Maarif-ul-Quran - Al-Waaqia : 79
لَّا یَمَسُّهٗۤ اِلَّا الْمُطَهَّرُوْنَؕ
لَّا يَمَسُّهٗٓ : نہیں چھوتے اس کو اِلَّا : مگر الْمُطَهَّرُوْنَ : مطہرین۔ پاکیزہ لوگ
اس کو وہی چھوتے ہیں جو پاک بنائے گئے ہیں
لَّا يَمَسُّهٗٓ اِلَّا الْمُطَهَّرُوْنَ ، یہاں دو مسئلے غور طلب اور ائمہ تفسیر میں مختلف فیہ ہیں، اول یہ کہ نحوی ترکیب کے اعتبار سے اس جملے میں دو احتمال ہیں، ایک یہ کہ جس کتاب کی ایک صفت مکنون آئی یہ جملہ اسی کتاب کی دوسری صفت ہے اور ضمیر لا یمسہ کی اسی کتاب کی طرف راجع ہے، اس صورت میں معنی آیت کے یہ ہوتے ہیں کتاب مکنون یعنی لوح محفوظ کو سوائے پاک لوگوں کے اور کوئی نہیں چھو سکتا اور یہ بھی ظاہر ہے کہ اس صورت میں مطہرون کی مراد صرف فرشتے ہی ہو سکتے ہیں، جن کی رسائی لوح محفوظ تک ہو سکے اور یہ بھی ظاہر ہے کہ اس صورت میں لفظ مس اپنے حقیقی معنی ہاتھ سے چھونے کے مفہوم میں نہیں لیا جاسکتا، بلکہ مس کرنے اور چھونے کے مجازی اور لازمی معنی مراد لینے ہوں گے، یعنی لوح محفوظ میں لکھے ہوئے مضامین پر مطلع ہونا کیونکہ لوح محفوظ کو ہاتھ سے چھونا کسی مخلوق فرشتے وغیرہ کا کام نہیں (قرطبی) بیان القرآن کے مذکور الصدر خلاصہ تفسیر میں یہی ترکیب اور مفہوم اختیار کر کے تفسیر کی گئی ہے۔
دوسرا احتمال اس جملے کی ترکیب نحوی میں یہ ہے کہ اس کو قرآن کی صفت بنایا جائے جو اوپر اِنَّهٗ لَقُرْاٰنٌ كَرِيْمٌ میں مذکور ہے اس صورت میں لا یمسہ کی ضمیر قرآن کی طرف راجع ہوگی اور اس سے مراد وہ صحیفہ ہوگا جس میں قرآن لکھا ہوا ہو اور لفظ مس اپنے حقیقی معنی ہاتھ سے چھونے کے مفہوم میں رہے گا، مجاز کی ضرورت نہ ہوگی، اسی لئے قرطبی وغیرہ مفسرین نے اس کو ترجیح دی ہے اور امام مالک نے فرمایا کہ آیت لّا يَمَسُّهٗٓ اِلَّا الْمُطَهَّرُوْنَ کی تفسیر میں کچھ میں نے سنا ہے ان سب میں بہتر یہ قول ہے کہ اس کا وہی مفہوم ہے جو سورة عبس کی آیت کا ہے یعنی فِيْ صُحُفٍ مُّكَرَّمَةٍ مَّرْفُوْعَةٍ مُّطَهَّرَةٍۢ بِاَيْدِيْ سَفَرَةٍ كِرَامٍۢ بَرَرَةٍ (قرطبی و روح المعانی) اور اس کا حاصل یہ ہے کہ یہ جملہ کتاب مکنون کی صفت نہیں بلکہ قرآن کی صفت ہے اور قرآن سے مراد وہ صحیفے ہیں جو وحی لانے والے فرشتوں کے ہاتھ میں دیئے جاتے ہیں۔
دوسرا مسئلہ غور طلب اور مختلف فیہ اس آیت میں یہ ہے کہ مطہرون سے کون مراد ہیں، صحابہ وتابعین اور مفسرین کی ایک بڑی جماعت کے نزدیک مطہرون سے مراد فرشتے ہیں جو معاصی اور رذائل سے پاک و معصوم ہیں، یہ قول حضرت انس اور سعید بن جبیر سے منقول ہے (قرطبی) حضرت ابن عباس کا بھی یہی قول ہے (ابن کثیر) امام مالک نے بھی اسی کو اختیار کیا ہے (قرطبی)
