Kashf-ur-Rahman - Al-Baqara : 278
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰهَ وَ ذَرُوْا مَا بَقِیَ مِنَ الرِّبٰۤوا اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ
يٰٓاَيُّهَا : اے الَّذِيْنَ اٰمَنُوا : جو ایمان لائے (ایمان والے) اتَّقُوا : تم ڈرو اللّٰهَ : اللہ وَذَرُوْا : اور چھوڑ دو مَا : جو بَقِيَ : جو باقی رہ گیا ہے مِنَ : سے الرِّبٰٓوا : سود اِنْ : اگر كُنْتُمْ : تم ہو مُّؤْمِنِيْنَ : ایمان والے
اے ایمان والو اللہ تعالیٰ سے ڈرو اور جو سود باقی رہ گیا ہے اسے چھوڑ دو اگر تم حقیقی ایماندار ہو3
3۔ اے ایمان والو ! اللہ تعالیٰ کے عذاب اور اس کی گرفت سے ڈرو اور جو رقم سود کی بقایا ہے اسے بالکل چھوڑ دو اگر تم حقیقی اور کامل مومن ہو کیونکہ کمال ایمان کا مقتضا یہی ہے کہ جو حکم دیا جائے اس کی تعمیل کی جائے۔ ( تیسیر) سدی نے کہا کہ یہ آیت حضرت عباس بن عبد المطلب اور بنی مغیرہ کے ایک شخص کے بارے میں نازل ہوئی ہے ۔ بعض لوگوں نے کہا ثقیف کے کچھ لوگوں کا قریش پر قرض تھا۔ انہوں نے مول اور بیاج دونوں کا مطالبہ کیا تھا ، اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ زمانہ جاہلیت میں مختلف طریقہ سے سرمایہ دار سود لیا کرتے تھے اور یہ تو عام بات تھی کہ مقروض کو میسر نہ ہوا تو میعاد بڑھا دی اور میعاد کے ساتھ اصل رقم میں اضافہ کردیا ۔ مثلاً 001 روپے قرض لئے اور ایک سال کی میعاد مقرر کی اور اس پر سود مقرر کرلیا مثلاً ایک سو دس قرار دیئے اب سال بھر کے بعد مقروض کو بن نہ آیا اس نے کہا چھ مہینے کی معیاد اور بڑھا دو ۔ سرمایہ دار نے میعاد بڑھا دی مگر قرض کی رقم کو ایک سو بیس کردیا جب اللہ تعالیٰ نے سود کی ممانعت فرمائی اور گزشتہ کا لیا ہوا سود در گزر فرما دیا تو آئندہ کے لئے حکم جار ی کردیا کہ آئندہ کوئی سود کا مطالبہ نہ کیا جائے اور جو سود چڑھا ہوا ہو اس کو بالکل چھوڑ دیا جائے۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں یعنی منع آنے سے پہلے جو لے چکے سو لے چکے اور اگلا چڑھا ہوا اب نہ مانگو ( موضح القرآن) ہم نے اوپر عبا س بن عبد المطلب کے جس شریک کا ذکر کیا ہے اس کا نام تفسیر مظہری نے خالد بن الولید بتایا ہے۔ ( واللہ اعلم) اب آگے اس حکم کی تعمیل نہ کرنے والوں کو وعید سنا کر تنبیہ کرتے ہیں ۔ چناچہ ارشاد ہوتا ہے ۔ (تسہیل)
Top