Kashf-ur-Rahman - Al-Waaqia : 74
فَسَبِّحْ بِاسْمِ رَبِّكَ الْعَظِیْمِ۠   ۧ
فَسَبِّحْ : پس تسبیح کیجیے بِاسْمِ : نام کی رَبِّكَ الْعَظِيْمِ : اپنے رب عظیم کے (نام کی)
سو اے نبی آپ اپنے عظیم الشان پروردگار کے نام کی پاکی بیان کیجئے۔
(74) سو اے پیغمبر آپ اپنے عظیم الشان پروردگار کے نام کی پاکی بیان کیجئے۔ حضرت حق جل مجدہ نے اپنی قدرت کا مہ کو کیا خوب ترتیب سے بیان فرمایا ہے پہلے انسانی پیدائش اور عطائے وجود کا ذکر فرمایا اور یہ بات بتائی کہ انسان کی پیدائش اور اس کی ساخت میں ہماری ہی قدرت کا ظہور ہے گو بظاہر تم کو یہ معلوم ہوتا ہے کہ تمہاری مشقت کو دخل ہے لیکن حقیقتاً سب جگہ ہماری ہی فرماں روائی کو دخل ہے۔ مثلاً چند قطروں کا رحم میں ڈال دینا یہ تمہارا کام ہے لیکن رحم مادر میں ان قطروں کو انسانی شکل میں بنانا یہ کس کا کام ہے زمین میں تخم پاشی بظاہر تم کرتے ہو ہل چلاتے ہو بیج ڈالتے ہو لیکن اناج کا اگانا اور کھیتی کو پروان چڑھانا یہ کس کا کام ہے اگر ہم چاہیں تو اس کھیتی کو خشک کردیں اور چورا کردیں جیسا کہ سوروہ یونس اور سو رہ کہف میں گزر چکا ہے پھر سوائے اس کے کہ تم نقصان اور خسارا پکارتے پھرو اس کے سوا اور کیا کرسکتے ہو چونکہ پیدا ہونے کے بعد کھانے پینے کی ضرورت اور کھانے کے لئے آگ کی ضرورت ہوتی ہے اسی ترتیب سے حضرت حق نے اپنی نعمتوں کا اظہار فرمایا۔ فظلتم تفکھون کے کئی طرح ترجمے کئے گئے ہیں ہم نے سب کو تیسیر میں جمع کردیا ہے۔ مغرم، کے معنی تاوان اور مقروض کئے گئے ہیں تاوان کو شاہ صاحب (رح) نے کہیں کہیں چٹی بھی لکھا ہے۔ شاید سرکاری محصول زمین کا خراج یا بیج کا نقصان مراد ہو بادلوں سے پانی کا برسنا اور اترنا یہ بھی علاوہ ضروری ہونے کے قدرت کاملہ کی ایک بہت بڑی نشانی ہے جو ہر سال دیکھنے میں آتی ہے اور چونکہ اس پانی کے برسنے میں کسی کو مجازاً بھی دخل نہیں نہ کوئی ایک قطرہ بادلوں سے گراسکتا ہے اور نہ برستے ہوئے بادلوں کو روک سکتا ہے اس لئے فرمایا کہ اگر ہم چاہیں تو میٹھے پانی کی بجائے اس کو کڑوا اور کھاری کردیں۔ بہرحال تم شکر کیوں نہیں کرتے اور افراد شکر میں سے بڑا فرد توحید الٰہی ہے اس کے قائل کیوں نہیں ہوتے آخر میں آگ کی طرف اشارہ فرمایا چونکہ انسانی زندگی میں آگ کو بڑا دخل ہے حرارت سے غذاپکتی ہے ۔ تاپتے ہیں روشنی حاصل کرتے ہیں پانی گرم کرتے ہیں لوہا پگھلاتے ہیں غرض ہزار ہاکام آگ سے وابستہ ہیں۔ اس کو فرماتے ہیں کہ ہرے درخت سے آگ کو کون نکالتا ہے۔ مرخ اور عقار کی رگڑ سے آگ نکلتی ہے یہ کس کی قدرت ہے۔ تورون آگ سلگاتے ہو یا آگ درخت کی شاخ سے نکالتے ہو ہم نے اس حصول آگ کے طریقے اور آگ کو موجب نصیحت بنایا یعنی اس آگ کو استعمال کرنے اور کام میں لانے کے بعد اللہ تعالیٰ کی وحدانیت اور اس کی الوہیت پر ایمان لائو یا دوزخ کی آگ کو یاد کرکے ڈرو۔ بہرحال آگ کا وجود بھی نصیحت ہے ۔ مقوین مسافروں کے لئے بڑے فائدے کی چیز اور نفع بخش ہے ورنہ جنگل میں آگ کا حاصل ہونا سخت دشوار ہے یا مقیم اور مسافروں دونوں مراد ہیں۔ جیسا کہ اہل لغت نے کہا ہے کہ یہ اضداد میں سے ہے تو مطلب یہ ہوگا کہ مسافر اور مقیم دونوں کے فائدے کے لئے اس آگ کو بنایا ہے اور چونکہ تمام مخلوق کا انتفاع آگ کے ساتھ وابستہ ہے اور وہ انتفاع موقوف علی القدرۃ ہے تو سب مخلوق محتاج ہوئی قدرت کی اور یہی حق تعالیٰ کی قدرت استحاق الوہیت و عبادت کی دلیل ہے آگ حاصل کرنے کے طریقے بھی کئی ہیں بانس کی رگڑ سے چقماق وغیرہ سے چونکہ اہل عرب خاص طور سے مرخ اور عقائد سے آگ نکالا کرتے تھے اس لئے اس درخت کا ذکر فرمایا ۔ آخر میں اپنے پیغمبر کو ارشاد فرمایا کہ اے پیغمبر آپ اپنے پروردگار کے ناک کی پاکی بیان کیجئے وہ آپ کا پروردگار بڑی عظمت والا ہے یعنی سبحان ربی العظیم کہیے۔ حدیث میں آتا ہے کہ جب یہ آیت اتری تو نبی کریم ﷺ نے فرمایا اجعلوھا فی رکوعکم یعنی اس تسبیح کو اپنے رکوع میں داخل کرلو۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں کئی درخت ہیں سبز جن کو رگڑنے سے آگ نکلتی ہے آگے سورة یاسین میں اس کا ذکر ہوچکا ہے۔ اور فرماتے ہیں یا دیہ کہ اس آگ سے دوزخ کی آگ یاد آوے اور جنگل والوں کو آگ سے بہت کام ہیں اور کام سبھی کا چلتا ہے اس سے۔ خلاصہ : یہ کہ حق تعالیٰ نے جو امور ان آیتوں میں فرمائے اور جن نعمتوں کا ذکر فرمایا ہے وہ توحید کے لئے بھی سبب ہیں اور قدرۃ علی البعث کے ئے بھی موجب ہیں لہٰذا ان دونوں باتوں پر ایمان لانا چاہیے۔
Top