Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
166
167
168
169
170
171
172
173
174
175
176
177
178
179
180
181
182
183
184
185
186
187
188
189
190
191
192
193
194
195
196
197
198
199
200
201
202
203
204
205
206
207
208
209
210
211
212
213
214
215
216
217
218
219
220
221
222
223
224
225
226
227
228
229
230
231
232
233
234
235
236
237
238
239
240
241
242
243
244
245
246
247
248
249
250
251
252
253
254
255
256
257
258
259
260
261
262
263
264
265
266
267
268
269
270
271
272
273
274
275
276
277
278
279
280
281
282
283
284
285
286
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Jawahir-ul-Quran - Al-Baqara : 143
وَ كَذٰلِكَ جَعَلْنٰكُمْ اُمَّةً وَّسَطًا لِّتَكُوْنُوْا شُهَدَآءَ عَلَى النَّاسِ وَ یَكُوْنَ الرَّسُوْلُ عَلَیْكُمْ شَهِیْدًا١ؕ وَ مَا جَعَلْنَا الْقِبْلَةَ الَّتِیْ كُنْتَ عَلَیْهَاۤ اِلَّا لِنَعْلَمَ مَنْ یَّتَّبِعُ الرَّسُوْلَ مِمَّنْ یَّنْقَلِبُ عَلٰى عَقِبَیْهِ١ؕ وَ اِنْ كَانَتْ لَكَبِیْرَةً اِلَّا عَلَى الَّذِیْنَ هَدَى اللّٰهُ١ؕ وَ مَا كَانَ اللّٰهُ لِیُضِیْعَ اِیْمَانَكُمْ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ بِالنَّاسِ لَرَءُوْفٌ رَّحِیْمٌ
وَكَذٰلِكَ
: اور اسی طرح
جَعَلْنٰكُمْ
: ہم نے تمہیں بنایا
اُمَّةً
: امت
وَّسَطًا
: معتدل
لِّتَكُوْنُوْا
: تاکہ تم ہو
شُهَدَآءَ
: گواہ
عَلَي
: پر
النَّاسِ
: لوگ
وَيَكُوْنَ
: اور ہو
الرَّسُوْلُ
: رسول
عَلَيْكُمْ
: تم پر
شَهِيْدًا
: گواہ
وَمَا جَعَلْنَا
: اور نہیں مقرر کیا ہم نے
الْقِبْلَةَ
: قبلہ
الَّتِىْ
: وہ کس
كُنْتَ
: آپ تھے
عَلَيْهَآ
: اس پر
اِلَّا
: مگر
لِنَعْلَمَ
: تاکہ ہم معلوم کرلیں
مَنْ
: کون
يَّتَّبِعُ
: پیروی کرتا ہے
الرَّسُوْلَ
: رسول
مِمَّنْ
: اس سے جو
يَّنْقَلِبُ
: پھرجاتا ہے
عَلٰي
: پر
عَقِبَيْهِ
: اپنی ایڑیاں
وَاِنْ
: اور بیشک
كَانَتْ
: یہ تھی
لَكَبِيْرَةً
: بھاری بات
اِلَّا
: مگر
عَلَي
: پر
الَّذِيْنَ
: جنہیں
ھَدَى
: ہدایت دی
اللّٰهُ
: اللہ
وَمَا كَانَ
: اور نہیں
اللّٰهُ
: اللہ
لِيُضِيْعَ
: کہ وہ ضائع کرے
اِيْمَانَكُمْ
: تمہارا ایمان
اِنَّ
: بیشک
اللّٰهَ
: اللہ
بِالنَّاسِ
: لوگوں کے ساتھ
لَرَءُوْفٌ
: بڑا شفیق
رَّحِيْمٌ
: رحم کرنے والا
اور اسی طرح کیا ہم نے تم کو امت معتدل
272
تاکہ تم ہو گواہ لوگوں پر اور ہو رسول تم پر گواہی دینے والاف
3
27
اور نہیں مقرر کیا تھا ہم نے زززوہ قبلہ کہ جس پر تو پہلے تھا
