Tafseer-e-Haqqani - Al-Waaqia : 57
نَحْنُ خَلَقْنٰكُمْ فَلَوْ لَا تُصَدِّقُوْنَ
نَحْنُ : ہم نے خَلَقْنٰكُمْ : پیدا کیا ہم نے تم کو فَلَوْلَا : پس کیوں نہیں تُصَدِّقُوْنَ : تم تصدیق کرتے ہو۔ تم یقین کرتے۔ سچ مانتے
ہم نے تم کو پیدا کیا ہے پھر تم کیوں سچ نہیں جانتے (کہ وہ پھر بھی کرسکتا ہے)
ترکیب : نحن مبتداء خلقنا کم خبرہ افرائیتیم الھمزۃ للاستفہام والفاء للتفریع اوالعطف ما موصولۃ تمنون قراء الجمہور بضم الفوقیۃ من امنی یمعنی وقریٔ بفتحہا من منی یمعنی وھما بمعنی واحد قیل بینھما فرق امنی اذا انزل عن الجماع ومنی اذا انزل من احتلام والمعنی ماتصبومہ فی ارحام النساء والجملۃ صلۃ۔ والموصول مع صلۃ مفعول ارء یتم بمسبو قین ای لایسبقنا احد فیھرب من الموت اوالعذاب اولایغلبنا احد من سبقتہ علی کذا اذا غلبۃ علیہ علی الاول حال من فاعل قدرنا الموت کائنین علٰی ان نبدل امثالکم او علۃ تقدرنا وعلی بمعنی اللام و مانحن بمسبوقین اعتراض وعلی الثانی صلۃ ظلتم بفتح الظاء مع لام واحدۃ قریٔ بکسرھا معھا وقریٔ ظللتم بلامین اولاھما مکسورۃ علی الاصل تفکہوں تندمون علی ما اصبتم بذلک من المعاصی فتحدثون فیہ والتف کہ التنقل بصنوف الفاکھۃ وقداستعیر للتنقل بالحدیث المزن جمع مزنۃ وھی السحابۃ البیضاء والمطر۔ اجاجا الاجاج الماء الشدید الملوحۃ الذی لایمکن شربہ وقیل الماء المزمن الاجیج وھوتلھب النار فانہ یحرق الفم ولو لیست خالصۃ للشرط بخلاف ان وانما جاء فیھا معنی الشرط اتفاقا من حیث انہاتدخل علی الجملتین امتنع الثانیۃ لامتناع الاولیٰ فلابدفی جو ابھا من اللام لتکون علما علیٰ ذالک وفی ھذہ الایۃ حذفت حیث قال جعلنا ولم یقل لجعلنا لعلم السامع بھا حیث ذکرت اولا۔ المقوین الذین ینزلوں القواء ای البوادی والصحراء ای المسافرین یقال ارض قواء بالمدوالقصر ای مغفرۃ وقال قطرب القوی من الاضداد بمعنی الفقردالغنی۔ تفسیر : تینوں گروہوں کا حال بیان کر کے دلائلِ حشر بیان کرتا ہے جو خاص انسان کی پیدائش اور اس کے حالات اور کارآمد چیزوں سے پیدا ہوتے ہیں۔ اول دلیل : انسان کا یپدا کرنا ہے اس بات کو پہلے تو اجمالی طور پر بیان فرماتا ہے فقال نحن خلقناکم کہ ہم نے تم کو پیدا کیا ہے فلولاتصدقون پھر تم کس لیے اس بات کو سچ نہیں جانتے کہ وہ باردگر بھی پیدا کرسکتا ہے پھر اس پیدا کرنے کی کیفیت مشاہدہ کراتا ہے افرائیتم ماتمنون کہ کیا تم نے منی کو رحم میں ڈالتے نہیں دیکھا۔ کیوں نہیں بلکہ بسا اوقات مشاہدہ ہوتا ہے پھر وہ منی ایک قطرہ پانی کا ہے جو غذائوں کا نچوڑ ہے۔ انتم تخلقونہ ام نحن الخالقون پھر اس منی کو تم انسان بناتے ہو یا ہم ؟ نہیں اللہ ہی اس قطرہ منی سے انسان بناتا ہے ورنہ انسان کو تو منی ڈالنے کے بعد کچھ بھی خبر نہیں رہتی کہ رحم میں قرار پانے کے بعد متحد الحقیقت چیز سے مختلف الطبائع چیزیں کس نے پیدا کیں کسی جز کو قلب کسی کو دماغ کسی کو جگر پھر کسی کو ہڈی کسی کو کچھ۔ یہ کاریگری کسی فاعل مختار کا کام ہے جس کے قبضے میں طبیعت کل کی طرح کام کرتی ہے اور منی کی بھی ضمیر پھر سکتی ہے کہ منی کو بھی تم نہیں بلکہ ہم ہی پیدا کرتے ہیں۔ پھر جس طرح ابتداء ہماری طرف سے ہے انتہا بھی ہمارے حکم سے ہے۔ فقال نحن قدرنا بینکم الموت کہ ہم نے تمہارے درمیان موت کا وقت مقرر کردیا ہے۔ مختلف اوقات اور مختلف حالات میں لوگ مرتے ہیں پھر جس کی ابتداء و انتہا ہمارے بس میں ہے کیا باردگر پیدا کرنا ہمارے بس میں نہیں ؟ ہم قادر ہیں کہ تمہارے جیسے اور لوگ پیدا کردیں یا تمہاری حالت بدل دیں کہ مار کر ریزہ ریزہ کردیں اور پھر جلادیں۔ اول صورت میں امثال مثل بالکسر کی جمع ہے اور دوسری میں مثل بالفتح کی جس کے معنی ہیں صفت وحالت وننشئکم فیما لاتعلمون اور تم کو اس ہیئت و حالت میں پیدا کرسکتے ہیں کہ جن کو تم جانتے بھی نہیں یعنی انسان بنا کر تمہیں اور دوسری چیز بھی بنا سکتے ہیں۔ ابتداء و انتہا و درمیانی حالت بھی سب ہماری قدرت کے احاطے میں ہے۔ اس لیے دلیل کو اجمالی طور پر اعادہ کرتا ہے فقال ولقد علمتم النشاۃ الاولٰی فلولاتذکرون کہ تم اول بار کا پیدا ہونا جان چکے ہو پھر کس لیے اس کو یاد نہیں کرتے اور کس لیے نہیں سمجھتے کہ وہ باردگر بھی پیدا کرسکتا ہے۔ دوسری دلیل : افئریتم ماتحرثون الخ بھلا رحم کے اندر پیدا کرنے کی کیفیت تو تھی ہی اب تم اپنی کھیتی کرنے کو دیکھو کہ تم زمین میں تخم ڈالتے ہو جو ہمارا پیدا کیا ہوا ہے پھر دیکھو زمین کے اندر تمہارا کوئی فعل موثر نہیں ہمیں اس کو اگاتے اور پیڑ بنا کر باہر لاتے ہیں اور اس پر بھی ہم ہر طرح سے قادر ہیں۔ چاہیں تو سکھا کر گھانس اور چورا کردیں جس پر تم افسوس و حسرت کرنے لگو معلوم ہوا کہ نہ اس کے پیدا کرنے میں تمہارا اختیار تھا نہ باقی رکھنے میں پھر جو زمین میں ایک دانے سے ویسا ہی پیڑ پیدا کرتا ہے کہ جس کا وہ دانہ تھا کیا انسان کے کسی جزو جسم سے پھر اس کو اسی طرح زمین سے نہیں اگا سکتا ؟ ضرور اگا سکتا ہے اور اگائے گا یہ بات اے بنی آدم ! تم ہر وقت مشاہدہ کرتے ہو۔ تیسری دلیل : افرئیتم الماء الذی تشربون الخ بارش کے پانی کو دیکھو کہ جس کو تم پیتے ہو بھلا اس کو بادل سے کس نے برسایا ہے ہم نے یا تم نے۔ ہمیں نے بادل اٹھائے اور ہمیں ان میں سے شیریں پانی برساتے ہیں اور چاہیں تو اس پانی کو کھاری کردیں پھر تم کس لیے شکر نہیں کرتے اور پوری شکرگزاری یہ ہے کہ اس کی قدرت کاملہ پر ایمان لائے کہ وہ قادر مطلق انسان کو باردگر بھی زندہ کرسکتا ہے۔ چوتھی دلیل : افریتم النار التی تورون الخ تم اس آگ کو دیکھو کہ جس کو سبز درختوں میں سے لے کر سفر میں جنگلوں میں سلگایا کرتے ہو پھر وہ درخت کس نے پیدا کیا تم نے یا ہم نے ؟ ہم نے اس آگ کو اپنی قدرت یاد دلانے والا یا جنگل میں بھولوں کو رستہ یاد دلانے والا کردیا کہ آگ کی روشنی دیکھ کر رات میں بیابانوں کے مسافر وہاں پہنچ جاتے ہیں اور مسافروں کے برتنے کی چیز بنا دیا۔ اب سبز درخت دیکھو اور اس میں سے آگ کا نکلنا دیکھو خالق کی کیسی قدرت کاملہ کا نمونہ ہے۔ 1 ؎ عرب میں ایک قسم کا درخت ہے جب اس کی شاخوں کو باہر رگڑا جاتا ہے یا ازخود ہوا سے رگڑ کھاتی ہیں تو آگ نکل آتی ہے۔ عرب جنگلوں میں جہاں آگ نہیں ملتی اس آگ سے کام لیتے ہیں۔ ہندوستان کے کوہ ہمالیہ میں بانسوں میں بھی باہم رگڑ کھانے سے آگ پیدا ہوتی ہے۔ دلائل کو تمام کر کے خدا کی طرف رجوع کرنے اور اس کے پاک نام کی تسبیح و تقدیس کرنے کا حکم دیتا ہے فقال فسبح باسم ربک العظیم۔ 1 ؎ اول دلیل کو منی ڈال کر انسان کے پیدا ہونے سے ذکر کیا کہ وہ بھی ایک طرح کی کھیتی ہے پانی کے قطرہ کو تخم بنا کر عورت کے رحم میں اگاتا ہے جو اس کا کھیت ہے۔ دوسری دلیل کو ایک اور زیادہ محسوس کھیتی سے شروع کیا اور دونوں میں نہایت مناسبت ہے مگر اول سے انسان اور دوسری سے نباتات پیدا ہوتے ہیں اس لیے اول کو مقدم کیا۔ شرف انسانی کی وجہ سے مگر پانی ڈالنے سے دونوں کی پیدائش تھی اس مناسبت سے تیسری دلیل میں پانی کا ذکر کیا جو اوپر سے زمین میں قضاء وقدر ڈالتی ہے جس میں انسانی صفت کو کچھ بھی دخل نہیں لیکن دونوں کھیتوں میں گو پانی سے پیدائش ہوتی ہے مگر ان پودوں کا نشوونما بغیر حرارت کے نہیں ہوتا اس لیے چوتھی دلیل میں ایک ایسی حرارت اور آگ کا ذکر کیا جو انہیں نباتی چیزوں میں سے برآمد ہوتی ہے جس کو قضاء وقدر نے ودیعت رکھا تھا اس کو بھی ظاہر کر کے دکھا دیا اور اس کو اپنی قدرت کاملہ کا یادگار اور انسان کے لیے کارآمد بنا دیا۔ سفروغربت کی حالت میں اور اس میں اس طرف بھی اشارہ ہے کہ یہ حرارت جس سے یہ کاروبار چلتے ہیں خشک پیڑوں میں سے ظاہر نہیں ہوتی یعنی زندہ دل انسانوں میں بھی یہ حرارت رکھی ہوتی ہے مسافرین راہ عرفاں و ترقی تمدن کے لیے چراغ ہدایت و کارآمد ہے۔ اسی حرارت نے جو عرب کے سرسبز پودوں میں ودیعت تھی ان کو دینی و دنیاوی مقاصد کے اعلیٰ درجوں پر پہنچایا اور ان کے کاروانوں کے لیے جو ترقی کی راہ طے کرنے کے لیے سفر کرتے تھے رہبر ہوگئی۔ سبحان اللہ دلائل میں کیا ہی ارتباط ہے اور پھر الفاظ میں کیا ہی رموز و اسرار ہیں ان دلائل میں غور کرنے کے بعد زندہ دل انسان فوراً یقین کرسکتا ہے کہ وہ قادر مطلق باردگر بھی انسان کو دوسرے طور سے پیدا کر کے حشر کے روز عدالت میں کھڑا کرسکتا ہے۔ 12 ابو محمد عبدالحق۔
Top