Maarif-ul-Quran - Al-An'aam : 109
وَ اَقْسَمُوْا بِاللّٰهِ جَهْدَ اَیْمَانِهِمْ لَئِنْ جَآءَتْهُمْ اٰیَةٌ لَّیُؤْمِنُنَّ بِهَا١ؕ قُلْ اِنَّمَا الْاٰیٰتُ عِنْدَ اللّٰهِ وَ مَا یُشْعِرُكُمْ١ۙ اَنَّهَاۤ اِذَا جَآءَتْ لَا یُؤْمِنُوْنَ
وَاَقْسَمُوْا : اور وہ قسم کھاتے تھے بِاللّٰهِ : اللہ کی جَهْدَ اَيْمَانِهِمْ : تاکید سے لَئِنْ : البتہ اگر جَآءَتْهُمْ : ان کے پاس آئے اٰيَةٌ : کوئی نشانی لَّيُؤْمِنُنَّ : تو ضرور ایمان لائیں گے بِهَا : اس پر قُلْ : آپ کہہ دیں اِنَّمَا : کہ الْاٰيٰتُ : نشانیاں عِنْدَ اللّٰهِ : اللہ کے پاس وَمَا : اور کیا يُشْعِرُكُمْ : خبر نہیں اَنَّهَآ : کہ وہ اِذَا جَآءَتْ : جب آئیں لَا يُؤْمِنُوْنَ : ایمان نہ لائیں گے
اور وہ قسمیں کھاتے ہیں اللہ کی تاکید سے کہ اگر آوے ان کے پاس کوئی نشانی تو ضرور اس پر ایمان لا دیں گے، تو کہہ دے کہ نشانیاں تو اللہ کے پاس ہیں اور تم کو اے مسلمانو ! کیا خبر ہے کہ جب وہ نشانیاں آویں گی تو یہ لوگ ایمان لے ہی آویں گے
پچھلی آیات میں اس کا ذکر تھا کہ رسول کریم ﷺ کے کھلے ہوئے معجزات اور اللہ تعالیٰ کی روشن نشانیوں کے باجود ہٹ دھرم لوگوں نے ان سے فائدہ نہ اٹھایا، اپنے انکار اور ضد پر جمے رہے، اگلی آیات میں اس کا ذکر ہے کہ ان لوگوں نے اپنی ضد اور ہٹ دھرمی کا ایک نیا روپ یہ بدلا کہ آنحضرت ﷺ سے خاص خاص قسم کے معجزات دکھلانے کا مطالبہ کیا، جیسا کہ ابن جریر رحمة اللہ علیہ نے نقل کیا ہے کہ قریشی سرداروں نے مطالبہ کیا کہ اگر آپ ﷺ ہمیں یہ معجزہ دکھلا دیں کہ کوہ صفا پورا سونا ہوجائے تو ہم آپ ﷺ کی نبوت و رسالت کو مان لیں گے، اور مسلمان ہوجائیں گے۔
آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ اچھا معاہدہ کرو کہ اگر یہ معجزہ ظاہر ہوگیا تو تم سب مسلمان ہوجاؤ گے، انہوں نے قسمیں کھا لیں، آپ ﷺ اللہ تعالیٰ سے دعا کرنے کے لئے کھڑے ہوگئے کہ اس پہاڑ کو سونا بنا دیجئے، حضرت جبرئیل ؑ وحی لے کر آئے کہ اگر آپ ﷺ چاہیں تو ہم ابھی اس پورے پہاڑ کو سونا بنادیں، لیکن قانون الٓہی کے مطابق اس کا یہ نتیجہ ہوگا کہ اگر پھر بھی یہ ایمان نہ لائے تو سب پر عذاب عام نازل کرکے ہلاک کردیا جائے گا، جیسی پچھلی قوموں میں ہمیشہ ہوتا رہا ہے، کہ انہوں نے کسی خاص معجزہ کا مطالبہ کیا، وہ دکھایا گیا، اور وہ پھر بھی منکر ہوگئے، تو ان پر خدا تعالیٰ کا قہر و عذاب نازل ہوگیا، رحمة