنی نشان ظاہر کرنے والے کی نبوت کو مان لیں گے) آپ (جواب میں) کہہ دیجئے کہ نشان سب خدا تعالیٰ کے قبضہ میں ہیں (وہ ان میں جس طرح چاہے تصرف فرما دے دوسرے کو دخل دینا اور فرمائش کرنا بےجا ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کو معلوم نہیں کہ کس کا ظاہر ہونا حکمت ہے اور کس کا ظاہر نہ ہونا حکمت ہے، البتہ بعثت رسل کے وقت مطلقاً کسی نشان کو ظاہر کردینا اس میں حکمت یقینی ہے، سو اللہ تعالیٰ بہت سے نشان صدق دعو ٰی رسالت محمدیہ پر ظاہر فرما چکے ہیں جو کہ دلالت کے لئے کافی ہیں، بس یہ ان کی فرمائش کا جواب ہوگیا) اور (چونکہ مسلمانوں کے دل میں خیال تھا کہ خوب ہو اگر یہ نشان ظاہر ہوجاویں، شاید ایمان لے آویں ان کو خطاب فرماتے ہیں کہ) تم کو اس کی کیا خبر (بلکہ ہم کو خبر ہے) کہ وہ (فرمائشی) نشان جس وقت (ظہور میں) آجاویں گے یہ لوگ (غایت عناد سے) جب بھی ایمان نہ لاوینگے اور (ان کے ایمان نہ لانے کی وجہ سے) ہم بھی ان کے دلوں کو (حق طلبی کے قصد سے) اور ان کی نگاہوں کو (حق بینی کی نظر سے) پھیر دیں گے (اور ان کا یہ ایمان نہ لانا ایسا ہے) جیسا یہ لوگ اس (قرآن) پر (کہ معجزہ عظیمہ ہے) پہلی دفعہ (جبکہ وہ آیا) ایمان نہیں لائے (تو اب ایمان نہ لانے کو بعید مت سمجھو) اور (تقلیب ابصار یعنی نگاہوں کو بےکار کرنے کا مطلب ظاہری تقلیب نہیں ہے، بلکہ مراد یہ ہے کہ) ہم ان کو ان کی سر کشی (وکفر) میں حیران (سرگرداں) رہنے دیں گے (ایمان کی توفیق نہ ہوگی کہ یہ معنوی تقلیب ہے) اور (ان کے عناد کی تو یہ کیفیت ہے کہ) اگر ہم (ایک فرمائشی نشان کیا کئی کئی اور بڑے بڑے فرمائشی نشان بھی ظاہر کردیتے، مثلاً یہ کہ) ان کے پاس فرشتوں کو بھیج دیتے (جیسا وہ کہتے ہیں (آیت) (لو لا انزل علینا الملائکة) اور ان سے مردے (زندہ ہو کر) باتیں کرنے لگتے (جیسا وہ کہتے ہیں (آیت) (فاتوا بآبائنا) اور (یہ تو صرف اتنا ہی کہتے ہیں (آیت) (تاتی باللہ والملائکة قبیلا) ہم (اسی پر اکتفاء نہ کرتے بلکہ) تمام موجودات (غیبیہ) کو (جس میں جنت و دوزخ سب کچھ آ گیا) ان کے پاس ان کی آنکھوں کے رو برو دلا کر جمع کردیتے، (کہ سب کو کھلم کھلا دیکھ لیتے) تب بھی یہ لوگ ہرگز ایمان نہ لاتے، ہاں مگر خدا ہی چاہے (اور ان کی تقدیر بدل دے) تو اور بات ہے (پس جب ان کے عناد و شرارت کی یہ کیفیت ہے اور خود بھی وہ اس کو جانتے ہیں کہ ہماری نیت اس وقت بھی ایمان لانے کی نہیں تو اس کا مقتضایہ تھا کہ نشانوں کی فرمائش نہ کرتے کہ محض بےکار ہے) لیکن ان میں زیادہ لوگ جہالت کی باتیں