Maarif-ul-Quran - Al-Waaqia : 75
فَلَاۤ اُقْسِمُ بِمَوٰقِعِ النُّجُوْمِۙ
فَلَآ اُقْسِمُ : پس نہیں میں قسم کھاتا ہوں بِمَوٰقِعِ النُّجُوْمِ : تاروں کے مواقع کی۔ غروب ہونے کی جگہوں کی
سو میں قسم کھاتا ہوں تاروں کے ڈوبنے کی
خلاصہ تفسیر
(اور دلائل عقلیہ سے بعث یعنی مر کر زندہ ہونے کا امکان ثابت ہونے کے بعد قرآن سے جو اس کا وقوع ثابت ہے اور تم اس قرآن کو نہیں مانتے) سو میں قسم کھاتا ہوں ستاروں کے چھپنے کی اور اگر تم غور کرو تو یہ ایک بڑی قسم ہے (اور قسم اس بات کی کھاتا ہوں) کہ یہ (قرآن جو پیغمبر ﷺ پر نازل ہوتا ہے بوجہ منزل من اللہ ہونے کے) ایک مکرم قرآن ہے جو ایک محفوظ کتاب (یعنی لوح محفوظ) میں (پہلے سے) درج ہے (اور وہ لوح محفوظ ایس ہے) کہ بجز اس کو پاک فرشتوں کے (کہ گناہوں سے بالکلیہ پاک ہیں) کوئی (شیطان وغیرہ) ہاتھ نہیں لگانے پاتا (اس کے مضامین پر مطلع ہونا دور کی بات ہے، پس وہاں سے یہاں خاص طور پر آنا فرشتے ہی کے ذریعے سے ہے اور یہی نبوت ہے اور شیاطین اس کو لا ہی نہیں سکتے، کہ احتمال کہانت وغیرہ سے نبوت میں شبہ ہو، کقولہ تعالیٰ نزل بہ الروح الامین، وقولہ تعالیٰ و ما تنزلت بہ الشیطین، اس سے ثابت ہوا کہ) یہ رب العالمین کی طرف سے بھیجا ہوا ہے (جو کہ اشارة کریم کا مدلول تھا، یہاں ستاروں کے چھپنے کی قسم اپنے مفہوم و مقصد کے اعتبار سے ایسی ہے جیسے شروع سورة النجم میں ہے جس کا وہاں بیان ہوچکا ہے جس میں ستاروں کا باعتبار غروب کے حضور ﷺ کے موصوف بالنبوة اور منار الہدیٰ ہونے کا نظیر ہونا بھی بیان ہوا ہے جو کہ مقصود مقام ہے اور قسمیں جتنی قرآن میں ہیں بوجہ دلالت علی المطلوب کے سب ہی عظیم ہیں، لیکن کہیں کہیں مطلوب کے خاص اہتمام اور اس پر زیادہ متنبہ کرنے کے لئے عظیم ہونے کی تصریح بھی فرما دی ہے، جیسا کہ اس جگہ اور سورة الفجر میں حاصل مقام کا اجمالاً وہ ہے جو تفصیلاً اخیر رکوع میں سورة شعراء کے ارشاد ہوا ہے) سو (جب اس کا منزل من اللہ ہونا ثابت ہے تو) کیا تم لوگ اس کلام کو سرسری بات سمجھتے ہو (یعنی اس کو واجب التصدیق نہیں جانتے) اور (اس مداہنت سے بڑھ کر یہ کہ) تکذیب کو اپنی غذا بنا رہے ہو (اور اس لئے توحید و وقوع قیامت کا بھی انکار کرتے ہو) سو (اگر یہ انکار حق ہے تو) جس وقت (مرنے کے قریب کسی شخص کی) روح حلق تک آپہنچتی ہے اور تم اس وقت (بیٹھے حسرت آلودہ نگاہ سے) تکا کرتے ہو اور ہم (اس وقت) اس (مرنے والے) شخص کے تم سے بھی زیادہ نزدیک ہوتے ہیں (یعنی تم سے بھی زیادہ اس شخص کے حال سے واقف ہوتے ہیں، کیونکہ تم صرف ظاہری حالت دیکھتے ہو اور ہم اس کی باطنی حالت پر بھی مطلع ہوتے ہیں) لیکن (ہمارے اس قرب علمی کو بوجہ اپنے جہل و کفر کے) تم سمجھتے نہیں ہو تو (فی الواقع) اگر تمہارا حساب کتاب ہونے والا نہیں ہے (جیسا تمہارا خیال ہے) تو تم اس روح کو (بدن کی طرف) پھر کیوں نہیں لوٹا لاتے ہو (جس کی اس وقت تم کو تمنا بھی ہوا کرتی ہے) اگر (اس انکار قیامت و حساب میں) تم سچے ہو (مطلب یہ کہ قرآن صادق ہے اور وقوع بعث کا ناطق ہے، پس مقتضی وقوع متحقق ہوا اور مانع کوئی امر ہی نہیں پس وقوع ثابت ہوگیا اور اس پر بھی تمہارا انکار اور نفی کئے چلا جانا بدلالت حال اس کو مستلزم ہے کہ گویا تم روح کو اپنے بس میں سمجھتے ہو کہ گو قیامت میں خدا دوبارہ روح ڈالنا چاہئے