Jawahir-ul-Quran - Al-An'aam : 40
قُلْ اَرَءَیْتَكُمْ اِنْ اَتٰىكُمْ عَذَابُ اللّٰهِ اَوْ اَتَتْكُمُ السَّاعَةُ اَغَیْرَ اللّٰهِ تَدْعُوْنَ١ۚ اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ
قُلْ : آپ کہ دیں اَرَءَيْتَكُمْ : بھلا دیکھو اِنْ : اگر اَتٰىكُمْ : تم پر آئے عَذَابُ : عذا اللّٰهِ : اللہ اَوْ : یا اَتَتْكُمُ : آئے تم پر السَّاعَةُ : قیامت اَغَيْرَ اللّٰهِ : کیا اللہ کے سوا تَدْعُوْنَ : تم پکارو گے اِنْ : اگر كُنْتُمْ : تم ہو صٰدِقِيْنَ : سچے
تو کہہ دیکھو47 تو اگر آوے تم پر عذاب اللہ کا یا آوے تم پر قیامت کیا اللہ کے سوا کسی اور کو پکارو گے بتاؤ اگر تم سچے ہو
47 یہ توحید پر چھٹی عقلی دلیل ہے علی سبیل الاعتراف من الخصم۔ امام فراء کہتے ہیں کہ اَرَءَیْتَ دو معنوں میں مستعمل ہے اول رویت عین۔ دوم بمعنی اَخْبِرْنِیْ مثلاً کہا جاتا ہے اَرَاَیْتَکَ ای اخبرنی۔ اس صورت میں ضمیرثانی خواہ واحد ہی کی ہو (ک) یا تثنیہ (کما) اور جمع (کم) کی ہواعراب میں اس کا کوئی مقام نہیں ہوتا (اور اس کی حیثیت محض ایک حرف کی ہوتی ہے جو مخاطب کی حالت افراد اور تثنیہ و جمع کا اظہار کرتا ہے) (من الکبیر ج 4 ص 63) علامہ رضی لکھتے ہیں کہ یہاں رویت بصری ہے یا قلبی اور ارایت بمعنی ابصرت ہے یا بمعنی عرفت اور صرف ایک مفعول کو چاہتا ہے ( جو یہاں حالکم محذوف ہے) اور مجازاً اخبرنی (مجھے بتا) کے معنی میں مستعمل ہے اور ہمیشہ عجیبہ حالت سے استفسار کیلئے استعمال ہوتا ہے۔ ذھب الرضی تبعا لغیرہ ان رای ھنا بصریۃ وقیل قلبیۃ بمعنی عرف وھی علی القولین متعد لواحد اصل اللفظ الاستفہام عن العلم و العرفان او الابصار الا انہ تجوز بہ عن معنی اخبرنی ولا یستعمل الا فی الاستخبار عن حالۃ عجیبۃ لشیء (روح ج 7 ص 148) اس کے بعد استفہام کا ہونا ضروری ہے خواہ مذکور ہو خواہ مقدر یہاں مذکور ہے یعنی اَ غَیْرَ اللہِ مطلب یہ ہے کہحضور ﷺ کو حکم دیا گیا کہ آپ مشرکین سے فرمائیں مجھے بتاؤ اگر تم پر اللہ کا عذاب آجائے یا قیامت آپہنچے تو کیا پھر بھی تم غیر اللہ ہی کو پکارو گے۔ بَلْ اِیَّاہُ ۔ یہ اس کا جواب ہے یعنی اس وقت تم غیرا للہ کو نہیں پکاروگے بلکہ اللہ کے سوا تم جن معبودوں کو پکارتے ہو ان سب کو بھول جاؤ گے اور صرف ایک اللہ ہی کو پکارو گے تو وہ اگر چاہے گا تو تم سے مصیبت دور فرما دے گا جس کے لیے تم نے اسے پکارا ہے۔ اس مضمون کی مندرجہ ذیل آیتوں سے تائید ہوتی ہے۔ (1) فَاِذَا رَکِبُوْا فِی الْفُلْکَ د۔ عَوُوْا اللھ مُخْلِصِیْنَ لَهُ الدِّيْنَ (عنکبوت ع 7) ۔ (2) دَعَوُوْا اللھ مُخْلِصِیْنَ لَهُ الدِّیْنَ لَئِنْ اَنْجَیْتَنَا مِنْ ھٰذِہٖ لَنَکُوْنَنَّ مِنَ الشّٰکِرِیْن۔ (3) فَاِذَا مَسَّکُمُ الضُّرُّ فِی الْبَحْرِ ضَلَّ مَنْ تَدْعُوْنَ اِلَّا اِيَّاہُ (بنی اسرائیل ع 7) مشرکین چونکہ آنحضرت ﷺ سے سنا کرتے تھے کہ اگر وہ ایمان نہیں لائیں گے اور شرک کو چھوڑ کر توحید کو نہیں مانیں گے تو ان پر اللہ کا عذاب آئے گا اس لیے مشرکین جب دریاؤں اور سمندروں میں اپنی کشتیوں اور جہازوں کو غضب ناک لہروں میں گھرے ہوئے دیکھتے تو گمان کرتے کہ شاید یہ وہی خدا ہے اور فوراً خالص اللہ تعالیٰ کو پکارنا شروع کردیتے۔
Top