اور بعض حضرات مفسرین نے فرمایا کہ قرآن سے مراد وہ مصحف ہے جو ہمارے ہاتھوں میں ہے اور مطہرون سے مراد وہ لوگ ہیں جو نجاست ظاہری اور معنوی یعنی حدث اصغر و اکبر سے پاک ہوں، حدث اصغر کے معنی بےوضو ہونے کے ہیں، اس کا ازالہ وضو کرنے سے ہوجاتا ہے اور حدث اکبر جنابت اور حیض و نفاس کو کہا جاتا ہے جس سے پاکی کے لئے غسل ضروری ہے، یہ تفسیر حضرت عطاء، طاؤس، سالم اور حضرت محمد باقر سے منقول ہے (روح) اس صورت میں جملہ لا یمسہ اگرچہ جملہ خبریہ ہے مگر اس خبر کو بحکم انشاء یعنی نہی و ممانعت کے معنی میں قرار دیا جائے گا اور مطلب آیت کا یہ ہوگا کہ مصحف قرآن کو چھونا بغیر طہارت کے جائز نہیں اور طہارت کے مفہوم میں یہ بھی داخل ہے کہ ظاہری نجاست سے بھی اس کا ہاتھ پاک ہو اور بےوضو بھی نہ ہو اور حدث اکبر یعنی جنابت بھی نہ ہو، قرطبی نے اسی تفسیر کو اظہر فرمایا ہے، تفسیر مظہری میں اسی کی ترجیح پر زور دیا ہے۔
حضرت فاروق اعظم کے اسلام لانے کے واقعہ میں جو مذکور ہے کہ انہوں اپنی بہن کو قرآن پڑھتے ہوئے پایا تو اوراق قرآن کو دیکھنا چاہا، ان کی بہن نے یہی آیت پڑھ کر اوراق قرآن ان کے ہاتھ میں دینے سے انکار کیا کہ اس کو پاک لوگوں کے سوا کوئی نہیں چھو سکتا، فاروق اعظم نے مجبور ہو کر غسل کیا، پھر یہ اوراق پڑھے، اس واقعہ سے بھی اسی آخری تفسیر کی ترجیح ہوتی ہے اور روایات حدیث جن میں غیر طاہر کو قرآن کے چھونے سے منع کیا گیا ہے، ان روایات کو بھی بعض حضرات نے اس آخری تفسیر کی ترجیح کے لئے پیش کیا ہے۔
مگر چونکہ اس مسئلے میں حضرت ابن عباس اور حضرت انس وغیرہ کا اختلاف ہے جو اوپر آ چکا ہے، اس لئے بہت سے حضرات نے بےوضو قرآن کو ہاتھ لگانے کی ممانعت کے مسئلے میں آیت مذکورہ سے استدلال چھوڑ کر صرف روایات حدیث کو پیش کیا (روح المعانی) وہ احادیث یہ ہیں۔
امام مالک نے مؤطاء میں رسول اللہ ﷺ کا وہ مکتوب گرامی نقل کیا ہے جو آپ نے حضرت عمرو بن حزم کو لکھا تھا، جس میں ایک جملہ یہ بھی ہے لا یمس القران الا طاھر (ابن کثیر) یعنی قرآن کو وہ شخص نہ چھوئے جو طاہر نہ ہو۔
اور روح المعانی میں روایت مسند عبدالرزاق، ابن ابی داؤد اور ابن المنذر سے بھی نقل کی ہے اور طبرانی و ابن مردویہ نے حضرت عبداللہ بن عمر سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا لا یمس القران الا طاہر (روح المعانی) یعنی قرآن کو ہاتھ نہ لگائے بجز اس شخص کے جو پاک ہو۔
