Fi-Zilal-al-Quran - Al-Baqara : 253
تِلْكَ الرُّسُلُ فَضَّلْنَا بَعْضَهُمْ عَلٰى بَعْضٍ١ۘ مِنْهُمْ مَّنْ كَلَّمَ اللّٰهُ وَ رَفَعَ بَعْضَهُمْ دَرَجٰتٍ١ؕ وَ اٰتَیْنَا عِیْسَى ابْنَ مَرْیَمَ الْبَیِّنٰتِ وَ اَیَّدْنٰهُ بِرُوْحِ الْقُدُسِ١ؕ وَ لَوْ شَآءَ اللّٰهُ مَا اقْتَتَلَ الَّذِیْنَ مِنْۢ بَعْدِهِمْ مِّنْۢ بَعْدِ مَا جَآءَتْهُمُ الْبَیِّنٰتُ وَ لٰكِنِ اخْتَلَفُوْا فَمِنْهُمْ مَّنْ اٰمَنَ وَ مِنْهُمْ مَّنْ كَفَرَ١ؕ وَ لَوْ شَآءَ اللّٰهُ مَا اقْتَتَلُوْا١۫ وَ لٰكِنَّ اللّٰهَ یَفْعَلُ مَا یُرِیْدُ۠   ۧ
تِلْكَ : یہ الرُّسُلُ : رسول (جمع) فَضَّلْنَا : ہم نے فضیلت دی بَعْضَھُمْ : ان کے بعض عَلٰي : پر بَعْضٍ : بعض مِنْھُمْ : ان سے مَّنْ : جس كَلَّمَ : کلام کیا اللّٰهُ : اللہ وَرَفَعَ : اور بلند کیے بَعْضَھُمْ : ان کے بعض دَرَجٰتٍ : درجے وَاٰتَيْنَا : اور ہم نے دی عِيْسَى : عیسیٰ ابْنَ مَرْيَمَ : مریم کا بیٹا الْبَيِّنٰتِ : کھلی نشانیاں وَاَيَّدْنٰهُ : اور اس کی تائید کی ہم نے بِرُوْحِ الْقُدُسِ : روح القدس (جبرائیل) سے وَلَوْ : اور اگر شَآءَ اللّٰهُ : چاہتا اللہ مَا : نہ اقْتَتَلَ : باہم لڑتے الَّذِيْنَ : وہ جو مِنْ بَعْدِ : بعد ھِمْ : ان مِّنْ بَعْدِ : بعد سے مَا جَآءَتْھُمُ : جو (جب) آگئی ان کے پاس الْبَيِّنٰتُ : کھلی نشانیاں وَلٰكِنِ : اور لیکن اخْتَلَفُوْا : انہوں نے اختلاف کیا فَمِنْھُمْ : پھر ان سے مَّنْ : جو۔ کوئی اٰمَنَ : ایمان لایا وَمِنْھُمْ : اور ان سے مَّنْ : کوئی کسی كَفَرَ : کفر کیا وَلَوْ : اور اگر شَآءَ اللّٰهُ : چاہتا اللہ مَا اقْتَتَلُوْا : وہ باہم نہ لڑتے وَلٰكِنَّ : اور لیکن اللّٰهَ : اللہ يَفْعَلُ : کرتا ہے مَا يُرِيْدُ : جو وہ چاہتا ہے
یہ رسول (ایسے تھے کہ ) ہم نے ان میں سے بعض کو بعض پر زیادہ فضیلت دی ۔ ان میں کوئی ایسا تھا جس سے اللہ تعالیٰ خود ہمکلام ہوا۔ کسی کو اس نے دوسری حیثیتوں سے بلند درجے دیئے اور آخر میں عیسیٰ ابن مریم کو روشن نشانیاں عطا کیں اور روح پاک سے اس کی مدد کی۔ اگر اللہ چاہتا ، تو ممکن نہ تھا کہ ان رسولوں کے بعد ، جو لوگ روشن نشانیاں دیکھ چکے تھے ، وہ آپس میں لڑتے مگر (اللہ کی مشیئت یہ نہ تھی کہ وہ لوگوں کو جبراً اختلافات سے روکے ، اس وجہ سے ) انہوں نے باہم اختلاف کیا ۔ پھر کوئی ایمان لایا اور کسی نے کفر کی راہ اختیار کی ۔ ہاں اللہ چاہتاتو وہ ہرگز نہ لڑتے مگر جو اللہ چاہتا ہے کرتا ہے۔
پارہ سوم ایک نظر میں (سورۃ البقرہ کا آخری حصہ) یہ تیسرا پارہ دواجزاء پر مشتمل ہے۔ پہلا سورة بقرہ کے بقیہ پر مشتمل ہے (یاد رہے کہ پہلے دواجزاء سورة بقرہ ہی پر مشتمل رہے ہیں) اور دوسرا سورة آل عمران کے ابتدائی حصہ پر مشتمل ہے ۔ یہاں صرف بقرہ کے آخری حصہ کے بارے میں اجمالی بحث کریں گے ۔ اور آل عمران کے حصہ پر بحث اس وقت کریں گے جب سورة آل عمران پر بحث کا آغاز ہوگا۔ سورة بقرہ کے اس حصہ میں بھی اسی اساسی موضوع ہی کو لیا گیا ہے جس کے بارے میں ہم حصہ اول کے آغاز میں بتاچکے ہیں ۔ اور جس کا مطالعہ ہر اس سورت میں مسلسل کرتے رہتے ہیں ۔ وہ یہ کہ امت مسلمہ کو اس ہدف کے لئے تیار کرنا جس کی خاطر اسے برپا کیا گیا ہے تاکہ وہ ان مقاصد کو لے کر آگے بڑھے ، ایسے حالات میں کہ اس کے سامنے ایمانی تصور حیات ہو اور اسے یہ احساس ہو کہ اس عظیم امت اور تحریک کو انہی مقاصد کے لئے برپا کیا گیا ہے ۔ اور اس کے سامنے امم سابقہ کے وہ تمام تجربات بھی کھول کر رکھ دیئے ہیں ۔ اسے آگاہ کردیا گیا ہے کہ اس راہ کے لئے اس نے کن وسائل کو کام میں لانا ہے ، اور یہ کہ اس راہ کی مشکلات کیا ہیں اور یہ کہ تحریک کے دشمن اس کے خلاف کیا کیا سازشیں کرسکتے ہیں ۔ کیونکہ وہ اللہ کے دشمن ، حق کے دشمن اور ایمان کے دشمن ہیں ، اور یہ اس لئے کہ یہ امت اس مشکل راہ میں بیدار مغزی کے ساتھ آگے بڑھے اور تمام مراحل طے کرے۔ امت مسلمہ کی تربیت وتیاری ، اس کی یہ تمام سروسامانیاں اور اس کی ہمہ گیر ٹریننگ اور اس کا نصب العین اور اس کے اغراض و مقاصد وہ مضامین ہیں جن کے ذریعہ قرآن کریم ، ابتدائی نسل کے بعد ، ہر دور میں جماعت مسلمہ کو تروتازہ رکھتا ہے ۔ کیونکہ ہر دور میں تحریک اسلامی کی قیادت و راہنمائی کے لئے یہی منتہاہ متین ہے ۔ لہٰذا قرآن مجید ایک زندہ فعال اور محرک ذریعہ تربیت ہے اور وہ ہر وقت اور ہر زمانہ میں ایک زندہ اور فعال اور مکمل دستور ہے بلکہ قرآن مجید ہر مرحلے ، ہر قدم اور ہر دور میں ایک قائد ، ایک مرشد اور ایک راہنما ہے ۔ لیکن صرف اس شخص کے لئے جو قرآن سے نصیحت ، ہدایت اور راہنمائی کا طالب ہے ۔ پارہ دوئم کا خاتمہ اس آیت پر ہوا تھا تِلْكَ آيَاتُ اللَّهِ نَتْلُوهَا عَلَيْكَ بِالْحَقِّ وَإِنَّكَ لَمِنَ الْمُرْسَلِينَ................ ” یہ اللہ کی آیات ہیں جو ہم ٹھیک ٹھیک تم کو سنا رہے ہیں اور تم یقیناً مرسلین میں سے ہو۔ “ اور یہ آیت بنی اسرائیل کے بعض لوگوں کے اس قصے کے بعد ” جو موسیٰ کے بعد سرداران بنی اسرائیل کو پیش آیا تھا ، جنہوں نے اپنے نبی سے کہا تھا کہ ہمارے لئے ایک بادشاہ مقرر کردو تاکہ ہم اللہ کی راہ میں جنگ کریں ۔ “ (246 : 2) اور اس قصے کے آخر میں کہا گیا تھا ” اور داؤد نے جالوت کو قتل کردیا اور اللہ نے اسے سلطنت اور حکمت سے نوازا اور جن چیزوں کا چاہا اسے علم دیا۔ “ (251 : 2) تو گویا پارہ دوئم کا خاتمہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی قوم کی بات پر ہوا۔ جس میں حضرت داؤد کے واقعہ کی تفصیل تھی ۔ اس میں رسول اکرم ﷺ کی رسالت کی طرف بھی اشارہ تھا اور یہ بتادیا گیا تھا کہ آپ ﷺ کو ان تجربات سے مسلح کیا جارہا ہے جو تمام مرسلین کو انسانی تاریخ میں پیش آتے رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ پارہ سوئم میں بات یوں شروع کی جاتی ہے کہ وہ اس سے پہلے کے کلام سے مربوط ہے ۔ یعنی انبیائے سابقہ کے بارے میں بات یوں چلتی ہے کہ ان میں سے بعض دوسروں کے مقابلے میں زیادہ برگزیدہ تھے ۔ بعض کے درجات دوسروں پر بلند تھے ۔ اور یہ کہ ان رسولوں کے پیروکاروں نے ازمنہ مابعد میں باہم اختلافات پیدا کرلئے ۔ حالانکہ انہیں اچھی طرح معلوم تھا کہ حق پر کون ہے۔ اس کے باوجود انہوں نے اختلافات قائم رکھے ۔ ان میں سے بعض لوگ ایمان پر قائم رہے اور بعض نے کفر کا راستہ اپنایا۔ ان میں سے بعض نے دوسروں کو قتل کیا :” یہ رسول ................ ہم نے ان کو ایک دوسرے سے بڑھ چڑھ کر مرتبے عطا کئے ۔ ان میں سے کوئی ایسا تھا جس سے اللہ خود ہمکلام ہوا۔ کسی کو اس نے دوسری حیثیتوں سے بلنددرجے دئیے اور آخر میں عیسیٰ ابن مریم کو روشن نشانیاں عطاکیں اور روح پاک سے اس کی مدد کی۔ اگر اللہ چاہتا تو ممکن نہ تھا کہ ان رسولوں کے بعد جو لوگ روشن نشانیاں دیکھ چکے تھے وہ آپس میں لڑتے ۔ مگر انہوں نے باہم اختلاف کیا ، پھر کوئی ان میں ایمان لایا اور کسی نے کفر کی راہ اختیار کی ۔ ہاں ، اللہ چاہتا ، تو وہ ہرگز نہ لڑتے ، مگر اللہ جو چاہتا ہے ، کرتا ہے۔ “ ربط کلام بالکل واضح ہے کہ پارہ دوئم کے آخر میں بھی رسولوں کی نسبت بات تھی اور پارہ سوئم کے آغاز میں بھی یہی بات ہے بلکہ اس پوریہ سورت میں کلام مربوط ہے ۔ اس پوری سورت میں ، مدینہ میں منظم ہونے والی اسلامی جماعت اور بنی اسرائیل کے درمیان فکری مجادلہ ہے ۔ اور قرآن مجید کے پہلے دوپاروں میں عموماً یہی مباحث ہیں ۔ اسی نسبت سے یہاں رسولوں اور ان کے بعد ان کی امم کے مابین فرقہ وارانہ اختلافات اور باہم قتل ومقاتلہ کی بات یہاں تفصیل سے چھیڑی گئی ہے ۔ یعنی یہ کہ ان امتوں میں سے بعض لوگ تو ایمان پر قائم رہے اور بعض نے کفر کا راستہ اختیار کیا اور پھر ناحق باہم دست گریباں ہوئے ۔ لہٰذا ربط کلام واضح ہے ۔ (مرحوم سید قطب نے اپنی تفسیر قرآن مجید کے پاروں کو پیش نظر رکھ کر لکھی ہے ۔ حالانکہ قرآن مجید کی تدوین میں پاروں کا لحاظ نہ تھا ۔ پاروں کی تقسیم محض ایک ماہ میں تلاوت کرنے کی سہولت پیدا کرنے کے لئے کی گئی ہے ۔ لہٰذا تلک الرسل سے جو کلام شروع ہوتا ہے ظاہر ہے کہ وہ سابقہ آیات سے مربوط ہے ۔ مترجم) یہاں یہ بات اس لئے کی گئی ہے کہ تحریک اسلامی کے سامنے ، اس وقت کے متبعین انبیاء ، بنی اسرائیل وغیرہ کی مبہم اور واقعی بہتر مال خرچ کرے اور یہ تو محض توشہ آخرت کے لئے جہاں ” نہ خرید وفروخت ہوگی ، نہ دوستی کام آئے گی اور نہ سفارش چلے گی “ (2104 : 2) اس لئے انفاق فی سبیل ایک ایسا مالی فریضہ ہے جو فریضہ جہاد فی سبیل اللہ کا ایک لازمہ ہے ۔ اور خصوصاً ایسے حالات میں جو تحریک اسلامی کو اس وقت درپیش تھے ۔ جن میں غازیان کرام کو خود ان کے لئے اپنے اموال اور ان لوگوں کے اموال کے ذریعہ جنگ کے لئے تیار کیا جارہا تھا جو انفاق فی سبیل اللہ کے نتیجے میں فراہم ہوتے تھے ۔ اس کے بعد اس فکری اساس کے بعض پہلوؤں پر بحث کی گئی ہے جس پر اسلامی جماعت کا قیام عمل میں لایا گیا ہے۔ یعنی وجود باری اور اس کی وحدانیت یہ کہ اللہ وحدہ ہر چیز کا منتظم ہے اور ہر چیز اس کی وجہ سے قائم ہے ۔ وہ اس کائنات کا مالک مطلق ہے ۔ وہ اس کائنات کی ہر چیز کا علیم وخبیر ہے۔ اسے اس پوری کائنات پر قدرت حاصل ہے ، وہ پوری طرح اس کے قبضہ میں ہے اور اس کی حفاظت میں ہے ۔ اور یہ کہ قیامت کے دن اس کے ہاں کوئی سفارش کارگر نہ ہوگی الا یہ کہ وہ اجازت دے ، یہ کہ اس جہاں میں انسان کو وہی علم حاصل ہے جو وہ عطا کرتا ہے ، تاکہ ایک مسلمان اپنی راہ پر اس طرح گامزن ہو کہ اس کے ذہن میں اس کے نظریات کا ایک واضح تصور ہو جن نظریات پر یہاں وہ نظام زندگی قائم کرنے چلا ہے ۔ چناچہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں : ” اللہ وہ زندہ ٔ جاوید ہستی ہے جو تمام کائنات کو سنبھالے ہوئے ہے ، اس کے سوا کوئی اللہ نہیں ہے ۔ وہ نہ سوتا ہے اور نہ اسے اونگھ لگتی ہے زمین وہ آسمان میں جو کچھ ہے ، اسی کا ہے ۔ کون ہے جو اس کی جناب میں اس کی اجازت کے بغیر سفارش کرسکے ؟ جو کچھ بندوں کے سامنے ہے اسے وہ بھی جانتا ہے اور جو کچھ ان سے اوجھل ہے ، اس سے بھی واقف ہے اور اس کی معلومات میں سے کوئی چیز بھی ان کی گرفت ادراک میں نہیں آسکتی ۔ الا یہ کہ کسی چیز کا علم وہ خود ہی ان کو دینا چاہے ۔ اس کی حکومت آسمانوں اور زمین پر چھائی ہوئی ہے اور ان کی نگہبانی اس کے لئے کوئی تھکادینے والا کام نہیں ہے ۔ بس وہی ایک بزرگ و برتر ذات ہے۔ “ (200 : 2) اس تصور حیات کے مطابق ایک مسلمان آگے بڑھتا ہے اور اللہ تعالیٰ کے راستے میں قتال شروع کرتا ہے ، اس لئے نہیں کہ وہ لوگوں سے اپنے نظریہ حیات اور اپنے عقائد زور سے منوائے ، بلکہ اس لئے کہ ہدایت اور گمراہی کے درمیان تمیز ہوجائے فتنہ و فساد اور ضلالت وگمراہی کے اصل عوامل واسباب کا خاتمہ کردیا جائے اور اس کے بعد لوگوں کو مکمل آزادی ہوگی کہ وہ جو رویہ چاہیں اپنائیں۔ ” دین کے معاملے میں کوئی زبردستی نہیں ہے ۔ صحیح بات غلط خیالات سے الگ چھانٹ کر رکھ دی گئی ہے ۔ اب جو کوئی طاغوت سے انکار کرکے اللہ پر ایمان لے آیا ، اس نے ایک ایسا مضبوط سہارا تھام لیا ، جو کبھی ٹوٹنے والا نہیں ۔ اللہ سب کچھ سننے والا اور جاننے والا ہے ۔ “ (256 : 2) یوں ایک مسلمان اپنی راہ حیات پر پورے اطمینان کے ساتھ رواں دواں ہے ۔ وہ اپنے آپ کو اللہ کی پناہ میں سمجھتا ہے ۔ اور اللہ کی نصرت اس کے ساتھ ہوتی ہے ۔ اسے یقین ہوتا ہے کہ اللہ کی راہنمائی اور اللہ کی امداد اس کے شامل حال ہے ۔ ” جو لوگ ایمان لاتے ہی اللہ ان کا مددگار ہے ۔ وہ ان کو تاریکیوں سے روشنی کی طرف لاتا ہے ۔ اور جن لوگوں نے کفر کی راہ اپنائی ہے ان کے حامی شیطان ہیں جو انہیں روشنی سے تاریکیوں کی طرف لاتے ہیں ۔ یہ لوگ آگ میں جانے والے لوگ ہیں جو وہاں ہمیشہ رہیں گے۔ “ (257 : 2) غرض اس پارے کے آخر میں بھی ، یہ پیراگراف مسلسل اسی ہدف کی طرف آگے بڑھتا ہے جس کی طرف اس پارہ کے آغاز میں روئے سخن تھا یعنی تحریک اسلامی کے اغراض ومقاصد کا بیان اور جماعت اسلامی میں ان مقاصد کی آبیاری۔ اس کے بعد اسلامی نقطہ نظر سے موت وحیات کی حقیقت پر ایک نظر ڈالی جاتی ہے ۔ اس سلسلے میں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی نظریاتی زندگی کے دوتجربات بیان کئے جاتے ہیں اور ایک مشاہدہ ایک دوسرے شخص کا بیان کیا گیا ہے جس کا نام ظاہر نہیں کیا گیا۔ ان تجربات میں موت وحیات کی یہ حقیقت بتائی گئی ہے کہ اس کا تعلق صرف اللہ کے علم و ارادہ کے ساتھ ہے ۔ اور یہ کہ انسان کا محدود ادراک موت وحیات کی اصل حقیقت کو اپنے احاطہ میں لانے سے قاصر ہے کیونکہ اصل حقیقت ماوراء الادراک ہے ۔ اور اس کی حقیقت صرف اللہ تعالیٰ کے علم میں ہے۔ یہاں موت اور حیات کو اس واضح کیا گیا ہے کہ ایک تو حیات انسانی کے بارے میں انسانی تصور اور فکر کی اصلاح ہو دوسرے یہ کہ جہاد و قتال میں جو لوگ شریک ہوتے ہیں ان کے پیش نظر بھی موت وحیات کا صحیح تصور آنا ضروری ہے ۔ ان فکری ہدایات کے بعد اسلامی معاشرہ کے اجتماعی معاملات کے سلسلے میں قدرے طویل بات ہوتی ہے ۔ بتایا جاتا ہے کہ سوشل سیکورٹی اسلامی معاشرہ کی اساس ہے ، اس معاشرہ میں ربا کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا ۔ یہ ایک قابل لعنت فعل تصور ہوگا۔ اس کے مقابلے میں اسلامی معاشرہ میں زیادہ دولت بذریعہ صدقات وانفاق فی سبیل اللہ خرچ کرنے کی ترغیب دی جاتی ہے اور اس پر قدرے طویل بحث ہوتی ہے ۔ انفاق فی سبیل اللہ کا بیان بہترین تصویر کشی ، بہترین تاثرات واشارات اور اعلیٰ فنی خوبیوں پر مشتمل ہے ۔ اس فنی اور ادبی پہلو پر ہم انشاء اللہ اس وقت بات کریں گے جب یہ خوبصورت آیات تشریح کے وقت ہمارے سامنے ہوں گی۔ یہاں اس قدر اشارہ مناسب ہے جہاد و قتال اور انفاق فی سبیل اللہ کا چولی دامن کا ساتھ ہے ۔ نیز انفاق فی سبیل اللہ اور صدقہ و خیرات اسلام کی اجتماعی زندگی کا ایک اہم پہلو ہے ۔ اور معاشی زندگی کے اس پہلو کو اس سورت میں ترغیب اور قانون سازی کے مختلف طریقوں سے منظم کیا گیا ہے ۔ احسان و صدقہ کے بالمقابل سود کا خبیث نظام ہے ۔ اس خبیث نظام کے خلاف قرآن مجید نے طویل جنگ کی ہے ۔ اور یوں محسوس ہوتا ہے کہ قرآن مجید نے بمباری کرکے اجتماعی زندگی کے معاشی نظام سے اس مذموم ادارے کی بنیادیں بھی منہدم کردی ہیں ۔ قرآن سودی نظام کی جگہ ایک مستحکم اور صحت مند معاشی نظام قائم کرنا چاہتا ہے ۔ جس کے ذریعہ معاشرے کا اقتصادی نظام ترقی کرسکے ۔ اس کے بعد باہمی لین دین کے بارے میں قانون سازی کی گئی ہے اور ایسا قانون بنایا گیا ہے کہ دنیا کے کسی قانونی نظام میں یہ قانون (معاملات کی تحریری شکل) نہ تھا۔ یہ قانون سازی دوآیات میں کی گئی ہے ۔ ایک آیت قرآن کریم کی طویل ترین آیات میں سے ہے ۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ قرآن کریم قانون سازی میں کیا طریق کار اختیار کرتا ہے ۔ اور کس انداز سے کرتا ہے ۔ قرآن کا قانون ایک زندہ ، منفرد اور معجزانہ قانون ہوتا ہے اور ہر دور اور ہر زمانے کے لئے موزوں بھی ۔ اس سورت کا خاتمہ بھی انہی الفاظ اور مضامین پر کیا جاتا ہے جس سے اس کا آغاز ہوا تھا یعنی اللہ کی ذات ، ملائکہ ، اللہ کی کتابوں اور رسولوں کے بارے میں اسلامی تصور اور نظریہ کہ لَا نُفَرِّقُ بَینَ اَحَدٍ مِّن رُّسُلِہٖ ” ہم اللہ کے رسولوں کے درمیان فرق نہیں کرتے ۔ “ یہ وہ اصول ہے جس کا اس سورت میں بار بار اظہار کیا گیا۔ آخر میں مومنین کو طریقہ دعا سکھایا جاتا ہے اور بتایا جاتا ہے کہ ایک مومن کا تعلق اپنے رب کے ساتھ کیسا ہوتا ہے ؟ اور اس دعا میں بھی بنی اسرائیل کی تاریخ کی طرف ایک اشارہ ہے یعنی یہ کہ انہوں نے اپنے اللہ کے ساتھ اپنا تعلق نہ جوڑا تھا۔ اس دعا پر اس سورت کا خاتمہ ہوتا ہے جو مختلف مضامین پر مشتمل ایک طویل سورت کا مناسب خاتمہ ہے ۔ ” اے ہمارے رب ! ہم سے بھول وچوک میں قصور ہوجائے ان پر گرفت نہ کر ۔ مالک ! ہم پر وہ بوجھ نہ ڈال ، جو تونے ہم سے پہلے لوگوں پر ڈالے تھے ۔ پروردگار ! جس بوجھ کو اٹھانے کی ہم میں طاقت نہیں ہے ، وہ ہم پر نہ رکھ ۔ ہمارے ساتھ نرمی کر ، ہم سے درگزر فرما ، ہم پر رحم کر ، تو ہمارا مولیٰ ہے ، کافروں کے مقابلے میں ہماری مدد کر۔ “ (286 : 2) درس 17 ایک نظر میں اس سبق کے آغازہی میں ہمیں رسولوں کے بارے میں قرآن کریم کا مخصوص انداز تعبیر ملتا ہے ۔ تِلکَ الرُّسُلُ.........” رسولوں کی جماعت “ اور ھٰٓؤُلَآ ءِالرُّسُلُ.........” یہ رسول “ کا لفظ اختیار نہیں کیا گیا ۔ رسولوں کے لئے آغاز کلام میں یہ خاص طرز تعبیر کیوں اختیار کیا گیا ؟ اس میں کچھ واضح اشارات ہیں ۔ مناسب ہے کہ تشریح آیات سے پہلے اس انداز کلام پر کچھ بات ہوجائے ۔ تِلکَ الرُّسُلُ.........” یہ گروہ رسل “ جو ایک خاص جماعت ہیں ۔ اس جماعت کا ایک خاص مزاج ہے اور ایک خاص ماہیت ہے ۔ اگرچہ وہ بشر ہیں ۔ تو پھر وہ کون ہیں ؟ رسالت کی حقیقت کیا ہے ؟ رسالت کا مزاج کیا ہے ؟ یہ فریضہ کیسے ادا کیا جاتا ہے ؟ پھر صرف ان مخصوص افراد ہی کو کیوں درجہ رسالت پر فائز کیا گیا اور کیسے کیا گیا ؟ یہ ایسے سوالات ہیں جن پر میں ایک طویل عرصہ سے سوچتا رہا ہوں ۔ تسلی بخش جواب کا متلاشی رہا ہوں۔ میرے پردہ احساس پر کچھ ایسے مفہوم اور معانی ابھرتے ہیں جن میں کلمات وعبارات کی صورت میں منتقل نہیں کرسکتا۔ البتہ یہ ضروری ہے کہ میں اپنے اس وجدان و شعور کو اور ان تصورات ومفہومات کو الفاظ وافہام کے قریب تر کرسکوں ۔ یہ کائنات جس میں ہم زندہ ہیں اور ہم جس کا ایک اہم حصہ ہیں کچھ اصول وقواعد پر چل رہی ہے ۔ اور یہ اصول وہ تکوینی اصول و ضوابط ہیں جو اللہ تعالیٰ نے اس کائنات کے لئے وضع فرمائے ہیں ۔ اور اس کائنات کو حکم دیا ہے کہ یہ ان کے مطابق چلتی رہے اور ان کے مطابق حرکت کرے اور ان اصولوں کے منشا کے مطابق چلے ۔ اور اس کائنات میں انسان جونہی علمی میدان میں ایک قدم آگے بڑھتا ہے اور کچھ نئے اکتشافات ودریافت کرلیتا ہے یا انسان کو اللہ تعالیٰ کچھ مزید معلومات حاصل کرنے کے مواقع فراہم کردیتا ہے تو یہ ادراک اورا کتشاف اس کی محدود قوت مدرکہ کے حدود کے اندر ہوتا ہے اور اسی قدر ہوتا ہے جس قدر اسے اس دنیا میں زندگی بسر کرنے کے لئے ضروری ہوتا ہے تاکہ وہ یہاں اپنی محدود زندگی میں انسانی خلافت کے فرائض اچھی طرح سر انجام دے سکے ۔ اور اس کائنات میں ، ان طبعی قوانین اور ضوابط کے دریافت کرنے کے لئے انسان اپنی شخصیت کے نقطہ نظر سے دوچیزوں کو کام میں لاتا ہے۔ ایک مشاہدہ اور دوسرا رتجربہ۔ مشاہدہ اور تجربہ اپنے مزاج کے اعتبار سے دونوں جزوی ذرائع علم ہیں ۔ وہ اپنے نتائج کے اعتبار سے اٹل اور آخری اور فیصلہ کن نہیں ہوتے ۔ البتہ ان دو ذرائع سے اس کائنات میں بعض ایسے کلی قواعد و ضوابط دریافت کرلیے جاتے ہیں جو ایک طویل عرصے تک قوانین کلیہ سمجھے جاتے ہیں لیکن آخر کار یہ دریافت بھی ایک جزوی دریافت بن جاتی ہے ۔ جو نہ تو انتہائی ہوتی ہے اور نہ ہی مطلق ۔ اس لئے کہ کائنات کے ان قوانین کے درمیان تناسق وتطابق اس کلی ناموس سے منسلک ہے ، جو ان تمام کلیات کو باہم مربوط کرتا ہے ۔ اور یہ ناموس اکبر ہمیشہ سے مخفی رہتا ہے اور یہ اس کی جزوی مشاہدہ اور تجربہ کے دائرہ سے باہرہوتا ہے ۔ اگرچہ بحث وتحقیق کا ایک طویل دور گزرجائے اس لئے کہ اس سلسلے میں زمانہ کوئی اہم عنصر نہیں ہے ۔ اس کائنات میں اس کی اہمیت اور اس کی تشکیل کے لحاظ سے یہ تو انسانی ذات اور طاقت کے میدان کے لئے ایک حد ہے ۔ اور اس کی یہ حیثیت بھی ایک جزوی اور نسبتی حیثیت ہے ۔ پھر پوری بنی نوع انسان کو جو زمان عطا کیا گیا ہے وہ بھی جزئی اور محدود ہے ۔ اس لئے ہمارے ذرائع معرفت اور ان ذرائع کے نتیجے میں حاصل ہونے والے تمام نتائج جزئی ہی رہتے ہیں اس لئے کہ یہ جزوی اور نسبتی ذرائع کے واسطے سے سامنے آتے ہیں ۔ یہاں آکر معلوم ہوتا ہے کہ اس کائنات میں رسالت کی اہمیت کیا ہے ۔ رسالت کا ایک خاص مزاج ہوتا ہے اور یہ مزاج خاص اور یہ قوت اسے اللہ تعالیٰ کی جانب سے عطا ہوتی ہے تاکہ وہ اس ناموس اکبرکو اخذ کرکے اور اس کی گہرائی تک جاسکے ۔ جس پر اس کائنات کا وجود قائم ہے ۔ ایک رسول کا رابطہ اس ناموس اکبر کے ساتھ کس نوعیت کا ہوتا ہے ، ہم آج تک اس کی حقیقت کو نہیں پاسکے ۔ ہم صرف اس رابطہ وتعلق کے آثار کو سمجھ سکتے ہیں۔ رسول کی یہ مخصوص طبیعی قوت ہوتی ہے جو اس ناموس اکبر سے وحی حاصل کرتی ہے اور اس میں اس کی صلاحیت ہوتی ہے ، اس لئے کہ رسول کا یہ مزاج اس پیغام کے وصول کرنے کے لئے تیارہوتا ہے۔ اور یہ پیغام وہی پیغام ہوتا ہے جو اس ناموس اکبر سے یہ پوری کائنات بھی وصول کرتی رہتی ہے ۔ اس لئے یہ پوری کائنات براہ راست اس ناموس اکبر سے منسلک ہے اور اس کے تصرف اور کنٹرول میں ہے ۔ اب رسول یہ اشارہ کس طرح وصول کرتا ہے ، وہ کس ذریعہ یا کس سے یہ اشارہ وصول کرتا ہے ؟ اس سوال کا جواب ہم صرف اس وقت دے سکتے ہیں جب اللہ تعالیٰ ہمیں بھی وہ استعدادبخش دے جو وہ اپنے بندوں میں سے ان مختار اور منتخب لوگوں کو بخش دیتا ہے جو رسول کہلاتے ہیں اور اللَّهُ أَعْلَمُ حَيْثُ يَجْعَلُ رِسَالَتَهُ ................” اور اللہ خوب جانتا ہے کہ وہ استعداد رسالت کہاں رکھ دے “ یہ ایک عظیم الشان معاملہ ہے اور یہ اس کائنات کا وہ عظیم الشان راز ہے جو انسان کی قوت ادراک سے ماوراء ہے ۔ تمام رسول توحید کی حقیقت کو پاگئے تھے اور تمام رسولوں کا نظریہ نظریہ توحید رہا ہے ۔ اس لئے کہ ان رسولوں کے وجود کے اندرناموس اعظم کے ساتھ رابطے کی استعداد ودیعت کی گئی اس لئے کہ ان تمام انبیاء کا منبع ہدایت ایک ہی تھا ۔ اگر یہ منبع اور مصدر ہدایت ایک نہ ہوتا تو ان انبیاء کے نظریات جدا ہوتے اور ان کا طریقہ واردات متنوع ہوجاتا ۔ رسولوں کا یہ ادراک اس دور میں ہوا جب کہ انسانیت اپنے ابتدائی دور میں تھی اور فہم وادراک اور مشاہدہ و تجربہ کے وہ ذرائع جو آج ہیں انسانیت کو میسر نہ تھے اور نہ ہی اس دور میں کلی قوانین بشریت پر ظاہر ہوئے تھے جو نظریہ توحید پر دلالت کرتے ہیں ۔ آغاز بشریت سے آج تک تمام رسولوں نے صرف اللہ کی بندگی کی طرف دعوت دی ہے ۔ یہ تمام انبیاء اس ایک حقیقت کی طرف بلاتے رہے ہیں اور انہوں نے اپنے اس مزاج خاص اور طبیعت خاصہ سے یہی پیغام پایا ہے ۔ اس لئے ان کے اس مزاج نبوی پر جب اس ناموس کلی کا القاء ہوا ، تو اس سے ان کے قلوب پر ایک فطری سوچ ابھری جو اس ناموس کلی سے پوری طرح مربوط تھی ۔ پھر اس پیغام کی تبلیغ و اشاعت بھی ان کی اس سوچ اور یقین کا قدرتی نتیجہ تھی۔ ان کا یہ پختہ ایمان تھا کہ یہ حق ہے اور سوچ ان کی طرف اللہ وحدہ کی طرف سے القاء ہوئی ہے اور یہ کہ عالم بالا سے ان کے اس وثیق اور قوی رابطہ اور ان کی مخصوص رسولانہ فطرت کی وجہ سے ان کو پورا یقین تھا کہ وہ ناموس اللہ وحدہ لاشریک ہے اور اس کی ذات میں تعدد ممکن نہیں ہے۔ عقیدہ توحید رسولوں کی فطرت نبوت کا لازمی شعور ہوتا ہے۔ قرآن کریم نے انبیاء (علیہم السلام) کے جو قصص نقل کئے ہیں ان میں بعض الفاظ ایسے موجود ہیں جن سے اس فطرت نبویہ کی طرف اشارہ ہوتا ہے ۔ بعض اوقات انبیاء کو اس فطرت سے موصوف کیا جاتا ہے ۔ مثلاً حضرت نوح (علیہ السلام) کے قصے میں مذکور ہے ۔ قَالَ يَا قَوْمِ أَرَأَيْتُمْ إِنْ كُنْتُ عَلَى بَيِّنَةٍ مِنْ رَبِّي وَآتَانِي رَحْمَةً مِنْ عِنْدِهِ فَعُمِّيَتْ عَلَيْكُمْ أَنُلْزِمُكُمُوهَا وَأَنْتُمْ لَهَا كَارِهُونَ (28) وَيَا قَوْمِ لا أَسْأَلُكُمْ عَلَيْهِ مَالا إِنْ أَجْرِيَ إِلا عَلَى اللَّهِ وَمَا أَنَا بِطَارِدِ الَّذِينَ آمَنُوا إِنَّهُمْ مُلاقُو رَبِّهِمْ وَلَكِنِّي أَرَاكُمْ قَوْمًا تَجْهَلُونَ (29) ” اے برادران قوم ! ذرا سوچوتوسہی کہ اگر میں اپنے رب کی طرف سے ایک کھلی شہادت پر قائم تھا اور پھر اس نے مجھ کو اپنی خاص رحمت سے بھی نواز دیا ، مگر وہ تم کو نظر نہ آئی تو آخر ہمارے پاس کیا ذریعہ ہے کہ تم ماننا چاہو اور ہم زبردستی اس کو تمہارے سر چپک دیں ؟ اور اے برادران قوم ! میں اس کام پر تم سے کوئی مال نہیں مانگتا ، میرا اجر تو اللہ کے ذمہ ہے ۔ اور میں ان لوگوں کو دھکے دینے سے بھی رہا جنہوں نے میری بات مانی ہے ، وہ آپ بھی اپنے رب کے حضور جانے والے ہیں ۔ مگر میں دیکھتا ہوں کہ تم لوگ جہالت برت رہے ہو اور اے قوم ! اگر میں ان لوگوں کو دھتکار دوں تو اللہ کی پکڑ سے مجھے کون بچانے آئے گا ؟ تم لوگوں کی سمجھ میں کیا اتنی بات نہیں آتی ؟ “ (28 : 11) اور حضرت صالح (علیہ السلام) کی زبانی فرمایا گیا : قَالَ يَا قَوْمِ أَرَأَيْتُمْ إِنْ كُنْتُ عَلَى بَيِّنَةٍ مِنْ رَبِّي وَآتَانِي مِنْهُ رَحْمَةً فَمَنْ يَنْصُرُنِي مِنَ اللَّهِ إِنْ عَصَيْتُهُ فَمَا تَزِيدُونَنِي غَيْرَ تَخْسِيرٍ ” اے برادارن قوم ! تم نے کچھ اس بات پر غور کیا کہ اگر میں اپنے رب کی طرف سے ایک صاف شہادت رکھتا تھا اور پھر اس نے اپنی رحمت سے بھی مجھے نواز دیا تو اس کے بعد اللہ کی پکڑ سے مجھے کون بچائے گا ۔ اگر میں اس کی نافرمانی کروں تم خسارے میں ڈالنے کے سوا میرے کس کام آسکتے ہو۔ “ اور حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی سیرۃ میں بھی یہی نظر آتا ہے۔ وَحَاجَّهُ قَوْمُهُ قَالَ أَتُحَاجُّونِّي فِي اللَّهِ وَقَدْ هَدَانِي وَلا أَخَافُ مَا تُشْرِكُونَ بِهِ إِلا أَنْ يَشَاءَ رَبِّي شَيْئًا وَسِعَ رَبِّي كُلَّ شَيْءٍ عِلْمًا أَفَلا تَتَذَكَّرُونَ (80) وَكَيْفَ أَخَافُ مَا أَشْرَكْتُمْ وَلا تَخَافُونَ أَنَّكُمْ أَشْرَكْتُمْ بِاللَّهِ مَا لَمْ يُنَزِّلْ بِهِ عَلَيْكُمْ سُلْطَانًا فَأَيُّ الْفَرِيقَيْنِ أَحَقُّ بِالأمْنِ إِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُونَ (81) ” اور اس کی قوم اس سے گھڑنے لگی تو اس نے قوم سے کہا ” کیا تم لوگ اللہ کے معاملے میں مجھ سے جھگڑتے ہو ؟ حالانکہ اس نے مجھے راہ راست دکھا دی ہے ۔ اور میں تمہارے ٹھہرائے ہوئے شریکوں سے نہیں ڈرتا ۔ ہاں اگر میرا رب کچھ چاہے تو ضرور ہوسکتا ہے ۔ میرے رب کا علم ہر چیز پر چھایا ہوا ہے ۔ پھر کیا تم ہوش میں نہیں آؤگے ؟ اور آخر میں تمہارے ٹھہرائے ہوئے شریکوں سے میں کیسے ڈروں جب کہ تم اللہ کے ساتھ ان چیزوں کو خدائی شریک بناتے ہوئے نہیں ڈرتے ۔ جن کے لئے اس نے تم پر کوئی سند نازل نہیں نازل کی ہے ۔ ہم دونوں فریقوں میں سے کون زیادہ بےخوفی اور اطمینان کا مستحق ہے ۔ بتاؤ اگر تم کچھ علم رکھتے ہو۔ “ اور حضرت شعیب (علیہ السلام) کے حصے میں بھی یہی بات بتائی گئی ہے۔ قَالَ يَا قَوْمِ أَرَأَيْتُمْ إِنْ كُنْتُ عَلَى بَيِّنَةٍ مِنْ رَبِّي وَرَزَقَنِي مِنْهُ رِزْقًا حَسَنًا وَمَا أُرِيدُ أَنْ أُخَالِفَكُمْ إِلَى مَا أَنْهَاكُمْ عَنْهُ إِنْ أُرِيدُ إِلا الإصْلاحَ مَا اسْتَطَعْتُ وَمَا تَوْفِيقِي إِلا بِاللَّهِ عَلَيْهِ تَوَكَّلْتُ وَإِلَيْهِ أُنِيبُ (88) ” بھائیو ! تم خود ہی سوچو کہ اگر میں اپنے رب کی طرف سے ایک کھلی شہادت پر تھا اور پھر اس نے اپنے ہاں سے مجھ کو اچھا رزق بھی عطا کیا اور میں ہرگز یہ نہیں چاہتا کہ جن باتوں سے میں تم کو روکتا ہوں ان کا خود ارتکاب کروں ۔ میں تو اصلاح کرنا چاہتا ہوں ، جہاں تک میرا بس چلے اور یہ جو کچھ میں کرنا چاہتا ہوں ، اس کا سارا انحصار اللہ کی توفیق پر ہے ۔ اس پر میں نے بھروسہ کیا اور ہر معاملہ میں اس کی طرف رجوع کرتا ہوں۔ “ (88 : 11) اور یہ بات حضرت یعقوب (علیہ السلام) نے ان الفاظ میں کی قَالَ إِنَّمَا أَشْكُو بَثِّي وَحُزْنِي إِلَى اللَّهِ وَأَعْلَمُ مِنَ اللَّهِ مَا لا تَعْلَمُونَ ” اس نے کہا میں اپنی پریشانی اور اپنے غم کی فریاد اللہ کے سوا کسی سے نہیں کرتا۔ اور اللہ سے جیسا میں واقف ہوں تم نہیں ہو۔ “ (86 : 12) یوں اور اسی طرح تمام رسولوں کے اقوال اور ان کے اوصاف میں اس گہری ہم آہنگی اور رابطے کے اثرات پائے جاتے ہیں جو ان کی فطرت کا حصہ ہیں اور ان کے ضمیر کی گہرائیوں میں جاگزیں ہیں ۔ اور جن کی وجہ سے ان رسولوں کا کلام متنوع اور مزین ہوتا ہے ۔ مرور زمانہ کے ساتھ ساتھ انسان کے علم ومعرفت نے کچھ ایسی علامات ودریافت کرلی ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ اس کائنات میں قانون وحدت موجود ہے ۔ انسانوں میں اہل علم اس بات کو پاچکے ہیں کہ اس طویل و عریض کائنات میں وحدت وجود اور وحدت حرکت موجود ہے ۔ اور انسان نے اپنے محدود علم کے اندر رہتے ہوئے اس بات کو پالیا ہے کہ اس کائنات کی تعمیر ذرہ سے ہوئی ہے اور یہ کہ ذرہ دراصل (Power) ہے۔ یوں اس ذرے میں مادہ اور قوت دونوں ملے ہوئے ہیں اور علماء طبیعات اس عرصے تک جس نظریہ پر قائم تھے کہ یہ کائنات مادہ اور قوت دو علیحدہ چیزوں سے مرکب ہے وہ اب ختم ہوگیا ہے ۔ اب صحیح بات یہ ہے کہ کائنات ذرے سے مرکب ہے اور ذرے کو اگر توڑ دیا جائے تو یہ ایک عظیم قوت ہے ۔ اور انسان نے اپنے محدود علم کی حد تک اس بات کو پالیا ہے کہ یہ ذرہ اپنے اندرونی نظام کے اندر متحرک ہے اور وہ الیکٹرون اور پروٹون اور نیوٹرون سے مرکب ہے ۔ اور الیکٹرون دونوں کے ارد گرد ہر وقت حرکت کرتے ہیں جو اس ذرے کا قلب ہوتا ہے۔ اور یہ حرکت دائمی ہے اور ہر ذرے میں ہے ۔ اور جس طرح فرید الدین العطار نے کہا ہے کہ ہر ذرہ ایک سورج کے مانند ہے جس کے اردگرد ستارے گھومتے ہیں ۔ جس طرح ہمارے اس سورج کے ارد گرد ستارے گھومتے ہیں اور جو تسلسل کے ساتھ گھوم رہے ہیں۔ اس کائنات کی وحدت اور حرکت کی وحدت اس کائنات کی وہ خصوصیات ہیں جن کو انسان نے پالیا ہے اور یہ دونوں خصوصیات دور سے یہ اشارہ کررہی ہیں کہ اس کائنات کو ایک وسیع تر ضابطہ وحدت اپنے احاطہ میں لئے ہوئے ہے ۔ اس حقیقت تک انسانی علم نے اس حد تک رسائی کرلی ہے جس حد تک انسان کی قوت مشاہدہ اور قوت تجربہ کے لئے رسائی ممکن تھی لیکن خواص کی قوائے موہوبہ اس قدر طاقتور ہوتی ہیں کہ وہ ان تمام حقائق کو ایک لمحہ میں پالیتی ہیں ، اس لئے کہ ان پر یہ حقائق بلا واسطہ القاء ہوتے ہیں اور ان حقائق کی ادراک کی قوت صرف ان خواص کے پاس ہوتی ہے۔ ان خواص نے علمی تجربات کے ذریعہ ان مشاہدات اور خصوصیات کا ادراک نہیں کیا ہوتا ، ان کو ایسی قوت مدرکہ عطا کی گئی ہوتی ہے جو اس حقیقت وحدت کو براہ راست پالیتی ہے ۔ یہ خواص اس واحد ناموس کو براہ راست پاتے ہیں اور یہ ان کا داخلی ، اپنی ذات کے اندر کا عمل ہوتا ہے ۔ وہ اس بات کو پاتے ہیں کہ یہ ایک جیسا القاء لازماً ایک ہی مصدر اور منبع سے صادر شدہ ہے ۔ ان خواص کی ذات میں جو مشینی قوت مدرکہ ودیعت کی جاتی ہے وہ نہایت ہی کامل اور نہایت ہی پیچیدہ ہوتی ہے ۔ اس لئے کہ وہ آن واحد میں اس حقیقت کو پالیتے ہیں ، جس منبع سے ان کو ہدایت ملتی ہے ۔ وہ واحد ہے ، جس ارادے کے تحت وہ روبعمل ہوتے ہیں ۔ وہ اسی منبع سے صادر ہوتا ہے ۔ لہٰذا ان کی یہ مخصوص قوت مدرکہ یا یہ مخصوص آلات مدرکہ بشکل یقین اس حقیقت کو پالیتے ہیں کہ اللہ جل شانہ کی وحد ذات ہی ہے جو اس کائنات میں متصرف حقیقی ہے ۔ میں یہ بات اس بناء نہیں کہہ رہا ہوں کہ جدید سائنس کا یہ دعویٰ ہے کہ اس وحدت کائنات سے متعلق کوئی ایک یا دو حقائق دریافت کرلئے ہیں ۔ اس لئے کہ سائنسی حقائق کبھی ثابت تصور ہوتے ہیں اور کبھی ان کی تردید ہوجاتی ہے اور سائنس جن حقائق تک پہنچتی ہے جو جزوی اور نسبتی حقائق ہوتے ہیں کیونکہ سائنس کے لئے یہ ممکن نہیں ہے کہ وہ کسی مطلق اور اٹل حقیقت تک پہنچ سکے ۔ اس لئے کہ سائنسی نظریات بدلتے رہتے ہیں ۔ بعض نظریات بعض دوسرے نظریات کی تکذیب کرتے ہیں ۔ بعض ایک دوسرے میں تبدیلی کرتے ہیں ۔ میں نے وحدت کائنات اور وحدت حرکت کے بارے میں جو بات کی ہے اس لئے نہیں کہ اس کا اور اس ناموس وحدت کے درمیان کو ئی مماثلت ہے جو ان خواص رسل پر منجانب اللہ القاء ہوا کرتی ہے ۔ میرا منشاء یہ ہرگز نہیں ہے ۔ میرا مقصد ایک دوسرا امر ہے اور وہ یہ ہے کہ ہدایت اور راہنمائی کا قابل اعتماد مصدر اور منبع صرف انبیاء کے ہاں ہے اور انبیاء ہی اس کائنات کے بارے میں واحد ، مکمل ، جامع اور سچائی پر مشتمل تصور دے سکتے ہیں ۔ یہ ممکن ہے کہ جدید علمی اتکشافات نے اس کائنات کی حقیقت عظمیٰ کے بعض پہلو اور بعض خواص پالئے ہوں اور انہوں نے یہ معلوم کرلیا ہو کہ حقیقت کبریٰ صرف ایک ہی ہے لیکن وہی حقیقت ہے جسے رسولوں نے براہ راست اپنی مخصوص قوت مدرک سے پالیا ہوتا ہے اور اس کا احاطہ کرلیا ہوتا ہے اور وہ حقیقت ان رسولوں کی فطری قوت مدرکہ میں براہ راست پوری طرح موجود ہوتی ہے اور یہ کہ رسولوں کا یہ ادراک اپنی جگہ سچائی پر مبنی ہوتا ہے ، چاہے جدید سائنس نے اس کی بعض خصوصیات کو صحیح طرح پالیا ہو یا نہ پایا ہو۔ اس لئے کہ سائنسی نظریات قابل بحث اور قابل نظرثانی ہوتے ہیں ۔ پہلے تو یہ ثابت نہیں ہوتے ۔ ظن وتخمین پر مبنی ہوتے ہیں پھر اگر بظاہر ثابت نظر بھی آئیں تو یہ ثبوت اٹل نہیں ہوتا ۔ اس لئے حقیقت رسالت کو ان نظریات پر قیاس نہیں کیا جاسکتا۔ اس لئے کہ مقیاس ومعیار ہمیشہ ایسا ہونا چاہئے جو ثابت ہو اور اٹل ہو۔ اس لئے ہم لازماً اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ رسالت ہی وہ معیار ومقیاس ہے جس پر ہم جدید سائنسی نظریات کی جانچ پڑتال کریں گے ۔ (بہت طویل ہونے کی وجہ سے اس آیت کی مکمل تفسیر شامل نہیں کی جا سکی۔ ہم اس کے لیے معذرت خواہ ہیں۔ برائے مہربانی اس آیت کی تفسیر کا بقیہ حصہ فی ظلال القرآن جلد سے پڑھیں)
Top