Kashf-ur-Rahman - Al-Israa : 41
وَ لَقَدْ صَرَّفْنَا فِیْ هٰذَا الْقُرْاٰنِ لِیَذَّكَّرُوْا١ؕ وَ مَا یَزِیْدُهُمْ اِلَّا نُفُوْرًا
وَ : لَقَدْ صَرَّفْنَا : البتہ ہم نے طرح طرح سے بیان کیا فِيْ : میں هٰذَا الْقُرْاٰنِ : اس قرآن لِيَذَّكَّرُوْا : تاکہ وہ نصیحت پکڑیں وَمَا : اور نہیں يَزِيْدُهُمْ : بڑھتی ان کو اِلَّا : مگر نُفُوْرًا : نفرت
اور یقینا ہم نے اس قرآن کریم میں طرح طرح سے سمجھایا تاکہ وہ نصیحت حاصل کرلیں۔ مگر ان کی حالت یہ ہے کہ ان کو ہمارے سمجھانے سے اور نفرت ہی بڑھتی جاتی ہے۔
-4 1 اور یقینا ہم نے اس قرآن کریم میں لوگوں کو ہر پرایہ سے بار بار سمجھایا اور طرح سے طرح بیان کیا تاکہ وہ نصیحت حاصل کریں اور سوچیں مگر ان کی حالت یہ ہے کہ ان کو ہمارے بیان کرنے اور سمجھانے سے اور نفرت کرنا اور ان کا بدکنا بڑھتا جاتا ہے۔ یعنی ہم نے توحید کے دائل اور شرک کی مذمت نئے نئے پیرایہ اور مختلف دلائل اور شواہد ان کے روبرو بیان کئے تاکہ یہ لوگ کفر و عصیان سے باز آجائیں اور دین حق کو قبول کریں لیکن ان بدبختوں کو اس سمجھانے سے نفرت و وحشت ہی بڑھی او بدک بدک کر بھاگتے ہی رہے۔ جیسے کسی مریض کو دوا اور غذا الٹا اثر کرتی ہے وہی ان کے روحانی مرض کی حالت ہے اور یہی وہ حالت ہے کہ جس کو مریض کی آخری حالت سے تعبیر کیا جاتا ہے۔
Top