Maarif-ul-Quran - Al-Furqaan : 10
تَبٰرَكَ الَّذِیْۤ اِنْ شَآءَ جَعَلَ لَكَ خَیْرًا مِّنْ ذٰلِكَ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِهَا الْاَنْهٰرُ١ۙ وَ یَجْعَلْ لَّكَ قُصُوْرًا
تَبٰرَكَ : بڑی برکت والا الَّذِيْٓ : وہ جو اِنْ شَآءَ : اگر چاہے جَعَلَ : وہ بنا دے لَكَ : تمہارے لیے خَيْرًا : بہتر مِّنْ ذٰلِكَ : اس سے جَنّٰتٍ : باغات تَجْرِيْ : بہتی ہیں مِنْ تَحْتِهَا : جن کے نیچے الْاَنْهٰرُ : نہریں وَيَجْعَلْ : اور بنا دے لَّكَ : تمہارے لیے قُصُوْرًا : محل (جمع)
بڑی برکت ہے اس کی جو چاہے تو کر دے تیرے واسطے اس سے بہتر باغ کہ نیچے بہتی ہیں ان کے نہریں اور کر دے تیرے واسطے محل
خلاصہ تفسیر
وہ ذات بڑی عالی شان ہے کہ اگر وہ چاہے تو آپ کو (کفار کی) اس (فرمائش) سے (بھی) اچھی چیز دیدے یعنی بہت سے (غیبی) باغات جن کے نیچے سے نہریں بہتی ہوں (بہتر اس لئے کہا کہ وہ تو مطلق باغ کی فرمائش کرتے تھے گو ایک ہی ہو اور متعدد باغ کا ایک سے بہتر ہونا ظاہر ہے) اور (بلکہ ان باغوں کے ساتھ اور بھی مناسب چیزیں دیدے جن کی انہوں نے فرمائش بھی نہیں کی یعنی) آپ کو بہت سے محل دیدے (جو ان باغوں میں بنے ہوں یا باہر ہی ہوں جس سے ان کی فرمائش اور بھی زیادہ نعمتوں کے ساتھ پوری ہوجاوے۔ مطلب یہ کہ جو جنت میں ملے گا اگر اللہ چاہے تو آپ کو دنیا ہی میں دیدے لیکن بعض حکمتوں سے نہیں چاہا اور فی نفسہ ضروری تھا نہیں پس شبہ محض بیہودہ ہے۔ ان کفار کے ان شبہات مذکورہ کا سبب یہ نہیں ہے کہ ان کو حق کی طلب اور فکر ہوئی ہے اور اس دوران میں قبل تحقیق ایسے شبہات واقع ہوگئے ہوں بلکہ وجہ اعتراضات کی محض شرارت اور طلب حق سے بےفکری ہے اور اس بےفکری اور شرارت کا سبب یہ ہے کہ) یہ لوگ قیامت کو جھوٹ سمجھ رہے ہیں (اس لئے فکر انجام نہیں ہے جو جی میں آتا ہے کرلیتے ہیں بک دیتے ہیں) اور (انجام اس کا یہ ہوگا کہ) ہم نے ایسے شخص (کی سزا) کے لئے جو کہ قیامت کو جھوٹا سمجھے دوزخ تیار کر رکھی ہے (کیونکہ قیامت کی تکذیب سے اللہ و رسول کی تکذیب لازم آتی ہے جو اصل سبب ہے دوزخ میں جانے کا اور اس دوزخ کی یہ کیفیت ہوگی کہ) وہ (دوزخ) ان کو دور سے دیکھے گی تو (دیکھتے ہی غضبناک ہو کر اس قدر جوش مارے گی کہ) وہ لوگ (دور ہی سے) اس کا جوش و خروش سنیں گے اور (پھر) جب وہ اس (دوزخ) کی کسی تنگ جگہ میں ہاتھ پاؤں جکڑ کر ڈال دیئے جاویں گے تو وہاں موت ہی موت پکاریں گے (جیسا مصیبت میں عادت ہے کہ موت کو بلاتے اور اس کی تمنا کرتے ہیں اور اس وقت ان سے کہا جاوے گا کہ) ایک موت کو نہ پکارو بلکہ بہت سی موتوں کو پکارو (کیونکہ موت کے پکارنے کی علت مصیبت ہے اور تمہاری مصیبت غیر متناہی ہے اور ہر مصیبت کا مقتضا موت کا پکارنا ہے تو پکارنا بھی کثیر ہو اور اسی کی کثرت کو موت کی کثرت کہا گیا) آپ (ان کو یہ مصیبت سنا کر) کہیے کہ (یہ بتلاؤ کہ) کیا یہ (مصیبت کی) حالت اچھی ہے (جو کہ مقتضی ہے تمہارے کفر و انکار کا) یا وہ ہمیشہ کے رہنے کی جنت (اچھی ہے) جس کا خدا سے ڈرنے والوں سے (یعنی اہل ایمان سے) وعدہ کیا گیا ہے کہ وہ ان کے لئے (ان کی اطاعت کا) صلہ ہے اور ان کا (آخری) ٹھکانا (اور) ان کو وہاں وہ سب چیزیں ملیں گی جو کچھ وہ چاہیں گے (اور) وہ (اس میں) ہمیشہ رہیں گے (اے پیغمبر) یہ ایک وعدہ ہے جو (بطور فضل و عنایت کے) آپ کے رب کے ذمہ ہے اور قابل درخواست ہے (اور ظاہر ہے کہ جنت الخلد ہی بہتر ہے سو اس میں ترہیب کے بعد ترغیب ایمان