Maarif-ul-Quran - Al-Israa : 64
وَ اسْتَفْزِزْ مَنِ اسْتَطَعْتَ مِنْهُمْ بِصَوْتِكَ وَ اَجْلِبْ عَلَیْهِمْ بِخَیْلِكَ وَ رَجِلِكَ وَ شَارِكْهُمْ فِی الْاَمْوَالِ وَ الْاَوْلَادِ وَعِدْهُمْ١ؕ وَ مَا یَعِدُهُمُ الشَّیْطٰنُ اِلَّا غُرُوْرًا
وَاسْتَفْزِزْ : اور پھسلا لے مَنِ : جو۔ جس اسْتَطَعْتَ : تیرا بس چلے مِنْهُمْ : ان میں سے بِصَوْتِكَ : اپنی آواز سے وَاَجْلِبْ : اور چڑھا لا عَلَيْهِمْ : ان پر بِخَيْلِكَ : اپنے سوار وَرَجِلِكَ : اور پیادے وَشَارِكْهُمْ : اور ان سے ساجھا کرلے فِي : میں الْاَمْوَالِ : مال (جمع) وَالْاَوْلَادِ : اور اولاد وَعِدْهُمْ : اور وعدے کر ان سے وَمَا يَعِدُهُمُ : اور نہیں ان سے وعدہ کرتا الشَّيْطٰنُ : شیطان اِلَّا : مگر (صرف) غُرُوْرًا : دھوکہ
اور گھبرا لے ان میں جس کو تو گھبرا سکے اپنی آواز سے اور لے آ ان پر اپنے سوار اور پیادے اور ساجھا کر ان سے مال اور اولاد میں اور وعدہ دے ان کو اور کچھ نہیں وعدہ دیتا ان کو شیطان مگر دغا بازی
دوسری بات یہ کہی تھی کہ اگر قیامت زندگی ملنے کی میری درخواست منظور کرلی گئی تو میں آدم کی ساری اولاد کو بجز قدر قلیل کے گمراہ کر ڈالوں گا آیات مذکورہ میں حق تعالیٰ نے اس کا جواب دے دیا کہ میرے خاص بندے جو مخلص ہیں ان پر تو تیرا قابو نہ چلے گا چاہے تو اپنا سارا لاؤ لشکر لے آوے اور پورا زور خرچ کرے باقی غیر مخلص اگر وہ تیرے قابو میں آگئے تو ان کا بھی وہی حال ہوگا جو تیرا ہے کہ جہنم کے عذاب میں تم سب گرفتار ہو گے اس میں (آیت) اَجْلِبْ عَلَيْهِمْ بِخَيْلِكَ وَرَجِلِكَ میں جو شیطانی لشکر کے سوار اور پیادوں کا ذکر ہے اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ واقع میں بھی شیطان کے کچھ افراد سوار ہوں کچھ پیادے بلکہ یہ محاورہ پورے لشکر اور پوری طاقت استعمال کرنے کے لئے بولا جاتا ہے اور اگر واقع میں ایسا ہو کہ کچھ شیطان سوار ہوتے ہوں کچھ پیادہ تو اس میں بھی کوئی وجہ انکار نہیں اور حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا کہ جتنے افراد بھی کفر و معصیت کی حمایت کے لئے لڑنے کو چلتے ہیں وہ سوار اور پیادے سب شیطان ہی کا سوار اور پیادہ لشکر ہے رہا یہ معاملہ کہ شیطان کو یہ کیسے معلوم ہوا کہ وہ اولاد آدم کو بہکا کر گمراہ کرنے پر قادر ہوجائے گا جس کی بناء پر اس نے یہ دعوی کیا تو ممکن ہے کہ انسان کے اجزا ترکیبی کو دیکھ کر اس نے یہ سمجھ لیا ہو کہ اس کے اندر نفسانی خواہشات کا غلبہ ہوگا اس لئے بہکانے میں آجانا دشوار نہیں اور اس میں بھی کچھ بعد نہیں کہ یہ دعوی بھی محض جھوٹ ہی ہو۔
(آیت) وَشَارِكْهُمْ فِي الْاَمْوَالِ وَالْاَوْلَادِ۔ لوگوں کے اموال اور اولاد میں شیطان کی شرکت کا مطلب حضرت ابن عباس ؓ نے یہ بیان فرمایا کہ اموال میں جو مال ناجائز حرام طریقوں سے حاصل کیا جائے یا حرام کاموں میں خرچ کیا جائے یہی شیطان کی اس میں شرکت ہے اور اولاد میں شیطان کی شرکت اولاد حرام ہونے سے بھی ہوتی ہے اور اس سے بھی کہ اولاد کے نام مشرکانہ رکھے یا ان کی حفاظت کے لئے مشرکانہ رسوم ادا کرے یا ان کی پرورش کے لئے حرام ذرائع آمدنی اختیار کرے (قرطبی)
Top