جیسا کہ مقتضے ٰ قرآن کا ہے مگر ہم نہ ڈالنے دیں گے اور بعث نہ ہونے دیں گے، جب ہی تو ایسے زور سے نفی کرتے ہو، ورنہ جو اپنے کو عاجز جانے وہ دلائل وقوع کے بعد ایسے زور کی بات کیوں کہے، سو اگر تم اپنے بس میں سمجھتے ہو تو ذرا اپنا زور اسی وقت دکھلا دو جبکہ کسی قریب الموت انسان کے بقاء حیات کے متمنی بھی ہوتے ہو اور دیکھ دیکھ کر رحم بھی آتا ہے دل گیر بھی ہوتے ہو اور وہ زور دکھلانا یہ کہ اس روح کو نکلنے نہ دو بدن میں لوٹا دو جب اس پر بس نہیں کہ روح کو بدن سے نکلنے نہ دو تو اس کو دوبارہ پیدا کرنے سے روکنے پر کیسے تمہارا بس چلے گا، پس ایسے لاطائل دعوے کیوں کرتے ہو اور چونکہ مقام ہے نفی قدرت کا اور نفی علم مستلزم ہے نفی تعلق قدرت کو، اس لئے نحن اقرب جملہ معترضہ میں ان کے علم تام کی نفی فرما دی اور چونکہ یہ دلیل کافی ان کے لئے شافی نہ ہوئی، اس لئے لا تبصرون میں توبیخ بھی فرما دی اور چونکہ اس تقدیر سے اثبات قدرت بھی ہوا اس لئے بعث کے ساتھ یہ توحید کی بھی دلیل ہے، آگے کیفیت مجازاة کی ارشاد ہے، یعنی یہ تو ثابت ہوچکا کہ قیامت اپنے وقت پر ضروری آوے گی) پھر (جب قیامت واقع ہوگی تو) جو شخص مقربین میں سے ہوگا (جن کا ذکر اوپر آیا ہے والسابقون الخ) اس کے لئے تو راحت ہے اور (فراغت کی) غذائیں ہیں اور آرام کی جنت ہے اور جو شخص داہنے والوں میں سے ہوگا (جن کا ذکر اوپر آیا ہے واصحب الیمین الخ) تو اس سے کہا جاوے گا کہ تیرے لئے (ہر آفت اور خطرہ سے) امن وامان ہے کہ تو داہنے والوں میں سے ہے (اور یہ کہنا خواہ ابتداً ہو اگر فضل یا توبہ کے سبب اول ہی مغفرت ہوجاوے یا انتہاً ہو اگر بعد سزا کے مغفرت ہو اور یہاں روح و ریحان کا ذکر نہ فرمانا نفی کے لئے نہیں بلکہ اشارہ اس طرف ہے کہ یہ سابقین سے ان امور میں کم ہوگا) اور جو شخص جھٹلانے والوں (اور) گمراہوں میں سے ہوگا تو کھولتے ہوئے پانی سے اس کی دعوت ہوگی اور دوزخ میں داخل ہونا ہوگا، بیشک یہ (جو کچھ مذکور ہوا) تحقیقی یقینی بات ہے سو (جس کے یہ تصرفات ہیں) اپنے (اس) عظیم الشان پروردگار کے نام کی تسبیح (وتحمید) کیجئے (وقد مر آنفاً)۔
معارف و مسائل
سابقہ آیات میں عقلی دلائل سے قیامت میں دوبارہ زندہ ہونے کا ثبوت حق تعالیٰ کی قدرت کاملہ اور اس دنیاوی تخلیق کے ذریعہ دیا گیا تھا، آگے نقلی دلیل اسی پر حق تعالیٰ کی طرف سے قسم کے ساتھ دی گئی ہے۔
فَلَآ اُقْسِمُ بِمَوٰقِعِ النُّجُوْمِ ، لفظ لا قسم کے شروع میں ایک عام محاورہ ہے، جیسے لا واللہ اور جاہلیت کی قسموں میں لا وابیک مشہور ہے، بعض حضرات نے اس حرف لا کو زائد قرار دیا ہے اور بعض نے اس کی توجیہ یہ کی کہ اس موقع پر حرف لا مخاطب کے گمان کی نفی کے لئے ہوتا ہے، یعنی لیس کما تقول، یعنی جیسا تم کہتے اور سمجھتے ہو وہ بات نہیں، بلکہ حقیقت وہ ہے جو آگے قسم کھا کر بتلائی جاتی ہے۔
مواقع، موقع کی جمع ہے جس کے معنی ہیں ستاروں کے غروب ہونے کی جگہ یا وقت، اس آیت میں ستاروں کی قسم کو غروب کے وقت کے ساتھ مقید کیا گیا ہے، جیسے سورة نجم میں بھی والنَّجْمِ اِذَا هَوٰى میں بھی وقت غروب کی قید ہے، اس قید کی حکمت یہ ہے کہ غروب کے وقت ہر ستارے کے عمل کا اس افق سے انقطاع نظر آتا ہے اور اس کے آثار کی فنا کا مشاہدہ ہوتا ہے جس سے ان کا حادث اور قدرت الٰہیہ کا محتاج ہونا ثابت ہوتا ہے۔
Top