Fi-Zilal-al-Quran - Al-Israa : 88
قُلْ لَّئِنِ اجْتَمَعَتِ الْاِنْسُ وَ الْجِنُّ عَلٰۤى اَنْ یَّاْتُوْا بِمِثْلِ هٰذَا الْقُرْاٰنِ لَا یَاْتُوْنَ بِمِثْلِهٖ وَ لَوْ كَانَ بَعْضُهُمْ لِبَعْضٍ ظَهِیْرًا
قُلْ : کہ دیں لَّئِنِ : اگر اجْتَمَعَتِ : جمع ہوجائیں الْاِنْسُ : تمام انسان وَالْجِنُّ : اور جن عَلٰٓي : پر اَنْ : کہ يَّاْتُوْا : وہ بلائیں بِمِثْلِ : مانند هٰذَا الْقُرْاٰنِ : اس قرآن لَا يَاْتُوْنَ : نہ لاسکیں گے بِمِثْلِهٖ : اس کے مانند وَلَوْ كَانَ : اور اگرچہ ہوجائیں بَعْضُهُمْ : ان کے بعض لِبَعْضٍ : بعض کے لیے ظَهِيْرًا : مددگار
کہہ دو کہ اگر انسان اور جن سب کے سب مل کر اس قرآن جیسی کوئی چیز لانے کی کوشش کریں تو نہ لاسکیں گے ، چاہے وہ سب ایک دوسرے کے مدد گار ہی کیوں نہ ہوں
یہ قرآن محض عبارتوں ، تراکیب اور الفاظ کا نام نہیں ہے کہ جن و انس اس کی نقل کرلیں گے۔ بلکہ یہ قرآن اللہ کی دوسری مخلوقات اور عجائب کی طرح ہے جن کی نقل کوئی انسان نہیں کرسکتا۔ یہ روح کی طرح ایک امر الٰہی ہے نہ انسان روح کے اسرار و رموز اور حقیقت سے واقف نہیں ہیں۔ انسان صرف روح کے اوصاف اور آثار کو جانتے ہیں۔ اسی طرح قرآن کے معانی ، نظریا ات اور اسرار کو پوری طرح انسان نہیں سمجھ سکتے کہ اس جیسے کتاب لے آئیں۔ پھر قرآن ایک مکمل نظام زندگی ہے۔ ایک ایسا نظام جس میں انسانی فطرت کے تمام قوانین اور تمام طور طریقوں کو مدنظر رکھ کر یہ حکم تجویز کیا گیا ہے اور یہ نظام ایسا ہے کہ ہر انسانی سوسائٹی کو ہر طرح کے حالات میں راہنمائی فراہم کرسکتا ہے ۔ چناچہ اس میں ایک فرد کے لئے بھی ہدایت ہے ، ایک مختلف النوع سوسائٹی کے لئے بھی ہدایات ہیں۔ اس میں ایسے قوانین وضع کیے گئے ہیں جو زندگی کے تمام نشیب و فراز اور زندگی کے مختلف النوع مسائل کے مکمل اور تشفی بخش حل تجویز کرتے ہیں اور ہر حل پوری طرح مکمل اور ہمہ گیر ہے۔ ان قوانین کے اندر ایسی جامعیت ہے کہ یہ مختلف النوع اور بدلتی ہوئی زندگی کے مختلف حالات میں سے ہر حال پر ، اس کے قوانین منطق ہوتے ہیں۔ خواہ یہ حالات انفرادی زندگی سے متعلق ہوں یا اجتماعی زندگی سے۔ کیونکہ ان قوانین کا مقنن وہ ذات ہے جو اس انسان کے فطری تقاضوں سے اچھی طرح واقف ہے۔ اور انسان کی مختلف النوع ضروریات سے واقف ہے کیونکہ وہ خود انسان کا خالق ہے۔ رہے وہ قوانین اور طرز ہائے زندگی اور تنظمیات جو انسان نے وضع کیے ہیں تو ان کے اندر انسانی کمزوری کی چھاپ اس وقت بھی موجود ہوتی ہے جس وقت کوئی اسمبلی ان قوانین کو وضع کرتی ہے۔ لہٰذا یہ قوانین وقتی ہوتے ہیں بلکہ وقتی ضروریات کے لئے بھی ناکافی ہوتے ہیں اور وقت کے گزرنے کے ساتھ ساتھ بوسیدہ ہوجاتے ہیں اور انہیں فرسودہ کہا جاتا ہے۔ جب حالات بدلتے ہیں تو پھر ان قوانین کے بدلنے کے لئے واویلا کیا جاتا ہے تاکہ وہ جدید تقاضوں کو پورا کرسکیں۔ قرآن کریم کے اعجاز کا مفہوم صرف ختم قرآن ، فصیح وبلیغ عبارات اور معانی کے حسن ادا تک ہی محدود نہیں ہے بلکہ جن و انس اس جیسی کتاب لانے سے جو عاجز رہے ہیں اس میں یہ بات بھی شامل ہے کہ جن و انس نے آج ایسا انظام حیات تجویز نہیں کیا جو قرآن نے پیش کیا ہے جو ایک مکمل نظام زندگی ہے اور زندگی کے پورے معاملات پر محیط ہے۔
Top