کرتے ہیں (کہ ایمان لانے کا تو قصد نہیں پھر خواہ مخواہ کی فرمائشیں کہ جہالت ہونا اس کا ظاہر ہے) اور (یہ لوگ جو آپ سے عداوت کرتے ہیں یہ کوئی نئی بات آپ ﷺ ہی کے لئے نہیں ہوتی، بلکہ جس طرح یہ آپ ﷺ سے عداوت رکھتے ہیں) اسی طرح ہم نے ہر نبی کے دشمن بہت سے شیطان پیدا کئے تھے، کچھ آدمی (جن سے اصل معاملہ تھا) اور کچھ جن (ابلیس اور اس کی اولاد) جن میں سے بعضے (یعنی ابلیس اور اس کا لشکر) دوسرے بعضوں کو (یعنی کافر آدمیوں کو) چکنی چپڑی باتوں کا وسوسہ ڈالتے رہتے تھے تاکہ ان کو دھوکہ میں ڈال دیں (مراد اس سے کفر و مخالفت کی باتیں ہیں کہ ظاہر میں نفس کو بھلی معلوم ہوتی تھیں، اور باطن میں مہلک تھیں، اور یہی دھوکہ ہے، جب یہ کوئی نئی بات نہیں تو اس کا غم نہ کیجئے کہ آپ کے ساتھ یہ لوگ ایسے معاملات کیوں کرتے ہیں، اصل یہ ہے کہ اس میں بعضی حکمتیں ہیں، اس وجہ سے ان کو ایسے امور پر قدرت بھی ہوگئی ہے) اور اگر اللہ تعالیٰ (یہ) چاہتا (کہ یہ لوگ ایسے امور پر قادر نہ رہیں) تو (پھر) یہ ایسے کام نہ کرسکتے (مگر بعض حکمتوں سے ان کو قدرت دے دی ہے) سو (جب اس میں حکمتیں ہیں تو) ان لوگوں کو اور جو کچھ یہ (دین کے بارہ میں) افتراء پردازی کر رہے ہیں (جیسے انکار نبوت جس پر عداوت مرتب ہے) اس کو آپ ﷺ رہنے دیجئے (اس کی فکر وغم میں نہ پڑئیے، ہم خود متعین وقت پر مناسب سزاء دیں گے کہ ان حکمتوں میں سے ایک یہ بھی ہے) اور (وہ شیاطین ان کافر آدمیوں کو اس لئے وسوسہ میں ڈالتے تھے) تاکہ اس (فریب آمیز بات) کی طرف ان لوگوں کے قلوب مائل ہوجاویں جو آخرت پر (جیسا چاہئے) یقین نہیں رکھتے (مراد کافر لوگ ہیں، اگرچہ اہل کتاب ہوں، کیونکہ جیسا چاہئے ان کو بھی یقین نہیں، ورنہ انکار نبوت پر جس پر قیامت میں سزاء ہوگی کبھی جرأت نہ کرتے) اور تاکہ (میلان نفسانی کے بعد) اس کو (اعتقاد قلبی سے بھی) پسند کرلیں اور تاکہ (اعتقاد کے بعد) مرتکب (بھی) ہوجاویں ان امور کے جن کے وہ مرتکب ہوتے تھے۔

معارف و مسائل
مذکورہ آیات میں سے پہلی آیت ایک خاص واقعہ میں نازل ہوئی ہے، اور اس میں ایک اہم اصولی مسئلہ کی ہدایت دی گئی ہے کہ جو کام خود کرنا جائز نہیں اس کا سبب اور ذریعہ بننا بھی جائز نہیں۔
آیت کا شان نزول ابن جریر کی روایت کے مطابق یہ ہے کہ جب رسول کریم ﷺ کے عم محترم ابو طالب مرض الموت میں تھے تو قریش کے مشرک سردار جو رسول کریم ﷺ کی عداوت اور ایذاء رسانی میں لگے ہوئے تھے، اور قتل کی سازشیں کرتے رہتے تھے، ان کو یہ فکر ہوئی کہ ابو طالب کی وفات ہمارے لئے ایک مشکل مسئلہ بن جائے گی، کیونکہ ان کے بعد اگر ہم محمد ﷺ کو قتل کریں گے تو یہ ہماری عزت شرافت کے خلاف ہوگا کہ لوگ کہیں گے کہ ابو طالب کے سامنے تو ان کا کچھ بگاڑ نہ سکے، ان کے موت کے بعد اکیلا پا کر قتل کردیا، اس لئے اب وقت ہے کہ ہم مل کر خود ابو طالب ہی سے کوئی فیصلہ کن بات کرلیں۔