مسئلہ
روایات مذکورہ کی بنا پر جمہور امت اور ائمہ اربعہ کا اس پر اتفاق ہے کہ قرآن کریم کو ہاتھ لگانے کے لئے طہارت شرط ہے اس کے خلاف گناہ ہے، ظاہری نجاست سے ہاتھ کا پاک ہونا، باوضو ہونا، حالت جنابت میں نہ ہونا سب اس میں داخل ہے، حضرت علی مرتضیٰ ، ابن مسعود، سعد بن ابی وقاص، سعید ابن زید، عطاء اور زہری، نخعی، حکم، حماد، امام مالک، شافعی، ابوحنیفہ سب کا یہی مسلک ہے، اوپر جو اختلاف اقوال نقل کیا گیا ہے وہ صرف اس بات میں ہے کہ یہ مسئلہ جو احادیث مذکورہ سے ثابت اور جمہور امت کے نزدیک مسلم ہے، کیا یہ بات قرآن کی آیت مذکورہ سے بھی ثابت ہے یا نہیں، بعض حضرات نے اس آیت کا مفہوم اور احادیث مذکورہ کا مفہوم ایک قرار دیا اور اس آیت اور احادیث مذکورہ کے مجموعہ سے اس مسئلہ کو ثابت کیا، دوسرے حضرات نے آیت کو استدلال میں پیش کرنے سے بوجہ اختلاف صحابہ احتیاط کی، لیکن احادیث مذکورہ کی بناء پر مسلک سب نے یہی اختیار کیا کہ بےوضو و بےطہارت قرآن کو ہاتھ لگانا جائز نہیں، اس لئے خلاف مسئلے میں نہیں، بلکہ اس کی دلیل میں ہوا ہے۔
مسئلہ
قرآن مجید کا غلاف جو جلد کے ساتھ سلا ہوا ہو وہ بھی بحکم قرآن ہے، اس کو بھی بغیر وضو و بغیر طہارت کے ہاتھ لگانا باتفاق ائمہ اربعہ ناجائز ہے، البتہ قرآن مجید کا جز دان جو علیحدہ کپڑے کا ہوتا ہے اگر اس میں قرآن بند ہے تو اس جزدان کے ساتھ قرآن کریم کو ہاتھ لگنا بلا وضو ابوحنیفہ کے نزدیک جائز ہے، مگر امام مالک اور شافعی کے نزدیک یہ بھی ناجائز ہے (مظہری)
مسئلہ
جو کپڑا آدمی نے پہنا ہوا ہے اس کی آستین یا دامن سے قرآن مجید کو بلا وضو چھونا بھی جائز نہیں، البتہ علیحدہ رومال یا چادر سے چھوا جاسکتا ہے (مظہری)
مسئلہ
علماء نے فرمایا کہ اسی آیت سے بدرجہ اولیٰ یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ جنابت یا حیض و نفاس کی حالت میں قرآن کی تلاوت بھی جائز نہیں، جب تک غسل نہ کرے کیونکہ مصحف میں لکھے ہوئے حروف و نقوش کی جب یہ تعظیم واجب ہے تو اصل حروف جو زبان سے ادا ہوتے ہیں ان کی تعظیم اس سے زیادہ اہم اور واجب ہونا چاہئے، اس کو مقتضی تو یہ تھا کہ بےوضو آدمی کو بھی تلاوت قرآن جائز نہ ہو، مگر حضرت ابن عباس کی حدیث جو بخاری و مسلم میں ہے اور حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی حدیث میں مسند احمد میں ہے اس سے بغیر وضو کے تلاوت قرآن فرمانا رسول اللہ ﷺ سے ثابت ہے، اس لئے فقہاء نے بلا وضو تلاوت کی اجازت دی ہے (تفسیر مظہری)
Top