Jawahir-ul-Quran - Al-Baqara : 143
وَ كَذٰلِكَ جَعَلْنٰكُمْ اُمَّةً وَّسَطًا لِّتَكُوْنُوْا شُهَدَآءَ عَلَى النَّاسِ وَ یَكُوْنَ الرَّسُوْلُ عَلَیْكُمْ شَهِیْدًا١ؕ وَ مَا جَعَلْنَا الْقِبْلَةَ الَّتِیْ كُنْتَ عَلَیْهَاۤ اِلَّا لِنَعْلَمَ مَنْ یَّتَّبِعُ الرَّسُوْلَ مِمَّنْ یَّنْقَلِبُ عَلٰى عَقِبَیْهِ١ؕ وَ اِنْ كَانَتْ لَكَبِیْرَةً اِلَّا عَلَى الَّذِیْنَ هَدَى اللّٰهُ١ؕ وَ مَا كَانَ اللّٰهُ لِیُضِیْعَ اِیْمَانَكُمْ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ بِالنَّاسِ لَرَءُوْفٌ رَّحِیْمٌ
وَكَذٰلِكَ : اور اسی طرح جَعَلْنٰكُمْ : ہم نے تمہیں بنایا اُمَّةً : امت وَّسَطًا : معتدل لِّتَكُوْنُوْا : تاکہ تم ہو شُهَدَآءَ : گواہ عَلَي : پر النَّاسِ : لوگ وَيَكُوْنَ : اور ہو الرَّسُوْلُ : رسول عَلَيْكُمْ : تم پر شَهِيْدًا : گواہ وَمَا جَعَلْنَا : اور نہیں مقرر کیا ہم نے الْقِبْلَةَ : قبلہ الَّتِىْ : وہ کس كُنْتَ : آپ تھے عَلَيْهَآ : اس پر اِلَّا : مگر لِنَعْلَمَ : تاکہ ہم معلوم کرلیں مَنْ : کون يَّتَّبِعُ : پیروی کرتا ہے الرَّسُوْلَ : رسول مِمَّنْ : اس سے جو يَّنْقَلِبُ : پھرجاتا ہے عَلٰي : پر عَقِبَيْهِ : اپنی ایڑیاں وَاِنْ : اور بیشک كَانَتْ : یہ تھی لَكَبِيْرَةً : بھاری بات اِلَّا : مگر عَلَي : پر الَّذِيْنَ : جنہیں ھَدَى : ہدایت دی اللّٰهُ : اللہ وَمَا كَانَ : اور نہیں اللّٰهُ : اللہ لِيُضِيْعَ : کہ وہ ضائع کرے اِيْمَانَكُمْ : تمہارا ایمان اِنَّ : بیشک اللّٰهَ : اللہ بِالنَّاسِ : لوگوں کے ساتھ لَرَءُوْفٌ : بڑا شفیق رَّحِيْمٌ : رحم کرنے والا
اور اسی طرح کیا ہم نے تم کو امت معتدل272 تاکہ تم ہو گواہ لوگوں پر اور ہو رسول تم پر گواہی دینے والاف 3 27 اور نہیں مقرر کیا تھا ہم نے زززوہ قبلہ کہ جس پر تو پہلے تھا274 مگر اس واسطے کہ معلوم کریں کون تابع رہیگا رسول کا اور کون پھرجائے گا الٹے پاؤں275 اور بیشک یہ بات بھاری ہوئی مگر ان پر جن کو راہ دکھائی اللہ نے اور اللہ ایسا نہیں کہ ضائع کرے تمہارا ایمان276 بیشک اللہ لوگوں پر بہت شفیق نہایت مہربان ہے  