یہ بات تقریباً ہر لکھا پڑھا مسلمان جانتا ہے کہ ابو طالب اگرچہ مسلمان نہیں ہوئے تھے لیکن آنحضرت ﷺ کی نہ صرف محبت بلکہ عظمت و جلالت بھی ان کے دل میں پیوست تھی، اور آپ کے دشمنوں کے مقابلہ میں سینہ سپر رہتے تھے۔
چند قریشی سرداروں نے یہ مشورہ کر کے ابو طالب کے پاس جانے کے لئے ایک وفد مرتب کیا، جس میں ابو سفیان، ابو جہل، عمروبن عاص وغیرہ قریشی سردار شامل تھے، ابو طالب سے اس وفد کی ملاقات کے لئے وقت لینے کا کام ایک شخص مطّلب نامی کے سپرد ہوا، اس نے ابوطالب سے اجازت لے کر اس وفد کو وہاں پہنچایا۔
وفد نے ابو طالب سے کہا کہ آپ ہمارے بڑے اور سردار ہیں، اور آپ کو معلوم ہے کہ آپ کے بھتیجے محمد ﷺ نے ہمیں اور ہمارے معبودوں کو سخت تکلیف اور ایذاء پہنچا رکھی ہے، ہم چاہتے ہیں کہ آپ ان کو بلا کر سمجھا دیں کہ وہ ہمارے معبودوں کو برا نہ کہیں تو ہم اس پر صلح کرلیں گے کہ وہ اپنے دین پر جس طرح چاہیں عمل کریں، جس کو چاہیں معبود بنائیں، ہم ان کو کچھ نہ کہیں گے۔
ابو طالب نے رسول اللہ ﷺ کو اپنے پاس بلایا اور کہا کہ یہ آپ کی برادری کے سردار آئے ہیں، آنحضرت ﷺ نے اس وفد سے مخاطب ہو کر فرمایا کہ آپ لوگ کیا چاہتے ہیں ؟ انہوں نے کہا کہ ہماری خواہش یہ ہے کہ آپ ﷺ ہمیں اور ہمارے معبودوں کو چھوڑ دیں، برا بھلا نہ کہیں، اور ہم آپ ﷺ کو اور آپ ﷺ کے معبود کو چھوڑ دیں گے، اس طرح باہمی مخالفت ختم ہوجائے گی۔
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ اچھا یہ بتلاؤ کہ اگر میں تمہاری یہ بات مان لوں تو کیا تم ایک ایسا کلمہ کہنے کے لئے تیار ہوجاؤ گے جس کے کہنے سے تم سارے عرب کے مالک ہوجاؤ گے، اور عجم کے لوگ بھی تمہارے تابع اور باج گزار بن جائیں گے۔
ا بوجہل بولا کہ ایسا کلمہ ایک نہیں ہم دس کہنے کو تیار ہیں، بتلائیے وہ کیا ہیں، آپ ﷺ نے فرمایا لَآ اِلٰہَ الاَّ اللہ یہ سنتے ہی سب برہم ہوگئے، ابوطالب نے بھی حضور ﷺ سے کہا کہ میرے بھتیجے ! اس کلمہ کے سوا کوئی اور بات کہو، کیونکہ آپ کی قوم اس کلمہ سے گھبرا گئی ہے۔
آپ ﷺ نے فرمایا ! چچا جان ! میں تو اس کلمہ کے سوا کوئی دوسرا کلمہ نہیں کہہ سکتا، اگر وہ آسمان سے آفتاب کو اتار لاویں اور میرے ہاتھ میں رکھ دیں جب بھی میں اس کلمہ کے سوا کوئی دوسرا ہرگز نہ کہوں گا، مقصود یہ تھا کہ ان کو مایوس کردیں۔
