Tafseer-e-Jalalain - Al-Baqara : 256
لَاۤ اِكْرَاهَ فِی الدِّیْنِ١ۙ۫ قَدْ تَّبَیَّنَ الرُّشْدُ مِنَ الْغَیِّ١ۚ فَمَنْ یَّكْفُرْ بِالطَّاغُوْتِ وَ یُؤْمِنْۢ بِاللّٰهِ فَقَدِ اسْتَمْسَكَ بِالْعُرْوَةِ الْوُثْقٰى١ۗ لَا انْفِصَامَ لَهَا١ؕ وَ اللّٰهُ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌ
لَآ اِكْرَاهَ : نہیں زبردستی فِي : میں الدِّيْنِ : دین قَدْ تَّبَيَّنَ : بیشک جدا ہوگئی الرُّشْدُ : ہدایت مِنَ : سے الْغَيِّ : گمراہی فَمَنْ : پس جو يَّكْفُرْ : نہ مانے بِالطَّاغُوْتِ : گمراہ کرنے والے کو وَيُؤْمِنْ : اور ایمان لائے بِاللّٰهِ : اللہ پر فَقَدِ : پس تحقیق اسْتَمْسَكَ : اس نے تھام لیا بِالْعُرْوَةِ : حلقہ کو الْوُثْقٰى : مضبوطی لَا انْفِصَامَ : لوٹنا نہیں لَهَا : اس کو وَاللّٰهُ : اور اللہ سَمِيْعٌ : سننے والا عَلِيْمٌ : جاننے والا
دین (اسلام) میں زبردستی نہیں ہے ہدایت (صاف) طور پر ظاہر اور گمراہی سے الگ ہوچکی ہے تو جو شخص بتوں سے اعتقاد نہ رکھے اور خدا پر ایمان لائے اس نے ایسی مضبوط رسی ہاتھ میں پکڑ لی ہے جو کچھ ٹوٹنے والی نہیں اور خدا (سب کچھ) سنتا اور جانتا ہے
لَآاِکْرَاہَ فِی الدِّیْنِ ، حصین انصاری نامی ایک شخص کے دو لڑکے یہودی یا نصرانی ہوگئے تھے، پھر جب انصار مسلمان ہوگئے تو انہوں نے اپنی نوجوان اولاد کو بھی جو یہودی یا نصرانی ہوگئے تھے زبردستی مسلمان بنانا چاہا جس پر یہ آیت نازل ہوئی، شان نزول کے اعتبار سے مفسرین نے اسے اہل کتاب کے لیے خاص مانا ہے یعنی اسلامی مملکت میں رہنے والے اہل کتاب اگر وہ جزیہ ادا کرتے ہوں تو انہیں قبول اسلام کے لیے مجبور نہیں کیا جائے گا لیکن یہ آیت حکم کے اعتبار سے عام ہے یعنی کسی پر بھی قبول اسلام کے لیے جبر نہیں کیا جائے گا۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ہدایت اور گمراہی دونوں کو واضح کردیا ہے کہ ہر شخص اپنی مرضی سے چاہے اپنے کفر پر قائم رہے اور چاہے اسلام میں داخل ہوجائے، تاہم کفر و شرک کے خاتمے اور باطل کا زور توڑنے کے لیے جہاد ایک الگ اور جبرواکراہ سے مختلف چیز ہے، مقصد معاشرے سے اس قوت و طاقت کا زور توڑنا ہے جو اللہ کے دین پر عمل اور اس کی تبلیغ کی راہ میں روڑا بنا ہوا ہوتا ہے چونکہ روڑا بننے والی طاقتیں رہ رہ کر ابھرتی رہیں گے اس لیے جہاد کا حکم اور اس کی ضرورت بھی قیامت تک رہے گی جیسا کہ حدیث میں ہے، ” الجھاد ماضٍ الی یوم القیامۃ “ ، جہاد قیامت تک جاری رہے گا اسی طرح سزائے ارتداد سے بھی اس آیت کا کوئی ٹکراؤ نہیں ہے، کیونکہ ارتداد کی سزائے قتل سے مقصود جبرواکراہ نہیں ہے بلکہ اسلامی ریاست کی نظریاتی حیثیت کا تحفظ ہے، ایک اسلامی ملک میں ایک کافر کو اپنے کفر پر قائم رہنے کی اجازت تو ہوسکتی ہے لیکن ایک بار جب وہ اسلام میں داخل ہوجائے تو اس کو اس سے بغاوت اور انحراف کی اجازت نہیں دی جاسکتی لہٰذا وہ خوب سوچ سمجھ کر اسلام لائے کیونکہ اگر ارتداد کی اجازت دیدی جاتی تو نظر یاتی اساس منہدم ہوسکتی تھی جس س سے نظریاتی انتشار اور فکری انار کی پھیلتی ہے جو اسلامی معاشرہ کے امن کو اور ملک کے استحکام کو خطرے میں ڈال سکتی تھی اس لیے جس طرح انسانی حقوق کے نام پر قتل، چوری، زنا، ڈاکہ وغیرہ جرائم کی اجازت نہیں دی جاسکتی اسی طرح آزادی رائے کے نام پر ایک اسلامی مملکت میں نظریاتی بغاوت (ارتداد) کی اجازت بھی نہیں دی جاسکتی یہ جبر واکراہ نہیں ہے بلکہ مرتد کا قتل اسی طرح عین انصاف ہے جس طرح قتل و غارت گری اور اخلاقی جرائم کا ارتکاب کرنے والوں کو سخت سزائیں دینا عین انصاف ہے ایک کا مقصد ملک کا نظریاتی تحفظ ہے اور دوسرے کا مقصد ملک کو شروفساد سے بچانا ہے اور دونوں ہی مقصد ایک مملکت کے لیے ناگزیر ہیں، آج اکثر اسلامی ممالک ان دونوں مقاصد کو نظر انداز کرکے جن الجھنوں، دشواریوں اور پریشانیوں سے دوچار ہیں محتاج و ضاحت نہیں۔ وَمَنْ یَّکْفُرْ بِالطَّاغُوْتِ : ” طاغوت “ لغت کے اعتبار سے ہر اس شخص کو کہا جائے گا جو اپنی جائز حد سے تجاوز کر گیا ہو، قرآن کی اصطلاح میں طاغوت سے مراد وہ بندہ ہے جو بندگی کی حد سے تجاوز کرکے خود آقائی اور خداوندی کا دم بھرنے لگے اور خدا کے بندوں سے اپنی بندگی کرائے، خدا کے مقابلہ میں ایک بندے کی سرکشی کے تین مرتبے ہیں، پہلا مرتبہ یہ ہے کہ بندہ اصولاً خدا کی فرماں برداری ہی کو حق جانے مگر عملاً اس کے احکام کی خلاف ورزی کرے اس کا نام فسق ہے۔ دوسرا مرتبہ یہ ہے کہ وہ اس کی فرمانبرداری سے اصولاً منحرف ہو کر خود مختار ہوجائے، یا اس کے سوا کسی اور کی بندگی کرنے لگے یہ کفر ہے، تیسرا مرتبہ یہ ہے کہ وہ مالک سے باغی ہو کر اس کے ملک میں اور اس کی رعیت میں خود اپنا حکم چلانے لگے، اس آخری مرتبہ پر جو بندہ پہنچ جائے اسی کا نام ” طاغوت “ ہے۔
Top