Fi-Zilal-al-Quran - Al-Israa : 53
وَ قُلْ لِّعِبَادِیْ یَقُوْلُوا الَّتِیْ هِیَ اَحْسَنُ١ؕ اِنَّ الشَّیْطٰنَ یَنْزَغُ بَیْنَهُمْ١ؕ اِنَّ الشَّیْطٰنَ كَانَ لِلْاِنْسَانِ عَدُوًّا مُّبِیْنًا
وَقُلْ : اور فرما دیں لِّعِبَادِيْ : میرے بندوں کو يَقُوْلُوا : وہ کہیں الَّتِيْ : وہ جو ھِيَ : وہ اَحْسَنُ : سب سے اچھی اِنَّ : بیشک الشَّيْطٰنَ : شیطان يَنْزَغُ : فساد ڈالتا ہے بَيْنَهُمْ : ان کے درمیان اِنَّ : بیشک الشَّيْطٰنَ : شیطان كَانَ : ہے لِلْاِنْسَانِ : انسان کا عَدُوًّا : دشمن مُّبِيْنًا : کھلا
اور اے نبی ﷺ میرے بندوں (یعنی مومن بندوں) سے کہہ دو کہ زبان سے وہ بات نکالا کری جو بہترین ہو۔ دراصل یہ شیطان ہے جو انسانوں کے درمیان فساد ڈلوانے کی کوشش کرتا ہے۔ حقیت یہ ہے کہ شیطان انسان کا کھلا دشمن ہے
میرے بندوں سے کہہ دو کہ وہ منہ سے وہی بات نکالا کریں جو بہتر ہو۔ ہر حال میں بہترین بات سب سے بڑا ہتھیار ہے۔ کیونکہ بری بات سے لوگوں کا دل دکھتا ہے اور شیطان کا مسلمانوں کے خلاف سب سے بڑا حربہ یہ ہے کہ وہ اہل ایمان کے درمیان رخنہ ڈال دے۔ اور اس سے وہ صرف اس صورت میں بچ سکتے ہیں کہ وہ اچھی بات کریں۔ اگر کوئی بری بات منہ سے نکل جائے تو جواب بھی برا ہوگا۔ یوں نزاع شروع ہوجائے گا اور محبت اور آشتی کی فضا نہ رہے گی۔ سختی پیدا ہوگی ، پھر دشمنی ہوجائے گی۔ جبکہ اچھی بات سے دلوں کے زخم مند مل ہوجاتے ہیں اور دلوں کو خشکی اور سختی میں لچک پیدا ہوتی ہے۔ اور آخر کار اچھے کلمات سے محبت پیدا ہوجاتی ہے۔ ان الشیطن کان للانسان عدوا مبینا (71 : 35) ” حقیقت یہ ہے کہ شیطان انسان کا کھلا دشمن ہے “۔ شیان تاک میں رہتا ہے کہ کسی کے منہ سے بری بات نکلے ، اس کی زبان لغزش کرے اور یوں اسے بغض وعداوت کی آگ بھڑکانے کا موقعہ مل جائے اور بھائی بھائی کا دشمن ہوجائے ، جبکہ بھلی بات سے رخنے بھر جاتے ہیں ، شیان کی راہ بند ہوجاتی ہے اور اسلامی اخوت شیطان کی وسوسہ اندازیوں اور رخنہ پردازیوں سے مامون ہوجاتی ہے۔ اس کے بعد روئے سخن اب انسانوں کے انجام کی طرف مڑ جاتا ہے۔ قیامت کے دن اللہ کی ایک آواز پر یہ لوگ جمع ہوجائیں گے۔ اس دن ان کا نظام خالص اللہ کے ہاتھ میں ہوگا۔ اس دن کوئی شریک نہ ہوگا۔ اللہ چاہے گا تو رحم کرے گا ، چاہے گا تو سزا گا ، اب لوگوں کا انجام اللہ ہی کے فیصلے پر ہوگا۔ اب تو رسول بھی ان کے لئے وکیل نہ ہوگا۔ وہ تو رسول تھا۔
Top