274
مگر اس واسطے کہ معلوم کریں کون تابع رہیگا رسول کا اور کون پھرجائے گا الٹے پاؤں
275
اور بیشک یہ بات بھاری ہوئی مگر ان پر جن کو راہ دکھائی اللہ نے اور اللہ ایسا نہیں کہ ضائع کرے تمہارا ایمان
276
بیشک اللہ لوگوں پر بہت شفیق نہایت مہربان ہے
272
مفسرین نے کذالک کو تشبیہ کے لیے قرار دیا ہے۔ لیکن حضرت شیخ نے فرمایا کہ کذالک یہاں تشبیہ متعارف کے لیے نہیں ہے لہذا مشبہ اور مشبہ بہ مقدر ماننے کی ضرورت نہیں۔ بلکہ بیان کمال کے لیے ہے۔ وسط کے معنی خیار اور بہتر کے ہیں تو مطلب یہ ہے کہ اس طرح ہم نے تم کو بہترین اور خیر امت بنادیا ہے یعنی یہ ہمارا کمال ہے اسی طرح اور بھی کئی جگہوں میں کاف تشبیہ کے لیے نہیں بلکہ بیان کمال کیلئے ہے جیسا کہ ارشاد ہے وَکَذٰلِکَ اَنْز (رح) لْنٰہُ حُکْماً عَرَبِیاً (رعد ع
5
) یعنی قرآن کو ایسا حکم عربی بنانا ہمارا کمال ہے۔ چونکہ دنیا کی رہنمائی اور پیشوائی تمہارے سپرد ہونے والی ہے اس لیے کعبہ کو جو جغرافیائی اعتبار سے ساری دنیا کے سینٹر میں واقع ہے تمہارا مرکز بنادیا ہے۔
273
یہ مرکزیت تمہیں اس لیے عطا کی ہے تاکہ میرا پیغمبر تم کو میری توحید بتائے۔ اور میرے احکام سے تم کو آگاہ کرے اور تم دوسرے لوگوں کو توحید بتاؤ اور ان تک میرے احکام پہنچاؤ۔ اس میں خطاب صحابہ کرام سے ہے۔۔ اور شہداء شہید کی جمع ہے۔ جو شہادۃ سے ماخوذ ہے۔ جن کے معنی ہیں بیان کرنا اس لیے شہید اور اسی طرح شاہد کے معنی ہوں گے اللہ کی توحید بیان کرنے والا اور راہ حق بتانیوالا۔ جیسا کہ علامہ ابن صفی حنفی نے لکھا ہے۔ انا ارسلناک شاھدا اللہ بالوحدانیۃ (جامع ص
364
) یعنی آپ کو ہم نے توحید بیان کرنے والا بنا کر بھیجا اسی طرح سورة مائدہ میں وَکَانُواْ عَلَیہِ شُھَدَاءَ کے تحت علامہ موصوف لکھتے ہیں رقبء لئلا یبدل (جامع ص
100
) ۔ یعنی علماء یہود تورات کے محافظ تھے کہ اس میں تبدیلی نہ ہونے پائے اور حضرت مولانا شاہ عبدالقادر محدث دہلوی نے سورة مزمل میں شَاھِداً کا ترجمہ بتانے والا کیا ہے۔ اِنااَرْسَلْنَا اِلَیْکُم رَسُوْلاً شَاھِداً عَلَیْکُم (ہم نے بھیجا تمہاری طرف رسول بتانے والا تمہارا۔ شاہ عبدالقادر) لیکن شرک پسند اور بدعت نواز مولوی کہتے ہیں کہ یہاں شہید کے معنی گواہ کے ہیں اور گواہ صرف وہی ہوسکتا ہے جو موقع پر موجود ہو اور واقعہ کو اپنی آنکھوں سے دیکھے جب اللہ تعالیٰ نے حضرت نبی کریم ﷺ کو امت پر گواہ فرمایا تو اس سے معلوم ہوا کہ آپ ہر امتی کے ساتھ موجود ہوتے ہیں اور اس کی تمام حرکات و سکنات کو دیکھتے ہیں ورنہ گواہ نہیں بن سکتے تو اس سے ثابت ہوا کہ آپ ہر جگہ اور ہر وقت حاضر وناظر ہیں۔ پہلا جواب : لفظ شہید یہاں بمعنی گواہ نہیں بلکہ جیسا کہ پہلے جامع البیان اور ترجمہ موضح قرآن کے حوالہ سے بیان کیا گیا ہے۔ یہاں شہید کے معنی بیان کرنے والے اور بتانے والے کے ہیں۔ اور سیاق وسباق کے اعتبار سے بھی یہی معنی موزوں ہیں۔ کیوں کہ اسی آیت میں صحابہ کرام کے لیے بھی لفظ شہداء استعمال کیا گیا ہے اور یہ لفظ بعینہ وہی مفہوم ادا کر رہا ہے۔ جو سورة آل عمران رکوع
3
ایک پوری آیت میں بیان کیا گیا ہے۔ یعنی كُنْتُمْ خَيْرَ اُمَّةٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَتَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَتُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰهِ ۔ دوسرا جواب : اگر مان لیا جائے کہ اس آیت میں شہید بمعنی گواہ ہی ہے لیکن یہ دعویٰ غلط ہے کہ گواہ صرف وہی شخص بن سکتا ہے جو موقع پر موجود ہو اور واقعہ کو اپنی آنکھوں سے دیکھے کیونکہ فقہائے حنفیہ کا متفقہ فیصلہ ہے کہ گواہی کے لیے واقعہ کا آنکھوں سے مشاہدہ کرنا ضروری نہیں کیونکہ قرآن مجید میں وارد ہے۔ وَشَھِدَ شَاھِدٌ مِّنْ اَھْلِھَا اِنْ کَانَ قَمِیْصُہٗ قُدَّ مِنْ قُبُلٍ الایۃ۔ یہاں اس شخص کو شاہد (گواہ) فرمایا جس نے زلیخا کی دست اندازی کا اپنی آنکھوں سے مشاہدہ نہیں کیا تھا بلکہ محض علامات کی بنا پر گواہی دی تو معلوم ہوا کہ گواہی کے لیے مشاہدہ ضروری نہیں اسی طرح اگر ایک شخص موقعہ پر موجود نہ ہو۔ لیکن واقعہ کی خبر اس تک کسی ایسے معتبر اور باوثوق ذریعہ سے پہنچ جائے جس سے اس کو اقعہ کی صداقت کا یقین ہوجائے تو اس کیلئے گواہی دینا جائز ہے۔ چناچہ ہدایہ ج
3
ص
157
پر ہے انما یجوز للشاھد ان یشھد بالاشتھار وذلک بالتواتر او اخبار من یثق بہ۔ تیسرا جواب :۔ شہید کے معنی یہاں نگہبان اور رقیب کے ہیں۔ اور مطلب یہ ہے کہ خدا کا رسول تم پر (یعنی صحابہ کرام پر) نگہبان ہے تاکہ تم دین اسلام سے نہ ہٹنے پاؤ اور دین میں تحریف نہ ہونے پائے۔ اور تم ان لوگوں پر نگہبان ہو جو تم سے دین سیکھیں۔ جیسا کہ صحیح حدیث میں ہے آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ قیامت کے دن میں دیکھوں گا۔ کہ میری امت کے کچھ لوگ لائے جا رہے ہوں گے لیکن قبل اس کے کہ وہ مجھ تک حوض کوثر پر پہنچیں انہیں جہنم کی طرف لے جایا جائے گا۔ تو میں کہوں گا کہ یہ تو میرے امتی ہیں۔ تو مجھے جواب ملے گا کہ آپ کے بعد ان لوگوں نے جو کچھ کیا ہے آپ کو معلوم نہیں تو :۔ فاقول کما قال العبد الصالح وکنت علیھم شھیدا ما دمت فیھم فلما توفیتنی کنت انت الرقیب علیہم (صحیح بخاری ص
