Maarif-ul-Quran - Al-Israa : 80
وَ قُلْ رَّبِّ اَدْخِلْنِیْ مُدْخَلَ صِدْقٍ وَّ اَخْرِجْنِیْ مُخْرَجَ صِدْقٍ وَّ اجْعَلْ لِّیْ مِنْ لَّدُنْكَ سُلْطٰنًا نَّصِیْرًا
وَقُلْ : اور کہیں رَّبِّ : اے میرے رب اَدْخِلْنِيْ : مجھے داخل کر مُدْخَلَ : داخل کرنا صِدْقٍ : سچا وَّاَخْرِجْنِيْ : اور مجھے نکال مُخْرَجَ : نکالنا صِدْقٍ : سچا وَّاجْعَلْ : اور عطا کر لِّيْ : میرے لیے مِنْ لَّدُنْكَ : اپنی طرف سے سُلْطٰنًا : غلبہ نَّصِيْرًا : مدد دینے والا
اور کہہ اے رب داخل کر مجھ کو سچا داخل کرنا اور نکال مجھ کو سچا نکالنا اور عطا کر دے مجھ کو اپنے پاس سے حکومت کی مدد
(آیت) وَقُلْ رَّبِّ اَدْخِلْنِيْ الآیہ سابقہ آیات میں اول کفار مکہ کی ایذاؤں اور ان تدبیروں کا ذکر تھا جو وہ رسول کریم ﷺ کو تکلیف پہونچانے کے لئے کرتے تھے اس کے ساتھ یہ بھی مذکور ہوا کہ ان کی یہ تدبیریں کامیاب نہیں ہوں گی اور ان کے مقابلہ میں رسول کریم ﷺ کو اصل تدبیر کے درجہ میں تو صرف پنجگانہ نماز قائم کرنے اور تہجد گذاری کی تلقین فرمائی اس کے بعد آخرت میں آپ کو سب انبیاء سے اعلیٰ مقام یعنی مقام محمود عطا فرمانے کا وعدہ فرمایا جو آخرت میں پورا ہوگا مذکورہ آیت وَقُلْ رَّبِّ میں حق تعالیٰ نے اسی دنیا میں اول آپ کو کفار کے مکائد اور ایذاؤں سے نجات دینے کی تدبیر بصورت ہجرت مدینہ ارشاد فرمائی اور اس کے بعد فتح مکہ کی بشارت وَقُلْ جَاۗءَ الْحَقُّ وَزَهَقَ الْبَاطِلُ ۭ میں ارشاد فرمائی گئی۔
جامع ترمذی میں حضرت عبداللہ بن عباس ؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ مکہ معظمہ میں تھے پھر آپ کو ہجرت مدینہ کا حکم دیا گیا اس پر یہ آیت نازل ہوئی وَقُلْ رَّبِّ اَدْخِلْنِيْ مُدْخَلَ صِدْقٍ وَّاَخْرِجْنِيْ مُخْــرَجَ صِدْقٍ اس میں لفظ مُدْخَلَ اور مُخْــرَجَ داخل ہونے اور خاج ہونے کی جگہ میں اسم ظرف ہے اور ان کے ساتھ صفت صدق بڑھانے سے مراد یہ ہے کہ یہ نکلنا اور داخل ہونا سب اللہ کی مرضی کے مطابق خیر و خوبی کے ساتھ ہو کیونکہ لفظ صدق عربی زبان میں ہر ایسے فعل کے لئے بھی استعمال ہوتا ہے جو ظاہرا اور باطنا درست اور بہتر ہو قرآن کریم میں قدم صدق اور لسان صدق اور مقعد صدق کے الفاظ اسی معنی میں استعمال ہوئے ہیں
داخل ہونے کی جگہ سے مراد مدینہ اور خارج ہونے کی جگہ سے مراد مکہ ہے مطلب یہ ہے کہ یا اللہ مدینہ میں میرا داخلہ خیر و خوبی کے ساتھ ہوجائے وہاں کوئی خلاف طبع اور ناگوار صورت پیش نہ آئے اور مکہ مکرمہ سے میرا نکلنا خیر و خوبی کے ساتھ ہوجائے کہ وطن اور گھر بار کی محبت میں دل الجھا نہ رہے اس آیت کی تفسیر میں کچھ اور اقوال بھی آئے ہیں مگر یہ تفسیر حضرت حسن بصری اور قتادہ سے منقول ہے ابن کثیر نے اسی کو اصح الاقوال کہا ہے ابن جریر نے بھی اسی کو اختیار کیا ہے ترتیب کا تقاضہ یہ تھا کہ پہلے مخرج پھر مدخل کا ذکر ہوتا مگر یہاں مدخل کو مقدم اور مخرج کو مؤ خر کرنے میں شاید اس طرف اشارہ ہو کہ مکہ مکرمہ سے نکلنا خود کوئی مقصد نہ تھا بلکہ بیت اللہ کو چھوڑنا انتہائی صدمہ کی چیز تھی البتہ اسلام اور مسلمانوں کیلئے مامن تلاش کرنا مقصد تھا جو داخلہ مدینہ کی ذریعہ حاصل ہونے کی امید تھی اس لئے جو مقصد تھا اس کو مقدم رکھا گیا۔
فائدہ
مہم مقاصد کے لئے مقبول دعا
ہجرت مدینہ کے وقت حق تعالیٰ نے رسول کریم ﷺ کو اس دعاء کی تلقین فرمائی کہ مکہ سے نکلنا اور پھر مدینہ پہنچنا دونوں خیر و خوبی اور عافیت کے ساتھ ہوں اسی دعاء کا ثمرہ تھا کہ ہجرت کے وقت تعاقب کرنے والے کفار کی زد سے اللہ تعالیٰ نے ہر قدم پر بچایا اور مدینہ طیبہ کو ظاہرا و باطنا آپ کے اور سب مسلمانوں کے لئے سازگار بنایا اسی لئے بعض علماء نے فرمایا کہ یہ دعاء ہر مسلمان کو اپنے تمام مقاصد کے شروع میں یاد رکھنا چاہئے اور ہر مقصد کے لئے یہ دعاء مفید ہے اسی دعا کا تکملہ بعد کا جملہ ہے واجْعَلْ لِّيْ مِنْ لَّدُنْكَ سُلْطٰنًا نَّصِيْرًا حضرت قتادہ فرماتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ کو یہ معلوم تھا کہ منصب رسالت کے فرائض کی ادائیگی اور دشمنوں کے نرغے میں کام کرنا اپنے بس کا نہیں اس لئے حق تعالیٰ سے غلبہ اور نصرت کی ادائیگی اور دشمنوں کے نرغے میں کام کرنا اپنے بس کا نہیں اس لئے حق تعالیٰ سے غلبہ اور نصرت کی دعا فرمائی جو قبول ہوئی اور اس کے آثار سب کے سامنے آگئے۔
Top