Tafseer-e-Jalalain - Al-Baqara : 278
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰهَ وَ ذَرُوْا مَا بَقِیَ مِنَ الرِّبٰۤوا اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ
يٰٓاَيُّهَا : اے الَّذِيْنَ اٰمَنُوا : جو ایمان لائے (ایمان والے) اتَّقُوا : تم ڈرو اللّٰهَ : اللہ وَذَرُوْا : اور چھوڑ دو مَا : جو بَقِيَ : جو باقی رہ گیا ہے مِنَ : سے الرِّبٰٓوا : سود اِنْ : اگر كُنْتُمْ : تم ہو مُّؤْمِنِيْنَ : ایمان والے
مومنو ! خدا سے ڈرو اور اگر ایمان رکھتے ہو تو جتنا سود باقی رہ گیا ہے اس کو چھوڑ دو
یٰآیُّھَا الَّذیْنَ آمَنُوْا اتَّقُوْا اللہَ وَذَرُوْا مَا بَقِیَ مِنَ الرِّبٰوآ اِنْ کُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ ، زمانہ جاہلیت میں قرض کی ادائیگی نہ ہونے کی صورت میں سود در سود کی وجہ سے اصل رقم میں اضافہ ہی ہوتا چلا جاتا تھا جس سے وہ تھوڑی سی رقم ایک پہاڑ بن جاتی اور اس کی ادائیگی ناممکن ہوجاتی، اس کے برعکس اللہ تعالیٰ نے حکم دیا کہ کوئی تنگ دست ہو تو (سود لینا تو درکنار اصل مال لینے میں بھی) آسانی تک مہلت دو ، اور اگر قرض بالکل ہی معاف کرو تو زیادہ بہتر ہے احادیث میں بھی اس کی بڑی فضیلت بیان کی گئی ہے، کتنا فرق ہے ان دونوں نظاموں میں ؟ ایک سراسر ظلم، تنگدلی اور خود غرضی پر مبنی نظام اور دوسرا ہمدردی تعاون اور ایک دوسرے کو سہارا دینے والا نظام ہے اگر مسلمان خود ہی اس بابرکت نظام الہیٰ کو نہ اپنائیں تو اس میں اسلام کا کیا قصور اور اللہ پر کیا الزام ؟ کاش مسلمان اپنے دین کی افادیت اور اہمیت کو سمجھ لیں اور اس پر اپنے نظام زندگی کو استوا کرسکیں۔
Top