665
ج
2
) میں اس کے جواب میں وہی کچھ کہوں گا جو اللہ کا نیک بندہ عیسیٰ (علیہ السلام) کہے گا۔ کہ جب تک میں ان میں موجود تھا ان پر نگران رہا اور جب تو نے مجھے اٹھا لیا تو تو ہی ان کا نگہبان تھا۔ اس حدیث میںحضور ﷺ نے خود بیان فرمادیا کہ جب تک میں ان موجود رہا ان کے حالات سے آگاہ رہا تو اس سے معلوم ہوا کہ آپ کا گواہ ہونا صحابہ کے لیے ہے اور ہر امتی پر آپ گواہ نہیں ہیں اور نہ ہر جگہ حاضر وناظر ہیں۔ چوتھا جواب۔ یا گواہ سے مراد یہ ہے کہ جب قیامت کے دن آپ کی امت پہلی امتوں پر گواہی دے گی کہ ان کے پیغمبروں نے ان کو اللہ کے احکام پہنچائے ہیں اور آپ اپنی امت پر تبلیغ رسالت کی گواہی دیں گے۔ جیسا کہ حضرت قتادہ فرماتے ہیں۔ لِّتَكُوْنُوْا شُهَدَاۗءَ عَلَي النَّاسِ ، لتکون ھذہ الامۃ شھداء علی الناس ان الرسل قد بلغتکم ویکون الرسول علی ھذہ الامۃ شہیدا ان قد بلغ ما ارسل بہ (ابن جریر ص
6
ج
2
) جیسا کہ حدیث میں ہے۔ یجاء بنوح (علیہ السلام) یوم القیامۃ فیقال لہ ھل بلغت فیقول بلغت یعنی نعم یا رب فیسئل امتہ ھل بلغکم فیقولون ماجاءنا من نذیر فیقال من شھودک فیقول محمد وامتہ فقال رسول اللہ ﷺ فیجاء بکم فتشہدون (الصحیح البخاری ص
1092
ج
2
) یعنی قیامت کے دن حضرت نوح (علیہ السلام) سے سوال ہوگا کیا تو نے میرے احکام اپنی امت تک پہنچائے تو وہ جواب دیں گے کہ اے میرے رب میں نے پہنچادئیے۔ پھر اللہ تعالیٰ ان کی امت سے سوال فرمائے گا کیا اس نے تم کو میرے احکام پہنچائے تو وہ کہیں گے کہ ہمارے پاس تو کوئی ڈرانے والا آیا ہی نہیں۔ تو حضرت نوح (علیہ السلام) سے پوچھا جائے گا۔ تیرے گواہ کون ہیں تو وہ جواب دیں گے کہ محمد ﷺ اور آپ کی امت میری گواہ ہے توحضور ﷺ نے فرمایا چناچہ پھر تمہیں بلایا جائے گا اور تم گواہی دو گے۔ بعض روایتوں میں آتا ہے کہ قوم نوح امت محمدیہ پر اعتراض کرے گی کہ تم کس طرح گواہی دے سکتے ہو تم اس وقت موجود ہی نہیں تھے۔ تو امت محمدیہ جواب دے گی۔ ان اللہ تعالیٰ بعث الینا رسولا وانزل علیہ الکتاب فکان فیما انزل الینا خبرکم) یعنی اللہ تعالیٰ نے ہماری طرف اپنا رسول بھیجا اور اس پر کتاب نازل فرمائی اور اس میں تمہارا ذکر بھی فرمایا کہ حضرت نوح (علیہ السلام) نے اپنی قوم کو اللہ کی توحید اور اس کے احکام کما حقہ پہنچائے تھے۔ پانچواں جواب : اگر بالفرض مان لیا جائے کہ تمام دلائل قطعیہ اور نصوص صریحہ کے خلاف یہاں لفظ شہید کے معنی حاضر وناظر ہی کے ہیں اور اس سےحضور ﷺ کا حاضر وناظر ہونا ثابت ہورہا ہے تو پھر صرفحضور ﷺ ہی کو نہیں بلکہ ساری امت محمدیہ کو حاضر وناظر ماننا پڑے گا کیونکہ اسی آیت میں امت محمدیہ کے لیے بھی لفظ شہداء استعمال کیا گیا ہے جو شہید کی جمع ہے۔ بلکہ اس صورت میں تو امت کا رتبہ حضور ﷺ سے بھی بڑھ جائے گا۔ کیونکہ آپ تو صرف اپنی امت کے گواہ ہیں اور یہ امت پہلی تمام امتوں پر گواہ ہے۔ جیسا کہ لِّتَكُوْنُوْا شُهَدَاۗءَ عَلَي النَّاسِسے ظاہر ہے۔ چھٹا جواب۔ اگر شہید کے وہی معنی تسلیم کرلیے جائیں جو مبتدعین کہتے ہیں تو اس آیت اور قرآن مجید کی دوسری آیتوں کے درمیان ایسا اختلاف اور تضاد رونما ہوگا جس کا اٹھانا ممکن نہیں ہوگا۔ مثلا سورة بقرہ جس میں یہ آیت ہے مدینہ منورہ میں سب سے پہلے نازل ہوئی۔ اس کے بعد تقریبا،
16
،
17
سورتیں اور نازل ہوئیں اور ان کے بعد سورة منافقون نازل ہوئی جس کا شان نزول صحیح روایتوں کے مطابق یہ ہے کہ غزوۂ تبوک کے سفر میں عبداللہ بن ابی رئیس المنافقین نے موقع پا کر اپنے ساتھی منافقین سے کہا اس پیگمبر اور اس کے ساتھیوں نے ہمیں بہت تنگ کر رکھا ہے۔ ان کی وجہ سے ہمیں بہت تکلیف ہے۔ جب ہم مدینہ واپس پہنچیں گے تو (العیاذ باللہ) ان کمینوں کو شہر سے نکال دیں گے۔ عبداللہ کی یہ باتیں ایک کم سن صحابی حضرت زید بن ارقم نے سن لیں اور اپنے چچا سے کہہ دیں۔ انہوں نے سارا ماجر آنحضرت ﷺ کی خدمت میں عرض کردیا۔ تو آپ نے عبداللہ بن ابی کو بلا کر پوچھا تو اس نے قسمیں کھا کرحضور ﷺ کو یہ باور کرادیا کہ اس نے ایسی کوئی بات نہیں کی۔ چناچہ آپ نے زید بن ارقم کو جھٹلادیا اور عبداللہ بن ابی کو سچا مان لیا۔ تو اس پر سورة منافقون نازل ہوئی جس سے آپ پر حقیقت حال منکشف ہوئی۔ اگر آپ حاضر وناظر ہوتے تو یقینا آپ کو عبداللہ بن ابی کی باتیں معلوم ہوجاتیں اور آپ زید بن ارقم کی تصدیق فرماتے اور عبداللہ کی قسموں کی پرواہ نہ کرتے ہوئے اس کو جھٹلا دیتے۔ اس لیے اس سے ثابت ہوتا ہے کہ شَھِیْد کے معنی یہاں حاضر وناظر کے نہیں ہیں جیسا کہ فریق مخالف کا زعم ہے۔ ایک شبہ : بعض مبتدعین یہاں حضرت شاہ عبدالعزیز قدس سرہ کی ایک عبارت پیش کر کے اس سےحضور ﷺ کا حاضر وناظر ہونا ثابت کرتے ہیں وہ کہتے ہیں کہ شاہ صاحب نے اس آیت کی تفسیر میں لکھا ہے " یعنی وباشد رسول شما برشما گواہ زیرا کہ او مطلع است بہ نور نبوت بہ رتبہ ہر متدین بدین خود کہ درکدام درجہ از دین من رسیدہ الخ (تفسیر عزیزی ص
636
ج
1
