Tafseer-e-Jalalain - An-Nisaa : 106
وَّ اسْتَغْفِرِ اللّٰهَ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ كَانَ غَفُوْرًا رَّحِیْمًاۚ
وَّاسْتَغْفِرِ : اور بخشش مانگیں اللّٰهَ : اللہ اِنَّ : بیشک اللّٰهَ : اللہ كَانَ : ہے غَفُوْرًا : بخشنے والا رَّحِيْمًا : مہربان
اور خدا سے بخشش مانگنا بیشک خدا بخشنے والا مہربان ہے
وَاسْتغفِرِ اللہ ان اللہ کان غفورارحیما، یعنی اس بات پر کہ بغیر تحقیق کے آپ نے جو خیانت کرنے والوں کی حمایت کی ہے اس پر اللہ سے مغفرت طلب کریں، اس کا ایک مطلب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ جو مومنین اس منافق کے ساتھ اس کی حمایت کرنے کی وجہ سے خیانت یعنی معصیت میں مبتیلا ہوگئے آپ ان کے لئے مغفرت طلب کریں مذکورہ واقعہ سے یہ بھی معلوم ہوا کہ فریقین میں سے جب تک کسی پر پورا یقین نہ ہو کہ وہ حق پر ہے اس کی حمایت اور وکالت کرنا جائز نہیں۔ اگر کوئی فریق دھوکے اور فریب اور چرب زبانی سے عدالت یا حاکم سے اپنے حق میں فیصلہ کرالے تو ایسے فیصلے کی عند اللہ کوئی حیثیت نہیں، اس بات کو نبی ﷺ نے ایک حدیث میں اسطرح بیان فرمایا ہے، خبردار میں ایک انسان ہی ہوں اور جس طرح میں سنتا ہوں اسی کی روشنی میں فیصلہ کرتا ہوں ممکن ہے کہ ایک شخص اپنی دلیل اور حجت پیش کرنے میں تیز طرار ہو اور ہوشیار ہو اور اس طرح میں ایک مسلمان کا حق دوسرے کو دیدوں، اسے یاد رکھنا چاہیے کہ یہ آگ کا ٹکڑا ہے یہ اس کی مرضی ہے کہ اسے لے لے یا چھوڑ دے۔ (صحیح بخاری) روداد کے مطابق فیصلہ کرنا گناہ نہیں : اگرچہ قاضی کی حیثیت سے نبی ﷺ کا روادا کے مطابق فیصلہ کردینا بجائے خود آپ کے لئے کوئی گناہ نہ ہوتا، اور ایسی صورتیں قاضیوں کو پیش آتی رہتی ہیں کہ ان کے سامنے غلط روداد پیش کرکے حقیقت کے خلاف فیصلے حاصل کرلئے جاتے ہیں، لیکن ایسے وقت جبکہ اسلام اور کفر کے درمیان ایک زبردست کشمکش برپا تھی، اگر نبی ﷺ روداد مقدمہ کے مطابق فیصلہ صادر فرما دتے تو اسلام کے مخالفوں کو آپ کے خلاف بلکہ پوری اسلامی جماعت اور خود وحدت اسلامی کے خلاف ایک زبردست اخلاقی حربہ مل جاتا وہ یہ کہتے پھرتے کہ اجی یہاں حق و انصاف کا کیا سوال ہے ؟ یہاں تو وہی جتھ بندی اور عصبیت کام کررہی ہے جس کے خلاف تبلغ کی جاتی ہے، اسی خطرے سے بچانے کیلئے اللہ تعالیٰ نے خاص طور پر مقدمے میں مداخلت فرمائی۔ آپ ﷺ کو اجتہاد کا حق حاصل تھا : اِناانزلنا الیک الکتاب بالحق الخ، اس آیت سے پانچ باتیں ثابت ہوئیں، (1) ایک یہ کہ آنحضرت ﷺ کو ایسے مسائل میں جن میں قرآن کریم کی کوئی صریح نص نہ ہو اپنی رائے سے اجتہاد کا حق حاصل تھا اور آپ نے مہمات میں بسا اوقات فیصلے اپنے اجتہاد سے فرمائے بھی ہیں، (2) دوسری بات یہ معلوم ہوئی کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک اجتہاد وہی معتبر ہے جو قرآنی اصول اور نصوص سے ماخوذ ہو خالص اپنی رائے اور خیال معتبر نہیں (3) تیسری بات یہ معلوم ہوئی کہ آپ کا اجتہاد دوسرے ائمہ مجتہدین کے اجتہاد سے مختلف تھا اسلئے کہ ائمہ مجتہدین کے اجتہاد میں غلطی کا احتمال ہمیشہ باقی رہتا ہے بخلاف آپ ﷺ کے اجتہاد کے کہ اگر آپ سے کبھی اجتہادی خطا ہوجاتی تو حق تعالیٰ اس پر آپ کو متنبہ فرمادیتے اور حق کے مطابق کرادیتے، اور اگر آپ نے اجتہاد سے کوئی فیصلہ فرمایا اور حق تعالیٰ کی طرف سے اس میں تنبیہ وغیرہ نہیں آئی تو یہ اس بات کی علامت تھی کہ آپ کا فیصلہ صحیح ہے، (4) چوتھی بات یہ معلوم ہوئی کہ نبی ﷺ جو کچھ قرآن سے سمجھتے تھے وہ اللہ ہی کا سمجھا یا ہوا تھا اس میں غلطی کا امکان نہ ہوتا تھا بخلاف دیگر علماء مجتہدین کے، یہ بات لفظ بِمَا اَرَاکَ اللہ سے سمجھ میں آتی ہے، اسی وجہ سے جب ایک شخص نے فاروق اعظم ؓ ، سے کہا فاحکم بما اراک اللہ تو آپ نے اس کو ڈانٹا کہ یہ خصوصیت آپ ﷺ کی ہے، (5) پانچویں بات یہ معلوم ہوئی کہ کسی جھوٹے مقدمہ کی دانستہ پیروی کرنا یا اس کی تائید و حمایت کرنا سب حرام ہے۔ (معارف ملحصّا)
Top