Fi-Zilal-al-Quran - Al-Israa : 89
وَ لَقَدْ صَرَّفْنَا لِلنَّاسِ فِیْ هٰذَا الْقُرْاٰنِ مِنْ كُلِّ مَثَلٍ١٘ فَاَبٰۤى اَكْثَرُ النَّاسِ اِلَّا كُفُوْرًا
وَلَقَدْ صَرَّفْنَا : ور ہم نے طرح طرح سے بیان کیا لِلنَّاسِ : لوگوں کے لیے فِيْ : میں هٰذَا الْقُرْاٰنِ : اس قرآن مِنْ : سے كُلِّ مَثَلٍ : ہر مثال فَاَبٰٓى : پس قبول نہ کیا اَكْثَرُ النَّاسِ : اکثر لوگ اِلَّا : سوائے كُفُوْرًا : ناشکری
ہم نے اس قرآن میں لوگوں کو طرح طرح سے سمجھایا مگر اکثر لوگ انکار ہی پر جمے رہے
ذرا دیکھئے ، یہ لوگ قرآن کریم کی اس معجزانہ شان کو نہ سمجھ سکے اور حضور اکرم ﷺ سے ایسے مادی معجزات اور خوارق عادت امور کے وقع کا مطالبہ کرتے رہے۔ معمولی غور سے معلوم ہوجاتا ہے کہ انکے مطالبات کس قدر طفلانہ ہیں۔ یہ لوگ ذات باری تعالیٰ کے حق میں بھی توہین آمیز رویہ اختیار کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کے بارے میں یہ مطالبہ کرتے وقت انہیں شرم نہیں آتی کہ اللہ خود ہمارے سامنے حاضر ہوجائے۔ حالانکہ قرآن مجید نے جو تعلیمات پیش کی ہیں ، وہ نہایت ہی معقول انداز میں اور پھیر پھیر کر مختلف اسالیب میں اور مختلف مثالوں کی مدد سے ہر درجہ عقل و فکر کے لوگوں کے لئے سہل انداز میں پیش کی ہیں ، اور یہ تعلیمات اور یہ انداز کلام ابدالا باد کے لئے مفید ہے لیکن فابی اکثر الناس الا کفورا (71 : 98) ” مگر اکثر لوگ انکار پر ہی جمے رہے “۔ اور انہوں نے رسول اللہ ﷺ پر ایمان لانے کو اس شرط سے مشروط کردیا کہ آپ ہمارے لئے زمین سے چشمے نکال دیں۔ یا آسمان کا کوئی ٹکڑا ان پر عذاب بن کر گرے جس طرح آپ ہمیں ڈراتے ہیں کہ قیامت کے دن آسمان پھٹ جائے گا یا یہ کہ اللہ اور ملائکہ ہمارے سامنے آکر حاضر ہوجائیں اور اللہ اور فرشتے رسول اللہ ﷺ کے ھق میں ایسی مداخلت کریں۔ جیسی مدافعت قبائل ایک دوسرے کے لئے کرتے ہیں۔ یا یہ کہ نہایت ہی قیمتی دھاتوں سے ان کے لئے ایک محل بنے یا یہ کہ حضور ﷺ ان کے سامنے آسمانوں پر چڑھ جائیں اور وہ دیکھ رہے ہوں اور اس طرح واپس آئیں کہ آپ ﷺ کے ہاتھ میں ایک کتاب ہو جسے وہ پڑھ سکیں۔ یہ تھے ان کے مطالبات۔ ان کے تصور اور قوت مدرکہ کی ناپختگی کا اظہار ان مطالبات سے ظاہر ہے۔ نیز ان مطالبات سے ان کی ہٹ دھرمی بھی اچھی طرح معلوم ہوتی ہے۔ وہ ایک طرف یہ مطالبہ کرتے ہیں آپ کے پاس قیمتی دھاتوں کا بنا ہوا مکان ہونا چاہیے اور دوسری طرف سے یہ مطالبہ کرتے ہیں کہ آپ زمین سے آسمان کی طرف چڑھ جائیں۔ ایک طرف زمین سے چشمے نکالنے کا مطالبہ اور دوسری طرف سے فرشتوں اور خدا تعالیٰ سے یہ مطالبہ کہ وہ ان کے سامنے چلے آئیں۔ ان کے ذہن میں ان تمام باتوں کے درمیان مشترک چیز یہ ہے کہ یہ سب خارق عادت امور ہیں۔ اگر حضرت محمد ﷺ ان شرائط کو پورا کردیں تب وہ ایمان لانے پر غور کرسکتے ہیں اور آپ ﷺ کی تصدیق کرسکتے ہیں۔ لیکن ان لوگوں کی کند ذہنی کا حال یہ ہے کہ ان کو قرآن کی شکل میں آنے والا معجزہ نظر نہیں آتا۔ بار بار کے چیلنج کے باوجود وہ نہ لفظ میں ، نہ نظم و ترکیب میں ، نہ اسلوب میں اور نہ معانی میں اور نہ نظام زندگی کے اعتبار سے اس جیسی کتاب لاسکے ہیں۔ ان کے حواس اور قوائے مدرکہ اس اعجاز کا ادراک تو نہیں کرسکتیں البتہ ایسے معجزات کے یہ لوگ طلبگار ہیں جن کو ان کی حواس دیکھ سکیں۔ معجزات جن کا صدور پیغمبروں کے ہاتھوں ہوا کرتا ہے وہ کسی پیغمبر کی کار ستانی نہیں ہوتی نہ پیغمبر کی یہ ڈیوٹی ہے کہ وہ معجزات دکھاتا پھرے۔ یہ کام تو خداوند کریم کا ہے۔ وہ اپنی حکمت اور اسکیم کے مطابق معجزات بھی ظاہر کرتا ہے۔ نیز کسی رسول کو یہ حق بھی نہیں ہے کہ وہ ان معجزات کا مطالبہ کرے۔ اگر اللہ ان کا صدور نہ چاہتا ہو ، اس کائنات کو تدبیر میں اللہ کی جو حکمتیں کار فرما ہوتی ہیں ان کو جانتے ہوئے اور بارگاہ تعالیٰ میں ادب و احترام کا لحاظ کرتے ہوئے ، رسولوں کی عادت اور آداب یہ ہوتے ہیں کہ وہ کسی قسم کے معجزے کا مطالبہ نہیں کیا کرتے۔
Top