Fi-Zilal-al-Quran - Al-Baqara : 283
وَ اِنْ كُنْتُمْ عَلٰى سَفَرٍ وَّ لَمْ تَجِدُوْا كَاتِبًا فَرِهٰنٌ مَّقْبُوْضَةٌ١ؕ فَاِنْ اَمِنَ بَعْضُكُمْ بَعْضًا فَلْیُؤَدِّ الَّذِی اؤْتُمِنَ اَمَانَتَهٗ وَ لْیَتَّقِ اللّٰهَ رَبَّهٗ١ؕ وَ لَا تَكْتُمُوا الشَّهَادَةَ١ؕ وَ مَنْ یَّكْتُمْهَا فَاِنَّهٗۤ اٰثِمٌ قَلْبُهٗ١ؕ وَ اللّٰهُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ عَلِیْمٌ۠   ۧ
وَاِنْ : اور اگر كُنْتُمْ : تم ہو عَلٰي : پر سَفَرٍ : سفر وَّلَمْ : اور نہ تَجِدُوْا : تم پاؤ كَاتِبًا : کوئی لکھنے والا فَرِھٰنٌ : تو گرو رکھنا مَّقْبُوْضَةٌ : قبضہ میں فَاِنْ : پھر اگر اَمِنَ : اعتبار کرے بَعْضُكُمْ : تمہارا کوئی بَعْضًا : کسی کا فَلْيُؤَدِّ : تو چاہیے کہ لوٹا دے الَّذِي : جو شخص اؤْتُمِنَ : امین بنایا گیا اَمَانَتَهٗ : اس کی امانت وَلْيَتَّقِ : اور ڈرے اللّٰهَ : اللہ رَبَّهٗ : اپنا رب وَلَا تَكْتُمُوا : اور تم نہ چھپاؤ الشَّهَادَةَ : گواہی وَمَنْ : اور جو يَّكْتُمْهَا : اسے چھپائے گا فَاِنَّهٗٓ : تو بیشک اٰثِمٌ : گنہگار قَلْبُهٗ : اس کا دل وَاللّٰهُ : اور اللہ بِمَا : اسے جو تَعْمَلُوْنَ : تم کرتے ہو عَلِيْم : جاننے والا
اگر تم سفر کی حالت میں ہو ، اور دستاویز لکھنے کے لئے کوئی کاتب نہ ملے ، تو رہن بالقبض پر معاملہ کرو ۔ اگر تم میں سے کوئی شخص دوسرے پر بھروسہ کرکے اس کے ساتھ کوئی معاملہ کرے ، تو جس پر بھروسہ کیا گیا ہو ، اسے چاہئے کہ امانت ادا کرے اور اللہ ، اپنے رب سے ڈرے اور شہادت ہرگز نہ چھپاؤ اور جو شہادت چھپاتا ہے اس کا دل گناہ آلودہ ہے اور اللہ تمہارے اعمال سے بیخبر نہیں ہے ۔
لیکن اس ظاہری ضمانت کے ساتھ شارع اہل ایمان کے ضمیر کے اندر اللہ خوفی کا جذبہ پیدا کرکے انہیں آمادہ کرتا ہے کہ وہ امانت دار بنیں ، اپنی ذمہ داریاں پوری کریں ، اس لئے کہ ظاہری ضمانت کے مقابلے میں اللہ خوفی وہ آخری ضمانت ہے جو کسی معاملے میں کارگر ثابت ہوسکتی ہے ۔ اور جس کی اساس پر کسی قانون پر صحیح طرح عمل کیا جاسکتا ہے۔ اور جس کی وجہ سے کسی حق دار تک اس کا حق اچھی طرح پہنچ سکتا ہے ۔ اور سب کے حقوق محفوظ ہوسکتے ہیں۔ مدیون پر بھروسہ کیا جاتا ہے کہ وہ قرضہ پوری طرح ادا کرے گا اور مقروض پر یہ اعتماد کیا گیا ہے کہ وہ مرہون چیز کو اپنی اصلی حالت میں واپس کرے گا ۔ دونوں کو یہ نصیحت کی جاتی ہے کہ وہ خدا خوفی کا رویہ اختیار کرکے اپنے اپنے فرائض سر انجام دیں ۔ اس لئے کہ اللہ ہی ہے جو ان دونوں کا رب ہے ۔ وہی دونوں کا نگہبان ، مربی ، سربراہ ، حکم اور قاضی ہے ۔ یہ تمام تصورات ، معاملات اور فرائض وذمہ داریوں کی ادائیگی کے معاملے میں بڑی اہمیت کے حامل ہوتے ہیں ۔ بعض مفسرین نے یہ کیا ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی تو اس نے امانتداری کے معاملے میں آیت کتابت کو مسنوخ کردیا ہے ۔ لیکن یہ رائے درست نہیں ہے ۔ اس لئے کہ صرف حالت سفر میں معاملات کے اندر تحریر نہ کرنے کی رخصت ہے اور یہ امانت داری اور قرض مکفول کا تعلق بھی سفر کی حالت سے ہے اور سفر میں قرض خواہ اور قرض دار دونوں ہی ایک دوسرے پر بھروسہ کرکے معاملہ کرتے ہیں ۔ غرض تقویٰ و طہارت پر ابھارتے ہوئے یہاں شہادت کے سلسلے میں بات اختتام تک پہنچتی ہے ۔ اور یہاں شہادت سے مراد وہ شہادت نہیں ہے جو بوقت کتابت کسی تحریر پر ڈالی جاتی ہے بلکہ اس سے مراد ہو شہادت ہے جو عدالت میں دی جاتی ہے ۔ اس لئے کہ یہ شہادت گواہ کے پاس ایک قسم کی امانت ہوتی ہے ۔ یہاں بات کی نسبت قلب مومن کی طرف کی جاتی ہے ۔ اور گناہ کا استناد قلب مؤمن کی طرف کیا جاتا ہے ۔ یوں شہادت کا چھپانا دراصل اپنے ضمیر میں گناہ کا چھپانا ہے ۔ دونوں باتوں کا تعلق دل و دماغ کی گہرائیوں سے ہے۔ چناچہ خاتمہ کلام ایک دہمکی آمیز فقرے سے کیا جاتا ہے۔ جس میں یہ توجہ دلائی جاتی ہے کہ اور وہ اپنے علم کے مطابق پوشیدہ قلبی اعمال پر بھی جزاء وسزادے گا۔ “ انہی ہدایات کی مزید تاکید اگلی آیت میں بھی جاری ہے ۔ مالک ارض وسماوات کے خوف پر دلوں کو ابھارا جاتا ہے ۔ جو اس کائنات کی تمام چیزوں کا مالک حقیقی ہے ۔ جو تمام دلی بھیدوں کا بھی جاننے والا ہے اور تمام ظاہری باتوں سے بھی خبردار ہے ۔ اور وہ تمام اعمال پر سزا اور جزاء بھی دینے والا ہے ۔ وہی ہے جو تمام بندوں کے معاملات پر فیصلے کرتا ہے۔ کسی اس کی رحمت نازل ہوتی ہے اور کوئی اس کے عذاب میں گرفتار ہوتا ہے۔ وہ ہر چیز پر قدرت رکھنے والا ہے اور ہر چیز اس کی مشیئت کے تابع ہے ۔ اور اللہ کی مشیئت بےقید ہے ۔
Top