اس پر یہ لوگ ناراض ہو کر کہنے لگے یا تو آپ ﷺ ہمارے معبودوں (بتوں) کو برا کہنے سے باز آجائے، ورنہ ہم آپ ﷺ کو بھی گالیاں دیں گے اور اس ذات کو بھی جس کا رسول آپ ﷺ اپنے آپ کو بتلاتے ہیں، اس پر یہ آیت نازل ہوئی (آیت) وَلَا تَسُبُّوا الَّذِيْنَ يَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ ، یعنی آپ ﷺ ان بتوں کو برا نہ کہیں جن کو ان لوگوں نے خدا بنا رکھا ہے، جس کے نتیجہ میں وہ اللہ تعالیٰ کو برا کہنے لگیں اپنی بےراہ روی اور بےسمجھی سے۔
اس میں وَلَا تَسُبُّوا لفظ سَبّ سے مشتق ہے، جس کے معنی ہیں گالی دینا، رسول کریم ﷺ تو اپنے فطری اخلاق کی بناء پر پہلے ہی اس کے پابند تھے، کبھی بچپن میں بھی کسی انسان بلکہ کسی جانور کے لئے بھی گالی کا لفظ آپ ﷺ کی زبان مبارک پر جاری نہیں ہوا، ممکن ہے بعض صحابہ کرام کی زبان سے کبھی کوئی سخت کلمہ نکل بھی گیا ہو جس کو مشرکین مکہ نے گالی سے تعبیر کیا، اور قریشی سرداروں کے اس وفد نے حضور ﷺ کے سامنے اس معاملہ کو رکھ کر یہ اعلان کردیا کہ آپ ﷺ ہمارے بتوں کو سب وشتم کرنے سے باز نہ آئیں گے تو ہم آپ کے خدا کو سب وستم کریں گے۔
اس پر قرآنی حکم یہ نازل ہوا، جس کے ذریعہ مسلمانوں کو روک دیا گیا، کہ وہ مشرکین کے معبودات باطلہ کے متعلق کوئی سخت کلمہ نہ کہا کریں، اس آیت میں یہ بات خاص طور سے قابل نظر ہے کہ اس سے پہلی آیت میں خود آنحضرت ﷺ کو خطاب ہو رہا تھا، مثلاً ارشاد ہے(آیت) اتبع ما اوحی الیک من ربک، اور (آیت) واعرض عن المشرکین اور (آیت) وما جعلنک علیہم حفیظا اور (آیت) ما انت علیہم بوکیل، ان تمام صیغوں میں آنحضرت ﷺ مخاطب تھے، کہ آپ ﷺ ایساکریں یا ایسا نہ کریں، اس کے بعد اس آیت میں طرز خطاب رسول کریم ﷺ سے پھیر کر عام مسلمانوں کی طرف کردیا گیا، فرمایا وَلَا تَسُبُّوا اس میں اشارہ اس بات کی طرف ہے کہ آنحضرت ﷺ نے تو کبھی کسی کو گالی دی ہی نہیں تھی، ان کو براہ راست اس کلام کا مخاطب بنانا ان کی دل شکنی کا سبب ہوسکتا ہے، اس لئے خطاب عام کردیا گیا، اور تمام صحابہ کرام بھی اس میں احتیاط فرمانے لگے (کذا فی البحر المحیط)
رہا یہ معاملہ کہ قرآن کریم کی بہت سی آیات میں بتوں کا تذکرہ سخت الفاظ میں آیا ہے، اور وہ آیات منسوخ بھی نہیں، ان کی تلاوت اب بھی ہوتی ہے۔