) " یعنی اور ہے رسول تمہارا تم پر گواہ کیونکہ آپ نور نبوت سے اپنے ہر امتی کا رتبہ جانتے ہیں کہ وہ کس درجہ پر پہنچا ہے تو اس سے معلوم ہوا کہ آپ ہر امتی کے تفصیلی حالات سے آگاہ ہیں اور حاضر وناظر ہیں۔ جواب : یہ عبارت حضرت شاہ عبدالعزیز (رح) کی نہیں ہے بلکہ مدرج ہے بعد میں کسی نے بڑھائی ہے کیونکہ اس کے بعد آگے چل کر حضرت شاہ صاحب لکھتے ہیں " شہادت درینجا بمعنی گواہی نیست بلکہ بمعنی اطلاع ونگہبانی است تاز اجادۂ حق بیرون نردند چناچہ وَاللہُ علیٰ کُلِّ شَیْءٍ شَھِیْدٌ۔ و در مقولہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کہ وَكُنْتُ عَلَيْهِمْ شَهِيْدًا مَّا دُمْتُ فِيْهِمْ ۚ فَلَمَّا تَوَفَّيْتَنِيْ كُنْتَ اَنْتَ الرَّقِيْبَ عَلَيْهِمْ ۭواَنْتَ عَلٰي كُلِّ شَيْءٍ شَهِيْدٌ۔ (تفسیر عزیزی ص
641
) یعنی اس آیت میں شہید بمعنی گواہ نہیں بلکہ اس کے معنی نگران اور نگہبان کے ہیں یہ عبارت اس بات کا کھلا ہوا قرینہ ہے کہ پہلی عبارت حضرت شاہ صاحب کی نہیں ہے کیونکہ دوسری عبارت میں انہوں نے لفظ شہید کا جو مفہوم بیان فرما ہے وہ پہلی عبارت کے بالکل منافی ہے۔
274
ووسرا جواب : یہ دوسرا جواب ہے اور پہلے جواب کی تفصیل ہے یعنی تحویل قبلہ کا حکم ہم نے اس لیے دیا ہے تاکہ کھرے کھوٹے اور مخلص و منافق میں امتیاز ہوجائے۔ مکہ معظمہ میں تو آپ کعبہ کی طرف نماز پڑھتے تھے ہجرت کے بعد بیت المقدس قبلہ مقرر کیا گیا۔ اور پھر سولہ سترہ ماہ کے بعد دوبارہ کعبہ ہی کو قبلہ مقرر کیا گیا اس طرح نسخ قبلہ دو دفعہ واقع ہوئی ہے۔ یہاں جَعَلَ بمعنی صَیَۤرَ ہے لہذا اس کے دو مفعول ہونے چاہئیں۔ چناچہ اس کا مفعول اول محذوف ہے۔ یعنی الکعبۃ اور القبلۃ مفعول ثانی ہے۔ اور التی کنت علیھا الکعبۃ کی صفت ہے۔ والمعنی وما جعلنا الکعبۃ التی کانت قبلۃ لک اولا ثم صرفت عنھا الی بیت المقدس قبلتک الان الا لنعلم (بحر ص
423
ج
1
) یعنی کعبہ جو پہلے آپ کا قبلہ تھا اور جس کے بعد بیت المقدس کو آپ کا قبلہ بنایا گیا اب دوبارہ آپ کا قبلہ صرف اس لیے مقرر کیا گیا ہے۔ تاکہ فرمانبردار اور نافرمان میں امتیاز ہوجائے۔
275
لِنَعْلَمَ استقبال کے لیے ہے لہذا اس سے شبہ پڑتا ہے کہ اس سے پہلے اللہ تعالیٰ کو معلوم نہیں تھا کہ کون مانے گا اور کون نہیں مانے گا۔ حالانکہ یہ چیز اہل اسلام کے عقیدہ کے خلاف ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ تو ازل سے ابد تک تمام کلیات وجزئیات کا علم رکھتا ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ یہاں علم سے مراد خارج میں تمییز اور اظہار ہے۔ ارید بہ التمییز فی الخارج (روح ص