کی ہوگئی) اور (وہ دن ان کو یاد دلائیے کہ) جس روز اللہ تعالیٰ ان (کافر) لوگوں کو اور جن کو وہ لوگ خدا کے سوا پوجتے تھے (جنہوں نے اپنے اختیار سے کسی کو گمراہ نہیں کیا خواہ صرف بت مراد ہوں یا ملائکہ وغیرہ ہم بھی) ان (سب) کو جمع کرے گا پھر (ان معبودین سے ان عابدین کی رسوائی کے لئے) فرمادے گا کیا تم نے میرے ان بندوں کو (راہ حق سے) گمراہ کیا تھا یا یہ (خود ہی) راہ (حق) سے گمراہ ہوگئے تھے (مطلب یہ کہ انہوں نے تمہاری عبادت جو واقع میں گمراہی ہے تمہارے امر و رضا سے کی تھی جیسا ان لوگوں کا زعم تھا کہ یہ معبودین ہماری اس عبادت سے خوش ہوتے ہیں اور خوش ہو کر اللہ تعالیٰ سے شفاعت کریں گے یا اپنی رائے فاسد سے اختراع کرلی تھی) وہ (معبودین) عرض کریں گے کہ معاذ اللہ ہماری کیا مجال تھی کہ ہم آپ کے سوا اور کارسازوں کو (اپنے اعتقاد میں) تجویز کریں (عام اس سے کہ وہ کار ساز ہم ہوں یا ہمارے سوا اور کوئی ہو۔ مطلب یہ کہ جب خدائی کو آپ میں منحصر سمجھتے ہیں تو ہم شرک کرنے کا ان کو امر یا اس پر رضا مندی کیوں ظاہر کرتے) و لیکن (یہ خود ہی گمراہ ہوئے اور گمراہ بھی ایسے نامعقول طور پر ہوئے کہ اسباب شکر کو انہوں نے اسباب کفر بنایا چنانچہ) آپ نے (تو) ان کو اور ان کے بڑوں کو (خوب) آسودگی دی (جس کا مقتضی یہ تھا کہ نعمت دینے والے کو پہچانتے اور اس کا شکر و اطاعت کرتے مگر یہ لوگ) یہاں تک (شہوات وتلذّذات میں منہمک ہوئے) کہ (آپ کی) یاد (ہی) کو بھلا بیٹھے اور یہ لوگ خود ہی برباد ہوئے (مطلب جواب کا ظاہر ہے کہ دونوں شقوں میں سے اس شق کو اختیار کیا کہ یہ خود ہی گمراہ ہوئے ہم نے نہیں کیا۔ اور ان کی گمراہی کو اللہ کی بڑی نعمتیں ان پر مبذول ہونے کا ذکر کرے اور زیادہ واضح کردیا۔ اس وقت اللہ تعالیٰ ان عابدین کو لا جواب کرنے کے لئے جو اصل مقصود تھا سوال مذکور سے یہ فرماوے گا) لو تمہارے ان معبودوں نے تو تم کو تمہاری (سب) باتوں میں جھوٹا (ہی) ٹھہرا دیا (اور انہوں نے بھی تمہارا ساتھ نہ دیا اور جرم پورے طور پر قائم ہوگیا) سو (اب) تم نہ تو خود (عذاب کو اپنے اوپر سے) ٹال سکتے ہو اور نہ (کسی دوسرے کی طرف سے) مدد دیئے جاسکتے ہو (حتی کہ جن پر پورا بھروسہ تھا وہ بھی صاف جواب دے رہے ہیں اور تمہاری صریح مخالفت کر رے ہیں) اور جو (جو) تم میں ظالم (یعنی مشرک) ہوگا ہم اس کو بڑا عذاب چکھائیں گے (اور گو اس وقت مخاطبین سب مشرک ہی ہوں گے مگر اس طرح فرمانے کی یہ وجہ ہے کہ ظلم کا مقتضی عذاب ہونا بیان فرمانا مقصود ہے) اور ہم نے آپ سے پہلے جتنے پیغمبر بیھجے سب کھانا بھی کھاتے تھے اور بازاروں میں بھی چلتے پھرتے تھے (مطلب یہ کہ نبوت و اکل طعام وغیرہ میں تنافی نہیں چناچہ جن کی نبوت دلائل سے ثابت ہے گو معترضین اعتراف نہ کریں، ان سب سے اس کا صدور ہوا ہے پس آپ پر بھی یہ اعتراض غلط ہے) اور (اے پیغمبر اور اے تابعین ان کفار کے ایسے بیہودہ اقوال سے غمگین مت ہو کیونکہ) ہم نے تم (مجموعہ مکلفین) میں ایک کو دوسرے کے لئے آزمائش بنایا ہے (پس اسی عادت مستمرہ کے موافق انبیاء کو ایسی حالت پر بنایا کہ امت کی آزمائش ہو کہ کون ان کے حالات بشریہ پر نظر کرکے تکذیب کرتا ہے اور کون ان کے کملات نبوت پر نظر کرکے تصدیق کرتا ہے سو جب یہ بات معلوم ہوگئی تو) کیا تم (اب بھی) صبر کرو گے (یعنی صبر کرنا چاہئے) اور (یہ بات یقینی ہے کہ) آپ کا رب خوب دیکھ رہا ہے (تو وقت موعود پر ان کو سزا دے گا، پھر آپ کیوں ہمّ و غم میں واقع ہوں)
Top