اس کا جواب یہ ہے کہ آیات قرآنی میں جہاں کہیں ایسے الفاظ آئے ہیں وہ بطور مناظرہ کسی حقیقت کو واضح کرنے کے لئے وارد ہوئے ہیں وہاں کسی کی دل آزاری نہ پیش نظر ہے، اور نہ کوئی سمجھدار انسان ان سے یہ نتیجہ نکال سکتا ہے کہ اس میں بتوں کو برا کہنا یا مشرکین کو چڑانا منظور ہے، اور یہ ایک ایسا کھلا ہوا فرق ہے جس کو ہر زبان کے اہل محاورہ بآسانی سمجھ سکتے ہیں کہ کبھی کسی شخص کا کوئی عیب یا برائی کسی مسئلہ کی تنقیح کے لئے ذکر کی جاتی ہے، جیسے عام طور پر عدالتوں میں ہر روز سامنے آتا رہتا ہے، لیکن عدالت کے سامنے ہونے والے بیان کو دنیا میں کوئی آدمی یہ نہیں کہتا کہ فلاں نے فلاں کو گالی دی ہے، اسی طرح ڈاکٹروں اور حکیموں کے سامنے انسان کے بہت سے ایسے عیب بیان کئے جاتے ہیں کہ ان کو دوسری جگہ اور دوسری طرح کوئی بیان کرے گا تو گالی سمجھی جائے، لیکن بغرض علاج ان کے بیان کرنے کو کوئی گالی دینا نہیں کہتا۔
اسی طرح قرآن کریم نے جا بجا بتوں کے بےحس وبے شعور اور بےعلم وقدرت اور بےبس ہونے کو اس پیرایہ میں بیان فرمایا ہے کہ سمجھنے والے حقیقت کو سمجھ لیں، اور نہ سمجھنے والوں کی غلطی یا کوتاہ نظری واضح ہوجائے، جس کے نتیجہ میں ارشاد ہوا ہے ضعف الطالب والمطلوب،”یعنی یہ بت بھی کمزور ہیں اور ان کے چاہنے والے بھی کمزور“ یا یہ ارشاد ہوا ہے (آیت) انکم وما تعبدون من دون اللّہ حصب جہنم،”یعنی تم اور جن بتوں کی تم عبادت کرتے ہو وہ سب جہنم کا ایندھن ہیں“۔ یہاں بھی کسی کو برا بھلا کہنا مقصود نہیں، گمراہی اور غلطی کا انجام بد بیان کرنا مقصود ہے، اور فقہاء رحمہم اللہ نے تصریح فرمائی ہے کہ اگر کوئی شخص اس آیت کو بھی مشرکین کو چڑانے کے سبب سے پڑھے تو اس کے لئے اس وقت یہ تلاوت کرنا بھی سبِّ ممنوع میں داخل اور ناجائز ہے، جیسے مواضع مکروہہ میں تلاوت ِقرآن کا ناجائز ہونا سب کو معلوم ہے۔ (روح المعانی)
خلاصہ کلام یہ ہے کہ رسول کریم ﷺ کی زبان مبارک اور قرآن کریم میں تو نہ پہلے کبھی ایسا کلام آیا تھا جس کو لوگ گالی سمجھیں، اور نہ آئندہ آنے کا کوئی خطرہ تھا، ہاں مسلمانوں سے اس کا امکان تھا ان کو اس آیت نے ایسا کرنے سے روک دیا۔
اس واقعہ اور اس پر قرآنی ہدایت نے ایک بڑے علم کا دروازہ کھول دیا، اور چند اصولی مسائل اس سے نکل آئے۔
کسی گناہ کا سبب بننا بھی گناہ ہے
مثلاً ایک اصول یہ نکل آیا کہ جو کام اپنی ذات کے اعتبار سے جائز بلکہ کسی درجہ میں محمود بھی ہو مگر اس کے کرنے سے کوئی فساد لازم آتا ہو، یا اس کے نتیجہ میں لوگ مبتلائے معصیت ہوتے ہوں وہ کام بھی ممنوع ہوجاتا ہے، کیونکہ معبودات باطلہ یعنی بتوں کو برا کہنا کم از کم جائز تو ضرور ہے، اور ایمانی غیرت کے تقاضہ سے کہا جائے تو شاید اپنی ذات میں ثواب اور محمود بھی ہو، مگر چونکہ اس کے نتیجہ میں یہ اندیشہ ہوگیا کہ لوگ اللہ جل شانہ کو برا کہیں گے تو بتوں کو برا کہنے والے اس برائی کا سبب بن جائیں گے، اس لئے اس جائز کام کو بھی منع کردیا گیا۔
