Tafseer-e-Haqqani - Al-An'aam : 75
وَ كَذٰلِكَ نُرِیْۤ اِبْرٰهِیْمَ مَلَكُوْتَ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ وَ لِیَكُوْنَ مِنَ الْمُوْقِنِیْنَ
وَكَذٰلِكَ : اور اسی طرح نُرِيْٓ : ہم دکھانے لگے اِبْرٰهِيْمَ : ابراہیم مَلَكُوْتَ : بادشاہی السَّمٰوٰتِ : آسمانوں (جمع) وَالْاَرْضِ : اور زمین وَلِيَكُوْنَ : اور تاکہ ہوجائے وہ مِنَ : سے الْمُوْقِنِيْنَ : یقین کرنے والے
اور ہم اسی طرح سے ابراہیم کو آسمانوں اور زمین کی بادشاہت دکھانے لگے تاکہ (وہ سمجھے) اور ان کو یقین کامل ہوجاوے۔
ابتداء زمانہ سے ہی جب کہ لوگوں نے ظاہری آنکھوں سے دیکھا تو اعلیٰ حسب مراتب الفہم خیالی گھوڑے دوڑانے لگے۔ یہ تو اکثر نے مانا کہ اللہ تعالیٰ صانع عالم ہے مگر اس کے ساتھ بعض جاہلوں نے ایک اور خالق مستقل مانا جو شر کا فاعل ہے اور بعض 2 ؎ لوگوں نے آگ کو 1 ؎ یعنی تمہارے دیوی دیوتا میرا کچھ نہیں کرسکتے تم ڈرا کرو ٗ میں نہیں ڈرتا۔ اگر خدا ہی چاہے تو ضرر پہنچے۔ 12 منہ 2 ؎ کسی نے ملائکہ اور علویات کی خیالی صورت پر بت تراشے پھر کسی نے بنی آدم میں سے انبیاء و صلحاء و ابرار یا شاہان ملک کو شریک خدائی سمجھا اور ان کی کوئی صورت فرض کرکے بت بنائے لات ہبل کرشن رام سب اسی کا نمونہ ہے غرض جس نے جس چیز کو اپنے خیال میں بشریت سے بالا پایا خدا بنالیا۔ 12 منہ بعض نے پانی کو اصل ٹھہرایا اور ایک قوم نے خصوصاً اہل بابل و نینوا کے لوگوں نے جو دنیاوی علوم اور صنعتوں میں بڑے ہوشیار تھے ٗ افلاک اور ستاروں کو مدبر عالم خیال کر رکھا تھا۔ پھر ان کے نام کے سونے اور چاندی اور دیگر دھاتوں اور پتھروں کے بت اور عجائب غرائب اشکال مندروں میں رکھ چھوڑی تھیں جن کو وہ پوجتے تھے اور ان پر بعض اپنی اولاد کی قربانی کرتے تھے۔ بعض اور جانوروں کی قربانی کرتے اور دیگر نذر و نیاز چڑھاتے تھے۔ اس ملک اور اس قوم میں خدا نے ابراہیم (علیہ السلام) کو پیدا کیا۔ اس وقت کے بادشاہ نمرود کو جو ضحاک تازی کا صوبہ تھا ٗ نجومیوں نے حضرت کی خبر پہلے سے دی تھی۔ وہ اس خاندان کی حاملہ عورتوں کی احتیاط رکھتا تھا۔ لڑکوں کو قتل کر ڈالتا تھا۔ اس لئے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو ان کے والدین نے کسی غار یا تہ خانہ میں چھپا رکھا تھا جو سن تمیز تک وہیں رہے۔ خداداد روشنی کب چھپائے چھپتی ہے۔ غار میں ہی ماں باپ سے قیل و قال شروع کردی۔ اذ قال سے لے کر فی ضلال مبین تک اس کا ذکر ہے۔ پھر جب زیادہ شہرہ ہوتا چلا اور آپ اس غار سے لوگوں کے روبرو لائے گئے تو آفتاب غروب ہو چلا تھا مگر جس طرح خدا نے ان کی نظروں میں ماں باپ کی وہ بت پرستی حقیر و بےعزت کر دکھائی تھی اسی طرح ملکوت السموات یعنی آسمانوں اور زمینوں کو اور ان کے اندر جو کچھ اسرار حکمت تھے ان کے دل پر منکشف کردیے تھے۔ وکذالک نری ابراھیم ملکوت السموات الخ رات جب زیادہ گئی تو زبیر ستارہ چمکتا دیکھ کر وہ جو آپ کے ارد گرد بہت سے بت پرست حجتیں کرنے کو جمع تھے ان سے تعریضاً یہ کہا ھذا ربی کہ تمہارے خیال کے بموجب میرا یہ رب ہے ؟ (کس لئے کہ ان پر ملکوت السموات منکشف ہوگئے تھے اور بدء الخلقت سے رشد عطا ہوا تھا وہ حقیقۃً ستارہ کو رب کیونکر کہتے) پھر جب وہ غروب ہوا تو الزام دیا کہ ایسی چھپ جانے والی چیزوں کو میں پسند بھی نہیں کرتا۔ پھر جب چاند نکلا تو کہا یہ رب ہے جب وہ بھی چھپ گیا تو ان کے خیال قبول کرنے کی صورت میں تہذیباً اپنے آپ کو ہی گمراہ ہونا فرمایا (اس لئے کہ باوجود بڑے کے چھوٹے کو خدا بنانا اور بڑے کا بھی ڈوب جانا منافی الوہیت ہے) پھر جب صبح ہوئی اور آفتاب جگمگاتا ہوا نکلا تو کہا یہ سب سے بڑا ہے یہ رب ہے پھر جب شام کو وہ بھی غروب ہوگیا تو ان کے الہ اکبر کا بےبنیاد اور مجبور ہونا مشاہدہ کرا کے صاف صاف کہہ دیا کہ میں تو اس کی طرف متوجہ ہوتا ہوں کہ جس نے آسمان و زمین اور ان سب کو بنایا اور شرک سے بیزار ہوں۔ پھر تو لوگوں کے غول کے غول آئے اور اپنے بتوں سے ڈرانے لگے۔ آپ نے فرمایا ٗمجھے ان سے کچھ مضرت نہیں بلکہ میرے خدائے قادر سے تم کو ڈرنا چاہیے۔
Top