اللعالمین ﷺ چونکہ ان لوگوں کی عادات اور ہٹ دھرمی سے واقف تھے، بمقضائے شفقت آپ ﷺ نے فرمایا کہ اب میں اس معجزہ کی دعا نہیں کرتا، اس واقعہ پر یہ آیت نازل ہوئی، وَاَقْسَمُوْا باللّٰهِ جَهْدَ اَيْمَانِهِمْ ، جس میں کفار کے قول کی نقل کی ہے، کہ انہوں نے مطلوبہ معجزہ ظاہر ہونے پر مسلمان ہوجانے کے لئے قسمیں کھالیں، اس کے بعد کی آیت اِنَّمَا الْاٰيٰتُ عِنْدَ اللّٰهِ میں ان کے قول کا جواب ہے کہ معجزات اور نشانیاں سب اللہ تعالیٰ کے اختیار میں ہیں، اور جو معجزات ظاہر ہوچکے ہیں وہ بھی اسی کی طرف سے تھے، اور جن کا مطالبہ کیا جا رہا ہے ان پر بھی وہ پوری طرح قادر ہے، لیکن ازروئے عقل و انصاف ان کو ایسا مطالبہ کرنے کا کوئی حق نہیں، کیونکہ رسول کریم ﷺ کے رسول ہونے کے مدعی ہیں، اور اس دعوے پر بہت سے دلائل اور شہادتیں معجزات کی صورت میں پیش فرما چکے ہیں، اب دوسرے فریق کو اس کا تو حق ہے کہ ان دلائل اور شہادتوں پر جرح کرے ان کو غلط ثابت کرے، لیکن ان پیش کردہ شہادتوں میں کوئی جرح نہ کریں اور پھر یہ مطالبہ کریں کہ ہم تو دوسری شہادتیں چاہتے ہیں، یہ ایسا ہوگا جیسا عدالت میں کوئی مدعا علیہ مدعی کے پیش کردہ گواہوں پر تو کوئی جرح نہ کرے، مگر یہ کہے کہ میں تو ان گواہوں کی شہادت نہیں مانتا، بلکہ فلاں معیّن شخص کی گواہی پر بات مانوں گا، اس کو کوئی عدالت قابل سماعت نہ سمجھے گی۔
اسی طرح نبوت و رسالت پر بیشمار آیات بینات اور معجزات ظاہر ہوجانے کے بعد جب تک ان معجزات کو غلط ثابت نہ کریں ان کو یہ کہنے کا حق نہیں کہ ہم تو فلاں قسم کا معجزہ دیکھیں گے جب ایمان لائیں گے۔
اس کے بعد آخر آیات تک مسلمانوں کو فہمائش اور خطاب ہی کہ تمہارا کام دین حق پر خود قائم رہنا اور دوسروں کو صحیح طریقہ سے پہنچا دینا ہے، پھر بھی اگر وہ ہٹ دھرمی کرنے لگیں تو ان کی فکر میں پڑنا نہیں چاہئے، کیونکہ زبردستی کسی کو مسلمان بنانا نہیں، اگر زبردستی بنانا ہوتا تو اللہ تعالیٰ سے زیادہ زبردست کون ہے، وہ خود ہی سب کو مسلمان بنا دیتے، اور ان آیات میں مسلمانوں کو مطمئن کرنے کے لئے یہ بھی بتلا دیا گیا کہ اگر ہم ان کے مانگے ہوئے معجزات کو بھی بالکل کھلے اور واضح طور پر ظاہر کردیں یہ جب بھی ایمان نہ لائیں گے، کیونکہ ان کا انکار کسی غلط فہمی یا ناواقفیت کی وجہ سے نہیں، بلکہ ضد اور عناد اور ہٹ دھرمی سے ہے، جس کا علاج کسی معجزہ سے نہیں ہوا کرتا،
Top