اس کی ایک اور مثال بھی حدیث میں اس طرح آئی ہے کہ آنحضرت ﷺ نے صحابہ کرام کو مخاطب کر کے فرمایا کہ کوئی شخص اپنے ماں باپ کو گالی نہ دے، صحابہ کرام نے عرض کیا یا رسول اللہ یہ تو کسی شخص سے ممکن ہی نہیں کہ اپنے ماں باپ کو گالی دے، فرمایا کہ ہاں انسان خود تو ان کو گالی نہیں دیتا، لیکن جب وہ کسی دوسرے شخص کے ماں باپ کو گالی دے اور اس کے نتیجہ میں وہ دوسرا اس کے ماں باپ کو گالی دے، تو اس گالی دلوانے کا سبب یہ بیٹا بنا، تو یہ بھی ایسا ہی ہے جیسے اس نے خود گالی دی۔
اسی معاملہ کی ایک دوسری مثال عہد رسالت میں یہ پیش آئی کہ رسول کریم ﷺ نے حضرت عائشہ صدیقہ ؓ سے فرمایا کہ بیت اللہ شریف زمانہ جاہلیت کے کسی حادثہ میں منہدم ہوگیا تھا تو قریش مکہ نے بعثت ونبو ّت سے پہلے اس کی تعمیر کرائی، اس تعمیر میں چند چیزیں بناء ابراہیمی کے خلاف ہوگئیں، ایک تو یہ کہ جس حصہ کو حطیم کہا جاتا ہے یہ بھی بیت اللہ کا جز ہے، تعمیر میں اس کو سرمایہ کم ہونے کی بناء پر چھوڑ دیا، دوسرے بیت اللہ شریف کے دو دروازے شرقی اور غربی تھے، ایک داخل ہونے کے لئے دوسرا باہر نکلنے کے لئے، اہل جاہلیت نے غربی دروازہ بند کرکے صرف ایک کردیا، اور وہ بھی سطح زمین سے بلند کردیا، تاکہ بیت اللہ شریف میں داخلہ صرف ان کی مرضی و اجازت سے ہوسکے، ہر شخص بےمحابانہ جاسکے، آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ میرا دل چاہتا ہے کہ بیت اللہ کی موجودہ تعمیر کو منہدم کرکے حضرت خلیل اللہ علیہ الصلوٰة والسلام کی تعمیر کے بالکل مطابق بنا دوں، مگر خطرہ یہ ہے کہ تمہاری قوم یعنی عام عرب ابھی ابھی مسلمان ہوئے ہیں، بیت اللہ کو منہدم کرنے سے کہیں ان کے دلوں میں کچھ شبہات نہ پیدا ہوجائیں، اس لئے میں نے اپنے ارادہ کو ترک کردیا۔
ظاہر ہے کہ بیت اللہ کی تعمیر کو بناء ابراہیمی کے مطابق بنانا ایک اطاعت اور کار ثواب تھا، مگر اس پر لوگوں کی ناواقفیت کے سبب ایک خطرہ کا ترتب دیکھ کر آپ ﷺ نے اس ارادہ کو ترک فرما دیا اس واقعہ سے بھی یہی اصول مستفاد ہوا کہ اگر کسی جائز بلکہ ثواب کے کام پر کوئی مفسدہ لازم آتا ہو تو وہ جائز کام بھی ممنوع ہوجاتا ہے۔