6
ج
1
) فوضع العلم موضع التمییز لان بہ یقع التمییز (مدارک ص
63
ج
1
) یعنی ہم نے تحویل قبلہ اس لیے کی ہے تاکہ ہمارے پیغمبر کے فرمانبرداروں اور نافرمانوں میں امتیاز ہوجائے جو لوگ وتحویل قبلہ کے حکم کو بخوشی مان لیں گے وہ فرماں بردار ہوں گے اور جو نہ مانیں گے بلکہ اس کی پھبتی اڑائیں گے وہ نافرمان ہوں گے۔ چناچہ بعض مفسرین نے لکھا ہے کہ اس موقع پر کئی مسلمان مرتد ہوگئے۔ مگر یہ وہی مسلمان تھے جو بظاہر مسلمان کہلاتے تھے لیکن حقیقت میں مسلمان نہیں تھے یعنی منافقین یہ لوگ پہلے تو پوشیدہ طور پر مخالفت کرتے تھے مگر تحویل قبلہ کے موقع پر علانیہ اس کا تمسخر اڑانا شروع کردیا۔ تاکہ مخلص مسلمانوں کے دلوں میں بھی شبہات پیدا ہوجائیں تحویل قبلہ بھی مخلص و منافق اور طیب وخبیث کے درمیان امتیاز کرنے کا ایک ذریعہ ہے۔ وَاِنْ كَانَتْ لَكَبِيْرَةً اِلَّا عَلَي الَّذِيْنَ ھَدَى اللّٰهُ ۔ ہدایت سے مراد ایمان ہے۔ ای خلق الھدی الذی ھو الایمان فی قلوبھم (قرطبی ص
157
ج
2
) یعنی تحویل قبلہ ایک بھاری آزمائش تھی مگر جن کے دلوں میں اللہ تعالیٰ نے ایمان پیدا کردیا تھا ان کے لیے اس کا مقابلہ کرنا آسان تھا۔ کیونکہ وہ نہ مصلحتوں کو دیکھتے ہیں۔ نہ حکمتوں کو۔ ان کی زندگی کا ماحصل تو بس ایمان و تسلیم ہے جہاں حکم ہوا وہیں سر جھکادیا۔
276
ایمان سے مراد نماز ہے جیسا کہ صحیح روایتوں میں حضرت ابن عباس ؓ سے مروی ہے۔ تحویل قبلہ کی بعد بعض مسلمانوں نےحضور ﷺ کی خدمت میں عرض کیا۔ کہ یارسول اللہ جو مسلمان بیت المقدس کی طرف نمازیں پڑھتے ہوئے فوت ہوگئے ہیں ان کی نمازوں کا کیا ہوگا۔ تو اس پر یہ آیت نازل ہوئی کہ اللہ تعالیٰ تمہاری نماز کو ضائع نہیں کرے گا۔ بیت المقدس کی تمہاری پڑھی ہوئی نمازیں سب درست ہیں کیونکہ وہ بھی ہمارے حکم کے مطابق پڑھی گئی تھیں۔ اس طرح یہ سوال مقدر کا جواب ہے اور ممکن ہے ایمان اپنے ہی مفہوم یعنی تصدیق بالقلب اور اقرار باللسان پر باقی ہو۔ تو اس صورت میں اس آیت میں مسلمانوں کے اس شبہ کا ازالہ ہوگا۔ کہ جب اصل قبلہ کعبہ تھا تو بیت المقدس کی طرف منہ کر کے نمازیں پڑھنے اور اسے اپنا قبلہ سمجھنے سے ہمارے ایمان میں تو کوئی خلل واقع نہیں ہوا۔ اِنَّ اللّٰهَ بِالنَّاسِ لَرَءُوْفٌ رَّحِيْمٌ۔ اللہ تعالیٰ ایسا شفیق ومہربان ہے کہ اس کے تمام احکام شفقت و رحمت پر مبنی ہیں چناچہ تحویل قبلہ کا حکم بھی اسی قبیل سے ہے۔ اور وہ کسی کا اخلاص اور ایمان کے ساتھ کیا ہوا عمل کبھی ضائع نہیں کرتا۔
Top