Maarif-ul-Quran - Al-Israa : 86
وَ لَئِنْ شِئْنَا لَنَذْهَبَنَّ بِالَّذِیْۤ اَوْحَیْنَاۤ اِلَیْكَ ثُمَّ لَا تَجِدُ لَكَ بِهٖ عَلَیْنَا وَكِیْلًاۙ
وَلَئِنْ : اور اگر شِئْنَا : ہم چاہیں لَنَذْهَبَنَّ : تو البتہ ہم لے جائیں بِالَّذِيْٓ : وہ جو کہ اَوْحَيْنَآ : ہم نے وحی کی اِلَيْكَ : تمہاری طرف ثُمَّ : پھر لَا تَجِدُ : تم نہ پاؤ لَكَ : اپنے واسطے بِهٖ : اس کے لیے عَلَيْنَا : ہمارے مقابلہ) پر وَكِيْلًا : کوئی مددگار
اور اگر ہم چاہیں تو لے جائیں اس چیز کو جو ہم نے تجھ کو وحی بھیجی پھر تو نہ پائے اپنے واسطے اس کے لا دینے کو ہم پر کوئی ذمہ دار
(آیت) وَلَىِٕنْ شِـئْنَا لَنَذْهَبَنَّ پچھلی آیت میں روح کے سوال پر بقدر ضرورت جواب دے کر روح کی حقیقت دریافت کرنے کی کوشش سے کہ کہہ کر روک دیا گیا تھا کہ انسان کا علم کتنا ہی زیادہ ہوجائے مگر حقائق الاشیاء کی ہمہ گیری کے اعتبار سے کم ہی رہتا ہے اس لئے غیر ضروری مباحث اور تحقیقات میں الجھنا اپنے وقت کو ضائع کرنا ہے آیت وَلَىِٕنْ شِـئْنَا میں اس طرف اشارہ ہے کی انسان کو جس قدر بھی علم ملا ہے وہ بھی اس کی ذاتی جاگیر نہیں اللہ تعالیٰ چاہیں تو اس کو بھی سلب کرسکتے ہیں اس لئے اس کو چاہئے کہ موجودہ علم پر اللہ کا شکر ادا کرے اور فضول ولا یعنی تحقیقات میں وقت ضائع نہ کرے خصوصا جبکہ مقصود و تحقیق کرنا بھی نہ ہو بلکہ دوسرے کا امتحان لینا یا اس کو خفیف کرنا مقصود ہو اگر اس نے ایسا کیا تو کچھ بعید نہیں کہ اس کج روی کے نتیجہ میں جتنا علم حاصل ہے وہ سب سلب ہوجائے اس آیت میں خطاب اگرچہ نبی کریم ﷺ کو ہے مگر اصل سنانا امت کو مقصود ہے کہ جب رسول کریم ﷺ کا علم بھی ان کے اختیار میں نہیں تو دوسروں کا کیا کہنا ہے۔
Top