لیکن اس پر ایک قوی اشکال ہے، جس کو روح المعانی میں ابو منصور سے نقل کیا ہے، وہ یہ کہ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں پر جہاد و قتال لازم فرمایا ہے، حالانکہ قتال کا یہ لازمی نتیجہ ہے کہ مسلمان کسی غیر مسلم کو قتل کرنے کے ارادہ کرے گا تو وہ مسلمانوں کو قتل کریں گے، اور مسلمان کا قتل حرام ہے، تو اس اصول پر جہاد بھی ممنوع ہوجانا چاہئے، ایسے ہی ہماری تبلیغ اسلام اور تلاوت قرآن پر نیز اذان اور نماز پر بہت سے کفار مذاق اڑاتے اور مضحکہ بناتے ہیں، تو کیا ہم ان کے اس غلط رویہ کی بناء پر اپنی عبادات سے دستبردار ہوجائیں گے۔
اس کا جواب خود ابو منصور نے یہ دیا ہے کہ یہ اشکال ایک ضروری شرط کے نظر انداز کردینے سے پیدا ہوگیا ہے، شرط یہ ہے کہ وہ جائز کام جس کو لزوم مفسدہ کی وجہ سے منع کردیا گیا ہے اسلام کے مقاصد اور ضروری کاموں میں سے نہ ہو، جیسے معبودات باطلہ کو برا کہنا، اس سے اسلام کا کوئی مقصد متعلق نہیں، اسی طرح بیت اللہ کی تعمیر کو بناء ابراہیمی کے مطابق بنانا اس پر بھی کوئی اسلامی مقصد موقوف نہیں، اس لئے جب اس پر کسی دینی مفسدہ کا خطرہ لاحق ہوا تو ان کاموں کو ترک کردیا گیا، اور جو کام ایسے ہیں کہ اسلام میں خود مقصود ہیں، یا کوئی مقصد اسلامی اس پر موقوف ہے اگر دوسرے لوگوں کی غلط روی سے ان پر کوئی مفسدہ اور خرابی مرتب بھی ہوتی نظر آئے تو ان مقاصد کو ہرگز ترک نہ کیا جائے گا، بلکہ اس کی کوشش کی جائیگی کہ یہ کام تو اپنی جگہ جاری رہیں اور پیش آنے والے مفاسد جہاں تک ممکن ہو بند ہوجائیں۔
یہی وجہ ہے کہ ایک مرتبہ حضرت حسن بصری رحمة اللہ علیہ اور امام محمد بن سیرین رحمة اللہ علیہ دونوں حضرات ایک جنازہ کی نماز میں شرکت کے لئے چلے، وہاں دیکھا کہ مردوں کے ساتھ عورتوں کا بھی اجتماع ہے، اس کو دیکھ کر ابن سیرین واپس ہوگئے، مگر حضرت حسن بصری رحمة اللہ علیہ نے فرمایا کہ لوگوں کی غلط روش کی وجہ سے ہم اپنے ضروری کام کیسے چھوڑ دیں، نماز جنازہ فرض ہے اس کو اس مفسدہ کی وجہ سے ترک نہیں کیا جاسکا، ہاں اس کی کوشش تابمقدور کی جائے گی کہ یہ مفسدہ مٹ جائے۔ یہ واقعہ بھی روح المعانی میں نقل کیا گیا ہے۔
اس لئے خلاصہ اس اصول کا جو آیت مذکورہ سے نکلا ہے یہ ہوگیا کہ جو کام اپنی ذات میں جائز بلکہ اطاعت وثواب بھی ہو مگر مقاصد شرعیہ میں سے نہ ہو، اگر اس کے کرنے پر کچھ مفاسد لازم آجائیں تو وہ کام ترک کردینا واجب ہوجاتا ہے، بخلاف مقاصد شرعیہ کے کہ وہ لزوم مفاسد کی وجہ سے ترک نہیں کئے جاسکتے۔
