Urwatul-Wusqaa - Al-Israa : 64
وَ اسْتَفْزِزْ مَنِ اسْتَطَعْتَ مِنْهُمْ بِصَوْتِكَ وَ اَجْلِبْ عَلَیْهِمْ بِخَیْلِكَ وَ رَجِلِكَ وَ شَارِكْهُمْ فِی الْاَمْوَالِ وَ الْاَوْلَادِ وَعِدْهُمْ١ؕ وَ مَا یَعِدُهُمُ الشَّیْطٰنُ اِلَّا غُرُوْرًا
وَاسْتَفْزِزْ : اور پھسلا لے مَنِ : جو۔ جس اسْتَطَعْتَ : تیرا بس چلے مِنْهُمْ : ان میں سے بِصَوْتِكَ : اپنی آواز سے وَاَجْلِبْ : اور چڑھا لا عَلَيْهِمْ : ان پر بِخَيْلِكَ : اپنے سوار وَرَجِلِكَ : اور پیادے وَشَارِكْهُمْ : اور ان سے ساجھا کرلے فِي : میں الْاَمْوَالِ : مال (جمع) وَالْاَوْلَادِ : اور اولاد وَعِدْهُمْ : اور وعدے کر ان سے وَمَا يَعِدُهُمُ : اور نہیں ان سے وعدہ کرتا الشَّيْطٰنُ : شیطان اِلَّا : مگر (صرف) غُرُوْرًا : دھوکہ
ان میں سے جس کسی کو تو اپنی صدائیں سنا کر بہکا سکتا ہے بہکانے کی کوشش کرلے ، اپنے لشکر کے سواروں اور پیادوں سے حملہ کر ان کے مال اور اولاد میں شریک ہوجا ، ان سے وعدے کر اور شیطان کے وعدے تو اس کے سوا کچھ نہیں کہ سر تا سر دھوکا ہے
ابلیس کے اجازت نامہ کی پوری پوری وضاحت فرمادی گئی تاکہ کوئی ابہام نہ رہ جائے : 81۔ (واستفزز) کی اصلز ز ہے اور یہ مادہ صرف سورة بنی اسرائیل ہی میں استعمال ہوا ہے باقی قرآن کریم میں نہیں ۔ اس سورة میں تین بار اس کا استعمال ہوا ہے ایک زیر نظر آیت 64 میں (آیت) ” وان کادوا لیستفزونک من الارض “۔ 76 آیت میں اور (آیت) ” فارادان یستفزھم “۔ آیت 103 میں ۔ (استفزز) امر کا صیغہ واحد مذکر حاضر تو گھبرالے ‘ تو پھسلا لے ‘ تو ہلاکت میں ڈال لے ‘ تو ڈرالے اور تو خفیف بنا لے ۔ (صوت) ہر آواز کو کہتے ہیں ۔ جو دو چیزوں کے ٹکرانے سے پیدا ہوتی ہے ۔ (اجلب) ج ل ب سے اکٹھا کر ‘ شور مچا اور کھینچ لا ۔ یہ امر کے صیغے حکم کے طور پر نہی بلکہ اس کے اندر ودیعت کی گئی قوت کی ترجمانی کے طور پر ہیں جس طرح ہماری زبان میں ناراض ہو کر انسان دوسرے کو کہتا ہے کہ ” یار جو کچھ تو کرنا چاہتا ہے کرلے ۔ “ فرمایا ” ان میں سے جس کسی کو تو اپنی صدائیں سنا کر بہکا سکتا ہے بہکا لے اور ان پر اپنے لشکر کے پیادوں اور سواروں سے حملہ کر ‘ ان کے مال اور اولاد میں شریک ہو (اور طرح طرح کی باتوں کے) وعدے کر ۔ “ مختصر یہ کہ جو کچھ تو کرنا چاہتا ہے یا کرسکتا ہے کرلے لیکن ایک بات یاد رکھو کہ ” شیطان کے وعدے اس کے سوا کچھ نہیں کہ سر تا سر دھوکا و فریب ہیں ۔ “ گویا آخری جملہ ان لوگوں کو مخاطب کرکے کہہ دیا جن کو شیطان پھنسانے کی کوشش کرتا ہے اور وہ اس کے جھانسے میں آجاتے ہیں ۔ زیر نظر آیت نہایت ہی معنی خیز ہے اس میں ابلیس اور اس کے چیلوں کی پوری تصویر کشی کردی گئی ہے جو شخص مال کمانے اور خرچ کرنے میں اسلامی اصولوں کا پابند نہیں بلاشبہ اس کے مال میں شیطان مفت کا شریک ہے اور وہ اس کے اشاروں پر چلتا ہے جس کا انجام دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی رسوائی کے سوا کچھ نہیں ، جو لوگ اپنی اولاد کی دنیوی زندگی سنوارنے کی کوشش میں دن رات مصروف ہیں لیکن اس کی آخرت کی فکر انکو دامن گیر نہیں بلاشبہ ان کی اولاد کی پرورش میں شیطان مفت کا شریک ہے گویا وہ اولاد خون پسینہ ایک کر کے کمانے والے کی نہیں جو اولاد کی خاطر محنت کی پرورش میں شیطان مفت کا شریک ہے گویا وہ اولاد خون پسینہ ایک کرکے کمانے والے کی نہیں جو اولاد کی خاطر محنت شاقہ اٹھا رہا ہے بلکہ اس کے ساتھ وہ شیطان کی بھی اولاد ہے اور یہ مطلب ہے آیت کے ان الفاظ کا کہ (آیت) ” وشارکھم فی الاموال والاولاد وعدھم “۔ دنیا کے لمبے چوڑے پروگرام ان کو بنا بنا کر دے تاکہ وہ انہی وعدوں میں مصروف رہیں ، ظاہر ہے کہ یہ سارا خطاب اس طاقت وقوت سے جو برائی کی طاقت کہلاتی ہے اور جو انسان کے اندر ودیعت کی گئی ہے اس لئے انسان کو ان باتوں کا وسوسہ ڈالنے والا کہیں باہر سے نہیں آتا بلکہ ہر انسان کے اندر موجود ہے اور اس کو اس دلنشیں پیرایہ میں بیان کیا جارہا ہے تاکہ انسان کا اعزاز بھی قائم رہے اور اس کو ساری حقیقت سے بھی آگاہ کردیا جائے ، جن الفاظ کی اوپر تشریح اور تفصیل کی گئی ہے وہ محض اس لئے کی ہے کہ یہ الفاظ اس جگہ پر پہلی دفعہ آگاہ کردیا جائے ، جن الفاظ کی اوپر تشریح اور تفصیل کی گئی ہے وہ محض اس لئے کی ہے کہ یہ الفاظ اس جگہ پر پہلی دفعہ استعمال ہوئے ہیں اور ان الفاظ کا مفہوم بہت ہی معنی خیز ہے اور ان میں انسان کو اس کی پوری کیفیت وماہیت سے آگاہ کردیا گیا ہے اور اس کی تیقی کے روئیں روئیں کی وضاحت کردی گئی ہے اور تفہیم کا ایسا دلنشیں پیرایہ اختیار کیا ہے کہ اس کو جو کچھ کہا جاسکتا تھا سب کچھ کہہ دیا ہے اور محسوس بھی نہیں ہونے دیا اور یہی اس معجزانہ کلام کی خوبی ہے جو کسی دوسری جگہ نہیں ملتی ۔
Top