Kashf-ur-Rahman - Al-Baqara : 7
خَتَمَ اللّٰهُ عَلٰى قُلُوْبِهِمْ وَ عَلٰى سَمْعِهِمْ١ؕ وَ عَلٰۤى اَبْصَارِهِمْ غِشَاوَةٌ١٘ وَّ لَهُمْ عَذَابٌ عَظِیْمٌ۠   ۧ
خَتَمَ اللَّهُ : اللہ نے مہرلگادی عَلَىٰ : پر قُلُوبِهِمْ : ان کے دل وَعَلَىٰ : اور پر سَمْعِهِمْ : ان کے کان وَعَلَىٰ : اور پر أَبْصَارِهِمْ : ان کی آنکھیں غِشَاوَةٌ : پردہ وَلَهُمْ : اور ان کے لئے عَذَابٌ عَظِيمٌ : بڑا عذاب
اللہ تعالیٰ نے مہر کردی ہے ان کے دلوں پر اور ان کے کانوں پر اور ان کی آنکھوں پر پردہ ہے اور ان کے لئے بڑا عذاب ہے3
3 ۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے دلوں پر اور ان کے کانوں پر مہر کردی ہے اور ان کی آنکھوں پر پردہ ہے اور ان کے لئے بہت بڑی سزا ہے۔ ( تیسیر) مطلب یہ ہے کہ جس طرح ظاہری بدپرہیزی اور عد م احتیاط کے باعث انسانی جسم مختلف امراض میں مبتلا ہوجاتے ہیں یا مریض کے مرض میں اضافہ ہوجاتا ہے اسی طرح ایک انسان کی بد اعمالی اور انبیاء علیہم الصلوٰۃ والسلام کی مخالفت انسان کو روحانی امراض میں مبتلا کردیتی ہے یا روحانی مریض کے مرض میں اضافہ کا موجب ہوجاتی ہے۔ مثلاً ایک شخص نے ترشی کا استعمال کیا اور اس کو زکام ہوگیا ۔ طیب نے اس کو دوا بتائی اور پرہیز کی تاکید کی لیکن وہ برابر بد پرہیزی کرتا رہا اور اس نے دوا استعمال نہیں کی یہاں تک کہ زکام بگڑ گیا اور بخار رہنے لگا پھر بھی وہ اپنی بد پرہیزی سے باز نہ آیا پھر مرض اور بڑھا یہاں تک کہ اس کو دق ہوگئی لیکن وہ کھانے پینے میں برابر بےاحتیاطی کرتا چلا گیا اور باوجود اطباء کے سمجھانے اور تیمارداروں کی درخواست کے وہ اپنی بدپرہیزی اور بےاحتیاطی میں بڑھتا چلا گیا اور اپنی ضد اور اصرار میں ایسا بڑھا کہ سمجھانے والوں کو بیوقوف سمجھنے لگا اور اپنی بےاحتیاطی اور بد پرہیزی کو اچھا سمجھنے اور اس کی تحسین اور درست ہے اور میں صحت کی طرف ترقی کر رہا ہوں اسی حالت میں اسکی دق آخری مرتبہ پر پہنچ گئی اور ایک دن اس کے مرض نے اسکو موت کے گھاٹ اتار دیا اس مریض کی مثال کو اچھی طرح ذہن نشین کرلیجئے جس طرح یہ امراض جسمانیہ کی حالت ہے ٹھیک اسی طرح روحانی امراض کو سمجھ لیجئے۔ جس کے لئے روحانی اطبا یعنی انبیاء علیہم الصلوٰۃ والسلام تشریف لائے ہیں اور ان کا کام اور ان کا وظیفہ ہی یہ ہے کہ وہ بندوں کی روحانی اصلاح کریں ، اگرچہ ان کو جسمانی امراض کے علاج میں بھی داخل ہے جیسا کہ نبی کریم ﷺ سے متعدد امراض کا علاج مروی ہے لیکن ان کا اصلی وظیفہ اور ان کا حقیقی کام انسانوں کی روحانی تربیت ہی ہے اور جس طرح جسمانی امراض میں دق اور سل ، زکام اور کھانسی ، نمونیہ اور میعادی بخار وغیرہ مشہور ہیں ۔ اسی طرح روحانی امراض میں کفر اور شرک ، فسق اور فجوز ، نفاق اور استہزا وغیرہ مشہور و معروف ہیں اور انبیاء علیہم الصلوٰۃ والسلام کا یہی کام ہے کہ وہ انسانوں کی روح اور ان کے قلوب کو ان امراض باطنیہ سے محفوظ رکھیں اور جوان امراض میں مبتلا ہوں ان کی مناسب دوا اور ان کے لئے مناسب پرہیز بتائیں ۔ جسمانی امراض کی ابتداء جس طرح کبھی قبض سے اور کبھی زکام سے اور کبھی خوراک کی کثرت سے ہوتی ہے اور بڑھتے بڑھتے مریض کے تغافل سے آخر وہ ملک اور لا علاج امراض میں مبتلا ہوجاتا ہے ۔ بالکل اسی طرح روحانی امراض کی ابتداء بھی قلب کی سیاہی سے ہوتی ہے اور بڑھتے بڑھتے مریض اپنی ضد اور ہٹ سے خطرناک اور افسوس ناک حالت پر پہنچ جاتا ہے۔ فرض کیجئے ایک شخص کو ابتداء میں زکام ہوا پھر اس کی بےاحتیاطی کے باعث اس زکام نے کھانسی کی صورت اختیار کرلی۔ شروع شروع میں تبجیز ہوئی پھر ہڈیوں میں بخار رہنے لگا ۔ پھر کھانسی اور بخار نے دق کی شکل اختیار کرلی اور آگے چل کرمریض کی نا لائقی اور بےاحتیاطی کے باعث اس کی دق چہارم درجے پر پہنچ گئی یہاں تک کہ اس کا مرض لا علاج ہوگیا اور ایک دن مرگیا ۔ بالکل اسی طرح روحانی مریض کی ابتداء قلب کی سیاہی سے شروع ہوتی ہے ، جیسا کہ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا ہے کہ جب کوئی شخص بلا عذر ایک جمعہ میں غیر حاضرہو جاتا ہے اور جمعہ کی نماز نہیں پڑھتا تو اس کے قلب پر ایک سیاہ نقطہ ہوجاتا ہے اگر دوسرے جمعہ کو بھی وہ غیر حاضر رہا تودو سیاہ نقطے ہوجاتے ہیں اور تیسرے جمعہ کی غیر حاضری پر پورا قلب سیاہ ہوجاتا ہے پھر قلب پر زنگ آنا شروع ہوجاتا ہے جیسا کہ فرماتے ہیں ۔ کلا بل ران علی قلوبھم ما نوا یکسبون اس حالت کے بعد بھی اگر بندے ن اپنی اصلاح نہ کی اور برابر نافرمانی کرتا رہا تو اس کا دل خدا کی یاد سے غافل ہوجاتا ہے ارشاد ہوتا ہے ولا تطع من اغفلنا قلبہ عن زکرنا اسکے بعد بھی اگر بندہ باز نہیں آیا تو اس کے قلب میں سختی پیدا ہوجاتی ہے ارشاد فرماتے ہیں وجعلنا قلوبھم قاسیہ اب بھی اگر باز نہیں آتا تو قلب پر مہر کردی جاتی ہے فرماتے ہیں ۔ بل طبع اللہ علیھا بکفرھم اس پر بھی اگر بد پرہیزی یعنی اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی جاری رہی تو اس پر سے اپنی توفیق کا ہاتھ اٹھا لیتے ہیں اور جو وہ کرتا ہے اسکو کرنے دیتے ہیں ۔ فرماتے ہیں ۔ نولہ ما تولیٰ جس طرح دق کے مریض کے آخری درجے کو چوتھا درجہ کہتے ہیں اسی طرح روحانی مریض کے آخری درجے کو حیولۃ کہتے ہیں ۔ وہ حالت وہ ہوتی ہے جب کسی بدنصیب کے قلب کے لئے حضرت حق خود ردک بن جاتے ہیں ۔ ارشاد ہوتا واعلموا ان اللہ یحول بین المرء و قلبہ بعض دفعہ جسمانی مرض کی یہ نبوت ہوجاتی ہے کہ بہتر سے بہتر دوا اور غذا مریض کو بجائے سود مند ہونے کے مضر اور نقصان دہ ہونے لگتی ہے اسی طرح روحانی مریض کی کبھی یہ نوبت ہوجاتی ہے کہ آیات قرآنی بجائے نفع اس کے مرض کی زیادتی کا سبب بن جاتی ہے۔ سورة توبہ کے آخری رکوع میں فرماتے ہیں ۔ فاما الذین فی قلوبھم مرض فزادتھم رجسا ً البی رجسھم وما تواوھم کافرون ۔ جسمانی مریض کی کبھی یہ حالت بھی ہوتی ہے کہ اسکو اپنی بدپرہیز بھی معلوم ہوتی ہے اور وہ اپنی بےاحتیاطی کے متعلق یہ خیال کرتا ہے کہ وہ کوئی اچھا کام کام کر رہا ہے اور یہ بات ظاہر ہے کہ مریض کی یہ حالت بڑی خطرناک ہے اور ایسے مریض کو شفا ناممکن ہے ٹھیک اسی طرح روحانی مریض کی حالت کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں ۔ افمن زین لہ سوء عملہ فرآہ حسنا اور سورة کہف میں فرماتے ہیں یحسبون انھم یحسنون ضعا اسی بناء پر نبی کریم ﷺ نے ایک سائل کے جواب میں جو ایمان کے متعلق سوال کر رہا تھا ارشاد فرمایا تھا ۔ اذا سرتک حسنتک وساء تک سیئتک فانت مومن یعنی جب تجھ کو تیری نیکی خوش کرے اور تیرا گناہ تجھ کو ملول کرے تو بس تو مومن ہے ۔ اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ جب تک نیکی اور بدی کا قلب میں احساس موجود ہے۔ اس وقت تک ایمان موجود ہے اور جس وقت نیکی اور بدی کا احساس جاتا رہے تو سمجھو کہ اب ایمان خطرے میں ہے ۔ قرآن نے روحانی مریض کی اس خطرناک حالت کو بطور استعارہ مہر اور پردے سے تعبیر کیا ہے۔ روحانی مریض کا اس خطرناک حالت پر پہنچ جانا خود اسکی اپنی نافرمانی اور ہٹ دھرمی کے باعث ہوتا ہے اور اس کے گناہوں کے باعث اس کی حالت دن بدن خراب ہوتی چلی جاتی ہے اور یہ حالت کا خراب ہونا خدا کی طرف سے ایک قسم کا عتاب ہوتا ہے۔ اس لئے کہاجاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مہر کردی اور ہم نے ان کو اپنی یاد سے غافل بنادیا اور ہم نے ان کے دلوں کو سخت کردیا ۔ ورنہ جو اثرات مرتب ہوتے ہیں وہ سب بندے کے ہاتھوں کی کمائی کے باعث مرتب ہوتے ہیں ۔ آیت زیر بحث میں جس مہر اور پردے کو بطور استعارہ ذکر کیا ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ ظاہری اعتبار سے تو کان اور آنکھیں اور دل سلامت ہیں اور اپنا اپنا کام کرتے ہیں لیکن حق بات کے سننے اور سمجھنے اور دیکھنے کیلئے آنکھیں ایسی ہیں جیسے ان کے آگے پردہ پڑا ہوا ہے اور دل اور کان ایسے ہیں جیسے ان پر مہریں لگا دی ہیں ۔ اس لئے نہ حق بات کو سنتے ہیں نہ سمجھتے ہیں نہ دیکھتے ہیں ۔ ختم کے اصلی معنی تو کتم یعنی چھپانے کے ہیں لیکن مہر چونکہ آخر میں لگائی جاتی ہے اور مہر لگانا ایک ایسا فعل ہے جو حفاظت اور بچائو کی غرض سے سب سے آخر میں کیا جاتا ہے اس لئے یہاں قلوب وغیرہ کی محرومی اور آخری بدنصیبی کو مہر سے تعبیر فرمایا ہے جس طرح مہر کے بعد اندر کوئی چیز داخل نہیں ہوسکتی اسی طرح ان کے قلوب اور ان کے کان اور ان کی آنکھیں حق بات کو قبول نہیں کرتیں ۔ گویا ان کے عناد ان کی سزا کشی اور ان کے غرور وتکبر کی وجہ سے جو حالت ان کے دل اور کانوں اور آنکھوں کی ہوگئی ہے وہ ایسی ہے جیسے کسی مہر زدہ چیز کی ہوتی ہے۔ یہ مطلب نہیں ہے کہ ان کو کفر پر مجبور کیا جا رہا ہے یہ اب معذور ہیں اور ان سے کسی باز پرس کا حق نہیں ہے۔ یہ تقریر جو میں نے عوام کیلئے عرض کی ہے اگر اس کو اچھی طرح ذہن نشین کرلیا گیا تو انشاء اللہ آئندہ نہ کوئی اشکال پیش آئے گا اور نہ کسی شبہ کی وجہ سے پریشانی ہوگی ۔ اس مضمون کو اچھی طرح سمجھ لیں کہ یاد کرلینا چاہئے ۔ میں وقتاً فوقتاً آئندہ اس مضمون کی طرف اشارہ کرتا رہوں گا ۔ انشاء اللہ تعالیٰ اب مخلص مسلمانوں اور کھلے کافروں کا ذکر کرنے کے بعد منافقوں کا ذکر فرماتے ہیں ۔ منافق جو زبان سے اسلام کی صداقت خدا کی توحید اور رسول کی رسالت کا اقرار کرے لیکن دل سے اعتقاد نہ رکھے۔ اس قسم کے مخالف ابتدائے اسلام میں تو نہ ہونے کے برابر تھے لیکن جب مسلمان زور پکڑ گئے اور مسلمانوں کی قوت و شوکت بڑھ گئی اور کافروں کو کھلم کھلا مخالفت کی جرأت نہ ہوئی تو بدبختوں نے نفاق کا طریقہ اختیار کیا ، چناچہ عام طور سے مدنی سورتوں میں منافقوں کا ذکر زیادہ آتا ہے۔ ( تسہیل)
Top