اس اصول سے فقہاء امت نے ہزاروں مسائل کے احکام نکالے ہیں، فقہاء نے فرمایا ہے کہ کسی شخص کا بیٹا نافرمان ہو اور وہ یہ جانتا ہو کہ اس کو کسی کام کے کرنے کے لئے کہوں گا تو انکار کرے گا اور اس کے خلاف کرے گا جس سے اس کا سخت گناہگار ہونا لازم آئے گا تو ایسی صورت میں باپ کو چاہئے کہ اس کو حکم کے انداز میں کسی کام کے کرنے یا چھوڑنے کو نہ کہے، بلکہ نصیحت کے انداز میں اس طرح کہے کہ فلاں کام کرلیا جائے تو بہت اچھا ہو، تاکہ انکار یا خلاف کرنے کی صورت میں ایک جدید نافرمانی کا گناہ اس پر عائد نہ ہوجائے (خلاصہ الفتاوٰی)
اسی طرح کسی کو وعظ و نصیحت کرنے میں بھی اگر قرائن سے یہ معلوم ہوجائے کہ وہ نصیحت قبول کرنے کے بجائے کوئی ایسا غلط انداز اختیار کرے گا، جس کے نتیجہ میں وہ اور زیادہ گناہ میں مبتلا ہوجائے گا تو ایسی صورت میں نصیحت ترک کردینا بہتر ہے، امام بخاری رحمة اللہ علیہ نے صحیح بخاری رحمة اللہ علیہ میں اس موضوع پر ایک مستقل باب رکھا ہے باب من ترک بعض الاختیار مخافة ان یقصر فھم بعض الناس فقعوا فی اشد منہ، یعنی بعض اوقات جائز بلکہ مستحسن چیزوں کو اس لئے چھوڑ دیا جاتا ہے کہ اس سے کم فہم عوام کو کسی غلط فہمی میں مبتلا ہوجانے کا خطرہ ہوتا ہے، بشرطیکہ یہ کام مقاصد اسلامیہ میں داخل نہ ہو۔
مگر جو کام مقاصد اسلامیہ میں داخل ہیں خواہ فرائض و واجبات ہوں یا سنن مؤ کدہ یا دوسری قسم کے شعائر اسلامی، اگر ان کے ادا کرنے سے کچھ کم فہم لوگ غلطی میں مبتلا ہونے لگیں تو ان کاموں کو ہرگز نہ چھوڑا جائے گا، بلکہ دوسرے طریقوں سے لوگوں کی غلط فہمی اور غلط کاری کو دور کرنے کی کوشش کی جائے گی، ابتداء اسلام کے واقعات شاہد ہیں کہ نماز و تلاوت اور تبلیغ اسلام کی وجہ سے مشرکین مکہ کو اشتعال ہوتا تھا، مگر اس کی وجہ سے ان شعائر اسلام کو کبھی ترک نہیں کیا گیا، بلکہ خود آیت مذکورہ کے شان نزول میں جو واقعہ ابوجہل وغیرہ رؤ ساء قریش کا ذکر کیا گیا ہے اس کا حاصل یہی تھا کہ قریشی سردار اس پر صلح کرنا چاہتے تھے کہ آپ ﷺ توحید کی تبلیغ کرنا چھوڑ دیں، جس کے جواب میں آپ ﷺ نے فرمایا کہ میں یہ کام کسی حال میں نہیں کرسکتا اگرچہ وہ آفتاب و ماہتاب لاکر میرے ہاتھ پر رکھ دیں۔
اس لئے اس مسئلہ کی تنقیح اس طرح ہوگئی کہ جو کام مقاصد اسلامیہ میں داخل ہیں اگر ان کے کرنے سے کچھ لوگ غلط فہمی یا غلط کاری کا شکار ہوتے ہوں تو ان کاموں کو ہرگز نہ چھوڑا جائے گا، ہاں جو کام مقاصد اسلامیہ میں داخل نہیں، اور ان کے ترک کردینے سے کوئی دینی مقصد فوت نہیں ہوتا ایسے کاموں کو دوسروں کی غلط فہمی یا غلط کاری کے اندیشہ کی وجہ سے چھوڑ دیا جائیگا۔
Top