Tafseer-e-Haqqani - Al-Hijr : 19
وَ الْاَرْضَ مَدَدْنٰهَا وَ اَلْقَیْنَا فِیْهَا رَوَاسِیَ وَ اَنْۢبَتْنَا فِیْهَا مِنْ كُلِّ شَیْءٍ مَّوْزُوْنٍ
وَالْاَرْضَ : اور زمین مَدَدْنٰهَا : ہم نے اس کو پھیلا دیا وَاَلْقَيْنَا : اور ہم نے رکھے فِيْهَا : اس میں (پر) رَوَاسِيَ : پہاڑ وَاَنْۢبَتْنَا : اور ہم نے اگائی فِيْهَا : اس میں مِنْ : سے كُلِّ شَيْءٍ : ہر شئے مَّوْزُوْنٍ : موزوں
اور ہم نے زمین کو پھیلایا اور اس پر لنگر ڈال دیے اور اس میں ہر چیز اندازے سے اگائی
عالم سفلی کے حالات سے دوسری دلیل : والارض مددنھا یہ عالم سفلی کے حالات سے دوسری دلیل ہے۔ اول زمین کو پھیلانا باوجود کروی ہونے کے اس کی ایسا سطح رکھنا کہ جس پر مخلوق بس سکے ‘ اسی کی کاری گری ہے۔ دوم القینا فیھا رواسی مفردر اسی اور اس کی جمع راسیات اس کی جمع یعنی جمع الجمع رواسی ہے۔ رواسی ٹھہرنے اور جمنے والی چیزیں جس سے مراد پہاڑ ہیں۔ یہ مضمون بہت جگہ قرآن میں ہے منجملہ ان کے وفی الارض رواسی ان تمیدلکم اور ان پہاڑوں کو اوتاد یعنی زمین کی میخیں بھی فرماتا ہے۔ خواہ یوں کہو کہ زمین پیدا کرنے کے بعد جو بارشیں ہوئیں تو بلند قطعات میں ادھر ادھر سے مٹی گر کر اونچے نیچے مختلف صورتوں کے ٹیلے جو رہ گئے تھے متحجر ہو کر پہاڑ بن گئے یا یوں کہو کہ بدء الخلقت میں ساتھ ہی خدا نے پہاڑ بھی بنائے مگر ان کا زمین کے لیے میخ اور بار اور تھماؤ ہونا کلام تشبیہی ہے گویا فرش زمین پر یہ بھاری بھاری پتھر دھر دیے ہیں کہ ہلنے نہ پاوے 1 ؎۔ اس میں بھی قدرت کاملہ کی بڑی نشانی ہے اور نیز پہاڑوں کے فوائد اور ان کے معاون اور نباتات کے منافع بہ آواز بلند اپنے خالق یکتا کی توحید و صناعی پر گواہی دے رہے ہیں جن کی طرف وانبتنا فیھا من کل شیء موزون میں اشارہ ہے موزوں سے مراد اندازہ کی ہوئی چیز یعنی زمین میں یا پہاڑوں میں یہ بےانتہا جڑی بوٹیاں اس کے اندازے علمی سے باہر نہیں یا یہ مراد کہ وہ وزن رکھتی ہیں یعنی بےفائدہ اور عبث نہیں عمدہ اور متناسب چیز کو موزوں کہتے ہیں جیسا کہ کلام موزوں۔ وجعلنا لکم فیھا معایش سوم نہ صرف بندوں کی معاش اور روزی زمین پر پیدا کی بلکہ من لستم لہ برازقین چارپائے ‘ اور تمہارے نوکر غلام بال بچے کہ جن کو اپنے زعم میں تم روزی دیتے ہو ان کی روزی بھی اسی نے پیدا کی نہ تم نے یا یہ معنی کہ جن چیزوں کے تم روزی رساں نہیں ہو۔ چارپائے تمہارے غلام وغیرہ ان کو بھی خدا ہی نے تمہارے لیے پیدا کیا۔ و ان من شیء یہاں سے اس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ عالم وجود میں جو کچھ ہم ظاہر کرتے ہیں وہ بقدر حاجت مخلوق ظاہر کرتے ہیں یہ نہیں کہ وہ ہمارے ہاں اسی قدر تھا بلکہ اس کے خزانے ہمارے پاس ہیں یعنی ہمارے ہاں بےانتہا ہے۔ بارش وغیرہ سب کا یہی حال ہے 1 ؎ یعنی پہاڑ کا وزن طبعی زمین کو ڈگمگانے نہیں دیتا
Top