Maarif-ul-Quran - Al-Hijr : 48
لَا یَمَسُّهُمْ فِیْهَا نَصَبٌ وَّ مَا هُمْ مِّنْهَا بِمُخْرَجِیْنَ
لَا يَمَسُّهُمْ : انہیں نہ چھوئے گی فِيْهَا : اس میں نَصَبٌ : کوئی تکلیف وَّمَا : اور نہ هُمْ : وہ مِّنْهَا : اس سے بِمُخْرَجِيْنَ : نکالے جائیں گے
نہ پہنچے گی ان کو وہاں کچھ تکلیف اور نہ ان کو وہاں سے کوئی نکالے
(آیت) لَا يَمَسُّهُمْ فِيْهَا نَصَبٌ وَّمَا هُمْ مِّنْهَا بِمُخْرَجِيْنَ۔ اس آیت سے جنت کی دو خصوصیات معلوم ہوئیں اول یہ کہ کسی کو کبھی تکان اور ضعف محسوس نہ ہوگا بخلاف دنیا کے کہ یہاں محنت ومشقت کے کاموں سے تو ضعف وتکان ہوتا ہی ہے خاص آرام اور تفریح سے بھی کسی نہ کسی وقت آدمی تھک جاتا ہے اور ضعف محسوس کرنے لگتا ہے خواہ وہ کتنا ہی لذیذ کام اور مشغلہ ہو
دوسری بات یہ معلوم ہوئی کہ جو آرام و راحت اور نعمتیں وہاں کسی کو مل جائیں گی پھر وہ دائمی ہوں گی نہ وہ نعمتیں کبھی کم ہوں گی اور نہ ان میں سے اس شخص کو نکالا جائے گا سورة ص میں ارشاد ہے (آیت) اِنَّ ھٰذَا لَرِزْقُنَا مَا لَهٗ مِنْ نَّفَادٍ یعنی یہ ہمارا رزق ہے جو کبھی ختم نہیں ہوگا اور اس آیت میں فرمایا (آیت) وَمَا هُمْ مِّنْهَا بِمُخْرَجِيْنَ یعنی ان کو کبھی ان نعمتوں راحتوں سے نکالا نہیں جائے گا بخلاف معاملات دنیا کے کہ یہاں اگر کوئی کسی کو بڑے سے بڑا انعام و راحت دے بھی دے تو یہ خطرہ ہر وقت لگا رہتا ہے کہ جس نے یہ انعامات دئیے ہیں وہ کسی وقت ناراض ہو کر یہاں سے نکال دے گا۔
ایک تیسرا احتمال جو یہ تھا کہ نہ جنت کی نعمتیں ختم ہوں اور نہ اس کو وہاں سے نکالا جائے مگر وہ خود ہی وہاں رہتے رہتے اکتا جائے اور باہر جانا چاہے قرآن عزیز نے اس احتمال کو بھی ایک جملہ میں ان الفاظ سے ختم کردیا ہے کہ (آیت) لَا يَبْغُوْنَ عَنْهَا حِوَلًا۔ یعنی یہ لوگ بھی وہاں سے پلٹ کر آنے کی کبھی خواہش نہ کریں گے۔
Top