Kashf-ur-Rahman - Al-Baqara : 6
اِنَّ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا سَوَآءٌ عَلَیْهِمْ ءَاَنْذَرْتَهُمْ اَمْ لَمْ تُنْذِرْهُمْ لَا یُؤْمِنُوْنَ
إِنَّ : بیشک الَّذِينَ : جن لوگوں نے کَفَرُوا : کفر کیا سَوَاءٌ : برابر عَلَيْهِمْ : ان پر أَ أَنْذَرْتَهُمْ : خواہ آپ انہیں ڈرائیں أَمْ لَمْ : یا نہ تُنْذِرْهُمْ : ڈرائیں انہیں لَا يُؤْمِنُونَ : ایمان نہ لائیں گے
بیشک جو لوگ انکار کے خوگر ہوچکے ان کے حق میں برابر ہے خواہ آپ ان کو ڈرائیں یا نہ ڈرائیں وہ ایمان نہیں لائیں گے۔2
2۔ بلا شبہ جو لوگ کفر اور انکار کے عادی اور خوگر ہوچکے ان کو خواہ آپ ڈرائیں یا نہ ڈرائیں ان کے حق میں دونوں باتیں برابر ہیں وہ ایمان نہیں لائیں گے۔ (تیسیر) اس آیت میں یا تو مخصوص کافر مراد ہیں ۔ جیسے ابو جہل ، ابو لہب ، ولید بن مغیرہ اور احبار یہود وغیرہ یا یہ آیت عام ہے اگر دوسری صورت مراد لی جائے تو وہ کافر جو بعد میں مسلمان ہوئے وہ خاص ہوں گے اور آیت کے مصداق صرف وہی کافر ہوں گے جو اپنے کفر پر مصر اور ضدی اور ہٹ دھرم تھے اور جو لوگ ایسے نہیں تھے وہ اس آیت میں داخل نہیں ہوں گے ۔ ہم نے ترجمہ میں دونوں معنی کی رعایت رکھی ہے یہ جو فرمایا کہ آپ کا ڈرانا یا نہ ڈرانا ان کے حق میں برابر ہے تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ آپ ان کو تبلیغ کرنا چھوڑ دیں بلکہ آپ ان کو برابر تبلیغ کرتے رہیں کیونکہ آپ کو تبلیغ کا اجر وثواب ملے گا اور آپ اپنی تبلیغی ذمہ داریوں سے سبکدوش ہو سکیں گے۔ اسی لئے یوں فرمایا کہ ڈرانا اور نہ ڈرانا ان کے حق میں برابر ہے یوں نہیں فرمایا کہ آپ کے حق میں برابر ہے۔ کفر کے اصلی معنی تو پردے کے اور کسی نعمت کو چھپانے کے ہیں لیکن شریعت میں ان چیزوں میں سے کسی چیز کے انکار کو کفر کہتے ہیں جن چیزوں کو لیکر رسول کا تشریف لانا یقینی طور پر معلوم ہوچکا ہے اسی شرعی اور لغوی مناسبت کی وجہ سے قرآن میں کفر بہت سے معنی میں استعمال ہوا ہے۔ مثلاً نا سپاسی ، کفران نعمت ، ناقدری بیزاری ، منافقت ، جان بوجھ کر دین کا اعتراف نہ کرنا ۔ دل سے ٹھیک سمجھنا مگر زبان سے نہ کہنا ۔ دشمنی اور عناد سے کفر پر اڑے رہنا وغیرہ وغیرہ اور یہ جو فرمایا کہ وہ ایمان نہیں لائیں گے تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ اس فرمانے کے بعد وہ معذور یا مجبور ہوگئے اور اب ان سے ایمان لانے کا حکم اٹھ گیا بلکہ وہ اس فرمانے اور عدم ایمان کی اطلاع دینے کے بعد بھی اسی طرح ایمان کے مکلف ہیں جس طرح پہلے تھے کیونکہ حضرت حق تعالیٰ کا ان کے ایمان نہ لانے کی اطلاع دینا ایسا ہی ہے جیسے کوئی طبیب حاذق ایک دیرینہ اور پرانے مریض کی بابت یہ کہے کہ یہ شخص صحت یاب نہ ہوگا اور یہ اس مرض میں مرجائے گا ۔ ایسا ہی خدا تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ ان مخصوص کافروں کی موت اسی کفر کے مرض میں آئے گی اور ان کو روحانی صحت یعنی ایمان کا منہ دیکھنا نصیب نہ ہوگا اس ارشاد کا یہ مطلب نہیں کہ اب یہ حکم کے مکلف ہی نہیں رہے یا یہ معذور سمجھ کر قیامت میں چھوڑ دیئے جائینگے۔ ( تسہیل)
Top