Jawahir-ul-Quran - Al-Baqara : 142
سَیَقُوْلُ السُّفَهَآءُ مِنَ النَّاسِ مَا وَلّٰىهُمْ عَنْ قِبْلَتِهِمُ الَّتِیْ كَانُوْا عَلَیْهَا١ؕ قُلْ لِّلّٰهِ الْمَشْرِقُ وَ الْمَغْرِبُ١ؕ یَهْدِیْ مَنْ یَّشَآءُ اِلٰى صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍ
سَيَقُوْلُ : اب کہیں گے السُّفَهَآءُ : بیوقوف مِنَ : سے النَّاسِ : لوگ مَا : کس وَلَّاهُمْ : انہیں (مسلمانوں کو) پھیر دیا عَنْ : سے قِبْلَتِهِمُ : ان کا قبلہ الَّتِيْ : وہ جس کَانُوْا : وہ تھے عَلَيْهَا : اس پر قُلْ : آپ کہہ دیں لِلّٰہِ : اللہ کے لئے الْمَشْرِقُ : مشرق وَالْمَغْرِبُ : اور مغرب يَهْدِیْ : وہ ہدایت دیتا ہے مَنْ : جس کو يَّشَآءُ : چاہتا ہے إِلٰى : طرف صِرَاطٍ : راستہ مُّسْتَقِيمٍ : سیدھا
اب کہیں گے بیوقوف لوگ269 کہ کس چیز نے پھیر دیا مسلمانوں کو ان کے قبلہ سے جس پر وہ تھے270 تو کہہ اللہ ہی کا ہے مشرق اور مغرب271 چلائے جس کو چاہے سیدھی راہ پر .
269 یقول کو بعض مفسرین نے ماضی کے معنوں میں لیا ہے ان کا خیال ہے کہ یہ آیت تحویل قبلہ کے بعد نازل ہوئی۔ لیکن جمہور مفسرین کی رائے یہ ہے کہ سَیَقُوْل استقبل کے لیے ہے اور یہ آیت تحویل قبلہ سے پہلے نازل ہوئی ہے اللہ نے بیوقوفوں کے اعتراض کی پہلے ہی سے آپ کو اطلاع دے دی تھی۔ سیقول ظاھر فی الاستقبال وانہ اخبار من اللہ تعالیٰ نبیہ ﷺ انہ یصدر منھم ھذ القول فی المستقبل وذلک قبل ان یؤمر وا باستقبال الکعبۃ (بحر ص 419 ج 1) السفہاء سے بعض نے یہود مراد لیے ہیں اور بعض نے مشرکین مکہ اور بعض نے منافقین۔ لیکن لفظ اپنے عموم کے لحاظ سے سب کو شامل ہے اس لیے اسے عموم پر محمول کرنا ہی بہتر ہے۔ کیونکہ یہ سب دشمن تھے تحویل قبلہ کی آڑ میں موقع پا کر سب نے اعتراضات کیے تھے۔ ان یکون الکل قد قال ذلک لان العداء مجہولون علی القدح والطعن فاذا وجدوامجالا۔ لم یترکوا مقللا (کبیر ص 4 ج 1)270 یہ سُفَہَاء کا مقولہ ہے اور ما استفہامیہ ہے اور استفہام طنز اور استہزا کے لیے ہے۔ مَا وَلّٰىهُمْ عَنْ قِبْلَتِهِمُ ۔ استہزء وا بالمسلمین (قرطبی ص 148 ج 2) قبلتھم سے مراد بیت المقدس ہے جو پہلے مسلمانوں کا قبلہ تھا۔ یعنی کم عقل اور احمق لوگ اعتراض کیں گے۔ اور بطور طنز کہیں گے کہ ان مسلمانوں کو اپنے پہلے قبلہ سے کس چیز نے ہٹا دیا ہے ؟ یعنی ایک طرف تو یہ شخص پہلے انبیاء کے اتباع کا دعویٰ کرتا ہے۔ دوسری طرف انبیاء کا قبلہ چھوڑ رہا ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ حیران و سرگرداں ہے اور اس پر حق مشتبہ ہوگیا ہے ان کے اس اعتراض کے اللہ تعالیٰ نے چار جواب دئیے ہیں دو اجمالی اور دو تفصیلی۔ اس اعتراض کے جوابات کا سلسلہ انیسویں رکوع میں وَاُولئکَ ھُمُ الْمُھْتَدُوْنَ تک چلا گیا ہے۔ 271 پہلا اجمالی جواب۔ یعنی تمام سمتیں اللہ تعالیٰ کی ہیں۔ اور کسی سمت میں کوئی تقدس نہیں رکھا ہوا۔ وہ جس طرف چاہے منہ کرنے کا حکم دے دے۔ اور ہم تو حکم کے بندے ہیں پہلے بیت المقدس کی طرف منہ کرنے کا حکم دیا تو ادھر منہ کر کے نمازیں پڑھتے رہے اب کعبہ کی طرف منہ کرنے کا حکم ملا ہے تو اس حکم کی تعمیل کریں گے کیونکہ اس کے احکام کی تعمیل ہی اصل ہدایت ہے۔ يَهْدِيْ مَنْ يَّشَاۗءُ اِلٰى صِرَاطٍ مُّسْتَقِيْمٍ ۔ وہ جسے چاہتا ہے سیدھی راہ پر چلنے کی توفیق دیتا ہے۔ اور اس کا ہر حکم سیدھی راہ ہے۔
Top