272 مفسرین نے کذالک کو تشبیہ کے لیے قرار دیا ہے۔ لیکن حضرت شیخ نے فرمایا کہ کذالک یہاں تشبیہ متعارف کے لیے نہیں ہے لہذا مشبہ اور مشبہ بہ مقدر ماننے کی ضرورت نہیں۔ بلکہ بیان کمال کے لیے ہے۔ وسط کے معنی خیار اور بہتر کے ہیں تو مطلب یہ ہے کہ اس طرح ہم نے تم کو بہترین اور خیر امت بنادیا ہے یعنی یہ ہمارا کمال ہے اسی طرح اور بھی کئی جگہوں میں کاف تشبیہ کے لیے نہیں بلکہ بیان کمال کیلئے ہے جیسا کہ ارشاد ہے وَکَذٰلِکَ اَنْز (رح) لْنٰہُ حُکْماً عَرَبِیاً (رعد ع 5) یعنی قرآن کو ایسا حکم عربی بنانا ہمارا کمال ہے۔ چونکہ دنیا کی رہنمائی اور پیشوائی تمہارے سپرد ہونے والی ہے اس لیے کعبہ کو جو جغرافیائی اعتبار سے ساری دنیا کے سینٹر میں واقع ہے تمہارا مرکز بنادیا ہے۔273 یہ مرکزیت تمہیں اس لیے عطا کی ہے تاکہ میرا پیغمبر تم کو میری توحید بتائے۔ اور میرے احکام سے تم کو آگاہ کرے اور تم دوسرے لوگوں کو توحید بتاؤ اور ان تک میرے احکام پہنچاؤ۔ اس میں خطاب صحابہ کرام سے ہے۔۔ اور شہداء شہید کی جمع ہے۔ جو شہادۃ سے ماخوذ ہے۔ جن کے معنی ہیں بیان کرنا اس لیے شہید اور اسی طرح شاہد کے معنی ہوں گے اللہ کی توحید بیان کرنے والا اور راہ حق بتانیوالا۔ جیسا کہ علامہ ابن صفی حنفی نے لکھا ہے۔ انا ارسلناک شاھدا اللہ بالوحدانیۃ (جامع ص 364) یعنی آپ کو ہم نے توحید بیان کرنے والا بنا کر بھیجا اسی طرح سورة مائدہ میں وَکَانُواْ عَلَیہِ شُھَدَاءَ کے تحت علامہ موصوف لکھتے ہیں رقبء لئلا یبدل (جامع ص 100) ۔ یعنی علماء یہود تورات کے محافظ تھے کہ اس میں تبدیلی نہ ہونے پائے اور حضرت مولانا شاہ عبدالقادر محدث دہلوی نے سورة مزمل میں شَاھِداً کا ترجمہ بتانے والا کیا ہے۔ اِنااَرْسَلْنَا اِلَیْکُم رَسُوْلاً شَاھِداً عَلَیْکُم (ہم نے بھیجا تمہاری طرف رسول بتانے والا تمہارا۔ شاہ عبدالقادر) لیکن شرک پسند اور بدعت نواز مولوی کہتے ہیں کہ یہاں شہید کے معنی گواہ کے ہیں اور گواہ صرف وہی ہوسکتا ہے جو موقع پر موجود ہو اور واقعہ کو اپنی آنکھوں سے دیکھے جب اللہ تعالیٰ نے حضرت نبی کریم ﷺ کو امت پر گواہ فرمایا تو اس سے معلوم ہوا کہ آپ ہر امتی کے ساتھ موجود ہوتے ہیں اور اس کی تمام حرکات و سکنات کو دیکھتے ہیں ورنہ گواہ نہیں بن سکتے تو اس سے ثابت ہوا کہ آپ ہر جگہ اور ہر وقت حاضر وناظر ہیں۔ پہلا جواب : لفظ شہید یہاں بمعنی گواہ نہیں بلکہ جیسا کہ پہلے جامع البیان اور ترجمہ موضح قرآن کے حوالہ سے بیان کیا گیا ہے۔ یہاں شہید کے معنی بیان کرنے والے اور بتانے والے کے ہیں۔ اور سیاق وسباق کے اعتبار سے بھی یہی معنی موزوں ہیں۔ کیوں کہ اسی آیت میں صحابہ کرام کے لیے بھی لفظ شہداء استعمال کیا گیا ہے اور یہ لفظ بعینہ وہی مفہوم ادا کر رہا ہے۔ جو سورة آل عمران رکوع 3 ایک پوری آیت میں بیان کیا گیا ہے۔ یعنی كُنْتُمْ خَيْرَ اُمَّةٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَتَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَتُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰهِ ۔ دوسرا جواب : اگر مان لیا جائے کہ اس آیت میں شہید بمعنی گواہ ہی ہے لیکن یہ دعویٰ غلط ہے کہ گواہ صرف وہی شخص بن سکتا ہے جو موقع پر موجود ہو اور واقعہ کو اپنی آنکھوں سے دیکھے کیونکہ فقہائے حنفیہ کا متفقہ فیصلہ ہے کہ گواہی کے لیے واقعہ کا آنکھوں سے مشاہدہ کرنا ضروری نہیں کیونکہ قرآن مجید میں وارد ہے۔ وَشَھِدَ شَاھِدٌ مِّنْ اَھْلِھَا اِنْ کَانَ قَمِیْصُہٗ قُدَّ مِنْ قُبُلٍ الایۃ۔ یہاں اس شخص کو شاہد (گواہ) فرمایا جس نے زلیخا کی دست اندازی کا اپنی آنکھوں سے مشاہدہ نہیں کیا تھا بلکہ محض علامات کی بنا پر گواہی دی تو معلوم ہوا کہ گواہی کے لیے مشاہدہ ضروری نہیں اسی طرح اگر ایک شخص موقعہ پر موجود نہ ہو۔ لیکن واقعہ کی خبر اس تک کسی ایسے معتبر اور باوثوق ذریعہ سے پہنچ جائے جس سے اس کو اقعہ کی صداقت کا یقین ہوجائے تو اس کیلئے گواہی دینا جائز ہے۔ چناچہ ہدایہ ج 3 ص 157 پر ہے انما یجوز للشاھد ان یشھد بالاشتھار وذلک بالتواتر او اخبار من یثق بہ۔ تیسرا جواب :۔ شہید کے معنی یہاں نگہبان اور رقیب کے ہیں۔ اور مطلب یہ ہے کہ خدا کا رسول تم پر (یعنی صحابہ کرام پر) نگہبان ہے تاکہ تم دین اسلام سے نہ ہٹنے پاؤ اور دین میں تحریف نہ ہونے پائے۔ اور تم ان لوگوں پر نگہبان ہو جو تم سے دین سیکھیں۔ جیسا کہ صحیح حدیث میں ہے آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ قیامت کے دن میں دیکھوں گا۔ کہ میری امت کے کچھ لوگ لائے جا رہے ہوں گے لیکن قبل اس کے کہ وہ مجھ تک حوض کوثر پر پہنچیں انہیں جہنم کی طرف لے جایا جائے گا۔ تو میں کہوں گا کہ یہ تو میرے امتی ہیں۔ تو مجھے جواب ملے گا کہ آپ کے بعد ان لوگوں نے جو کچھ کیا ہے آپ کو معلوم نہیں تو :۔ فاقول کما قال العبد الصالح وکنت علیھم شھیدا ما دمت فیھم فلما توفیتنی کنت انت الرقیب علیہم (صحیح بخاری ص 665 ج 2) میں اس کے جواب میں وہی کچھ کہوں گا جو اللہ کا نیک بندہ عیسیٰ (علیہ السلام) کہے گا۔ کہ جب تک میں ان میں موجود تھا ان پر نگران رہا اور جب تو نے مجھے اٹھا لیا تو تو ہی ان کا نگہبان تھا۔ اس حدیث میںحضور ﷺ نے خود بیان فرمادیا کہ جب تک میں ان موجود رہا ان کے حالات سے آگاہ رہا تو اس سے معلوم ہوا کہ آپ کا گواہ ہونا صحابہ کے لیے ہے اور ہر امتی پر آپ گواہ نہیں ہیں اور نہ ہر جگہ حاضر وناظر ہیں۔ چوتھا جواب۔ یا گواہ سے مراد یہ ہے کہ جب قیامت کے دن آپ کی امت پہلی امتوں پر گواہی دے گی کہ ان کے پیغمبروں نے ان کو اللہ کے احکام پہنچائے ہیں اور آپ اپنی امت پر تبلیغ رسالت کی گواہی دیں گے۔ جیسا کہ حضرت قتادہ فرماتے ہیں۔ لِّتَكُوْنُوْا شُهَدَاۗءَ عَلَي النَّاسِ ، لتکون ھذہ الامۃ شھداء علی الناس ان الرسل قد بلغتکم ویکون الرسول علی ھذہ الامۃ شہیدا ان قد بلغ ما ارسل بہ (ابن جریر ص 6 ج 2) جیسا کہ حدیث میں ہے۔ یجاء بنوح (علیہ السلام) یوم القیامۃ فیقال لہ ھل بلغت فیقول بلغت یعنی نعم یا رب فیسئل امتہ ھل بلغکم فیقولون ماجاءنا من نذیر فیقال من شھودک فیقول محمد وامتہ فقال رسول اللہ ﷺ فیجاء بکم فتشہدون (الصحیح البخاری ص 1092 ج 2) یعنی قیامت کے دن حضرت نوح (علیہ السلام) سے سوال ہوگا کیا تو نے میرے احکام اپنی امت تک پہنچائے تو وہ جواب دیں گے کہ اے میرے رب میں نے پہنچادئیے۔ پھر اللہ تعالیٰ ان کی امت سے سوال فرمائے گا کیا اس نے تم کو میرے احکام پہنچائے تو وہ کہیں گے کہ ہمارے پاس تو کوئی ڈرانے والا آیا ہی نہیں۔ تو حضرت نوح (علیہ السلام) سے پوچھا جائے گا۔ تیرے گواہ کون ہیں تو وہ جواب دیں گے کہ محمد ﷺ اور آپ کی امت میری گواہ ہے توحضور ﷺ نے فرمایا چناچہ پھر تمہیں بلایا جائے گا اور تم گواہی دو گے۔ بعض روایتوں میں آتا ہے کہ قوم نوح امت محمدیہ پر اعتراض کرے گی کہ تم کس طرح گواہی دے سکتے ہو تم اس وقت موجود ہی نہیں تھے۔ تو امت محمدیہ جواب دے گی۔ ان اللہ تعالیٰ بعث الینا رسولا وانزل علیہ الکتاب فکان فیما انزل الینا خبرکم) یعنی اللہ تعالیٰ نے ہماری طرف اپنا رسول بھیجا اور اس پر کتاب نازل فرمائی اور اس میں تمہارا ذکر بھی فرمایا کہ حضرت نوح (علیہ السلام) نے اپنی قوم کو اللہ کی توحید اور اس کے احکام کما حقہ پہنچائے تھے۔ پانچواں جواب : اگر بالفرض مان لیا جائے کہ تمام دلائل قطعیہ اور نصوص صریحہ کے خلاف یہاں لفظ شہید کے معنی حاضر وناظر ہی کے ہیں اور اس سےحضور ﷺ کا حاضر وناظر ہونا ثابت ہورہا ہے تو پھر صرفحضور ﷺ ہی کو نہیں بلکہ ساری امت محمدیہ کو حاضر وناظر ماننا پڑے گا کیونکہ اسی آیت میں امت محمدیہ کے لیے بھی لفظ شہداء استعمال کیا گیا ہے جو شہید کی جمع ہے۔ بلکہ اس صورت میں تو امت کا رتبہ حضور ﷺ سے بھی بڑھ جائے گا۔ کیونکہ آپ تو صرف اپنی امت کے گواہ ہیں اور یہ امت پہلی تمام امتوں پر گواہ ہے۔ جیسا کہ لِّتَكُوْنُوْا شُهَدَاۗءَ عَلَي النَّاسِسے ظاہر ہے۔ چھٹا جواب۔ اگر شہید کے وہی معنی تسلیم کرلیے جائیں جو مبتدعین کہتے ہیں تو اس آیت اور قرآن مجید کی دوسری آیتوں کے درمیان ایسا اختلاف اور تضاد رونما ہوگا جس کا اٹھانا ممکن نہیں ہوگا۔ مثلا سورة بقرہ جس میں یہ آیت ہے مدینہ منورہ میں سب سے پہلے نازل ہوئی۔ اس کے بعد تقریبا، 16، 17 سورتیں اور نازل ہوئیں اور ان کے بعد سورة منافقون نازل ہوئی جس کا شان نزول صحیح روایتوں کے مطابق یہ ہے کہ غزوۂ تبوک کے سفر میں عبداللہ بن ابی رئیس المنافقین نے موقع پا کر اپنے ساتھی منافقین سے کہا اس پیگمبر اور اس کے ساتھیوں نے ہمیں بہت تنگ کر رکھا ہے۔ ان کی وجہ سے ہمیں بہت تکلیف ہے۔ جب ہم مدینہ واپس پہنچیں گے تو (العیاذ باللہ) ان کمینوں کو شہر سے نکال دیں گے۔ عبداللہ کی یہ باتیں ایک کم سن صحابی حضرت زید بن ارقم نے سن لیں اور اپنے چچا سے کہہ دیں۔ انہوں نے سارا ماجر آنحضرت ﷺ کی خدمت میں عرض کردیا۔ تو آپ نے عبداللہ بن ابی کو بلا کر پوچھا تو اس نے قسمیں کھا کرحضور ﷺ کو یہ باور کرادیا کہ اس نے ایسی کوئی بات نہیں کی۔ چناچہ آپ نے زید بن ارقم کو جھٹلادیا اور عبداللہ بن ابی کو سچا مان لیا۔ تو اس پر سورة منافقون نازل ہوئی جس سے آپ پر حقیقت حال منکشف ہوئی۔ اگر آپ حاضر وناظر ہوتے تو یقینا آپ کو عبداللہ بن ابی کی باتیں معلوم ہوجاتیں اور آپ زید بن ارقم کی تصدیق فرماتے اور عبداللہ کی قسموں کی پرواہ نہ کرتے ہوئے اس کو جھٹلا دیتے۔ اس لیے اس سے ثابت ہوتا ہے کہ شَھِیْد کے معنی یہاں حاضر وناظر کے نہیں ہیں جیسا کہ فریق مخالف کا زعم ہے۔ ایک شبہ : بعض مبتدعین یہاں حضرت شاہ عبدالعزیز قدس سرہ کی ایک عبارت پیش کر کے اس سےحضور ﷺ کا حاضر وناظر ہونا ثابت کرتے ہیں وہ کہتے ہیں کہ شاہ صاحب نے اس آیت کی تفسیر میں لکھا ہے " یعنی وباشد رسول شما برشما گواہ زیرا کہ او مطلع است بہ نور نبوت بہ رتبہ ہر متدین بدین خود کہ درکدام درجہ از دین من رسیدہ الخ (تفسیر عزیزی ص 636 ج 1) " یعنی اور ہے رسول تمہارا تم پر گواہ کیونکہ آپ نور نبوت سے اپنے ہر امتی کا رتبہ جانتے ہیں کہ وہ کس درجہ پر پہنچا ہے تو اس سے معلوم ہوا کہ آپ ہر امتی کے تفصیلی حالات سے آگاہ ہیں اور حاضر وناظر ہیں۔ جواب : یہ عبارت حضرت شاہ عبدالعزیز (رح) کی نہیں ہے بلکہ مدرج ہے بعد میں کسی نے بڑھائی ہے کیونکہ اس کے بعد آگے چل کر حضرت شاہ صاحب لکھتے ہیں " شہادت درینجا بمعنی گواہی نیست بلکہ بمعنی اطلاع ونگہبانی است تاز اجادۂ حق بیرون نردند چناچہ وَاللہُ علیٰ کُلِّ شَیْءٍ شَھِیْدٌ۔ و در مقولہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کہ وَكُنْتُ عَلَيْهِمْ شَهِيْدًا مَّا دُمْتُ فِيْهِمْ ۚ فَلَمَّا تَوَفَّيْتَنِيْ كُنْتَ اَنْتَ الرَّقِيْبَ عَلَيْهِمْ ۭواَنْتَ عَلٰي كُلِّ شَيْءٍ شَهِيْدٌ۔ (تفسیر عزیزی ص 641) یعنی اس آیت میں شہید بمعنی گواہ نہیں بلکہ اس کے معنی نگران اور نگہبان کے ہیں یہ عبارت اس بات کا کھلا ہوا قرینہ ہے کہ پہلی عبارت حضرت شاہ صاحب کی نہیں ہے کیونکہ دوسری عبارت میں انہوں نے لفظ شہید کا جو مفہوم بیان فرما ہے وہ پہلی عبارت کے بالکل منافی ہے۔274 ووسرا جواب : یہ دوسرا جواب ہے اور پہلے جواب کی تفصیل ہے یعنی تحویل قبلہ کا حکم ہم نے اس لیے دیا ہے تاکہ کھرے کھوٹے اور مخلص و منافق میں امتیاز ہوجائے۔ مکہ معظمہ میں تو آپ کعبہ کی طرف نماز پڑھتے تھے ہجرت کے بعد بیت المقدس قبلہ مقرر کیا گیا۔ اور پھر سولہ سترہ ماہ کے بعد دوبارہ کعبہ ہی کو قبلہ مقرر کیا گیا اس طرح نسخ قبلہ دو دفعہ واقع ہوئی ہے۔ یہاں جَعَلَ بمعنی صَیَۤرَ ہے لہذا اس کے دو مفعول ہونے چاہئیں۔ چناچہ اس کا مفعول اول محذوف ہے۔ یعنی الکعبۃ اور القبلۃ مفعول ثانی ہے۔ اور التی کنت علیھا الکعبۃ کی صفت ہے۔ والمعنی وما جعلنا الکعبۃ التی کانت قبلۃ لک اولا ثم صرفت عنھا الی بیت المقدس قبلتک الان الا لنعلم (بحر ص 423 ج 1) یعنی کعبہ جو پہلے آپ کا قبلہ تھا اور جس کے بعد بیت المقدس کو آپ کا قبلہ بنایا گیا اب دوبارہ آپ کا قبلہ صرف اس لیے مقرر کیا گیا ہے۔ تاکہ فرمانبردار اور نافرمان میں امتیاز ہوجائے۔ 275 لِنَعْلَمَ استقبال کے لیے ہے لہذا اس سے شبہ پڑتا ہے کہ اس سے پہلے اللہ تعالیٰ کو معلوم نہیں تھا کہ کون مانے گا اور کون نہیں مانے گا۔ حالانکہ یہ چیز اہل اسلام کے عقیدہ کے خلاف ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ تو ازل سے ابد تک تمام کلیات وجزئیات کا علم رکھتا ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ یہاں علم سے مراد خارج میں تمییز اور اظہار ہے۔ ارید بہ التمییز فی الخارج (روح ص 6 ج 1) فوضع العلم موضع التمییز لان بہ یقع التمییز (مدارک ص 63 ج 1) یعنی ہم نے تحویل قبلہ اس لیے کی ہے تاکہ ہمارے پیغمبر کے فرمانبرداروں اور نافرمانوں میں امتیاز ہوجائے جو لوگ وتحویل قبلہ کے حکم کو بخوشی مان لیں گے وہ فرماں بردار ہوں گے اور جو نہ مانیں گے بلکہ اس کی پھبتی اڑائیں گے وہ نافرمان ہوں گے۔ چناچہ بعض مفسرین نے لکھا ہے کہ اس موقع پر کئی مسلمان مرتد ہوگئے۔ مگر یہ وہی مسلمان تھے جو بظاہر مسلمان کہلاتے تھے لیکن حقیقت میں مسلمان نہیں تھے یعنی منافقین یہ لوگ پہلے تو پوشیدہ طور پر مخالفت کرتے تھے مگر تحویل قبلہ کے موقع پر علانیہ اس کا تمسخر اڑانا شروع کردیا۔ تاکہ مخلص مسلمانوں کے دلوں میں بھی شبہات پیدا ہوجائیں تحویل قبلہ بھی مخلص و منافق اور طیب وخبیث کے درمیان امتیاز کرنے کا ایک ذریعہ ہے۔ وَاِنْ كَانَتْ لَكَبِيْرَةً اِلَّا عَلَي الَّذِيْنَ ھَدَى اللّٰهُ ۔ ہدایت سے مراد ایمان ہے۔ ای خلق الھدی الذی ھو الایمان فی قلوبھم (قرطبی ص 157 ج 2) یعنی تحویل قبلہ ایک بھاری آزمائش تھی مگر جن کے دلوں میں اللہ تعالیٰ نے ایمان پیدا کردیا تھا ان کے لیے اس کا مقابلہ کرنا آسان تھا۔ کیونکہ وہ نہ مصلحتوں کو دیکھتے ہیں۔ نہ حکمتوں کو۔ ان کی زندگی کا ماحصل تو بس ایمان و تسلیم ہے جہاں حکم ہوا وہیں سر جھکادیا۔276 ایمان سے مراد نماز ہے جیسا کہ صحیح روایتوں میں حضرت ابن عباس ؓ سے مروی ہے۔ تحویل قبلہ کی بعد بعض مسلمانوں نےحضور ﷺ کی خدمت میں عرض کیا۔ کہ یارسول اللہ جو مسلمان بیت المقدس کی طرف نمازیں پڑھتے ہوئے فوت ہوگئے ہیں ان کی نمازوں کا کیا ہوگا۔ تو اس پر یہ آیت نازل ہوئی کہ اللہ تعالیٰ تمہاری نماز کو ضائع نہیں کرے گا۔ بیت المقدس کی تمہاری پڑھی ہوئی نمازیں سب درست ہیں کیونکہ وہ بھی ہمارے حکم کے مطابق پڑھی گئی تھیں۔ اس طرح یہ سوال مقدر کا جواب ہے اور ممکن ہے ایمان اپنے ہی مفہوم یعنی تصدیق بالقلب اور اقرار باللسان پر باقی ہو۔ تو اس صورت میں اس آیت میں مسلمانوں کے اس شبہ کا ازالہ ہوگا۔ کہ جب اصل قبلہ کعبہ تھا تو بیت المقدس کی طرف منہ کر کے نمازیں پڑھنے اور اسے اپنا قبلہ سمجھنے سے ہمارے ایمان میں تو کوئی خلل واقع نہیں ہوا۔ اِنَّ اللّٰهَ بِالنَّاسِ لَرَءُوْفٌ رَّحِيْمٌ۔ اللہ تعالیٰ ایسا شفیق ومہربان ہے کہ اس کے تمام احکام شفقت و رحمت پر مبنی ہیں چناچہ تحویل قبلہ کا حکم بھی اسی قبیل سے ہے۔ اور وہ کسی کا اخلاص اور ایمان کے ساتھ کیا ہوا عمل کبھی ضائع نہیں کرتا۔
Top