Fi-Zilal-al-Quran - Al-Israa : 49
وَ قَالُوْۤا ءَاِذَا كُنَّا عِظَامًا وَّ رُفَاتًا ءَاِنَّا لَمَبْعُوْثُوْنَ خَلْقًا جَدِیْدًا
وَقَالُوْٓا : اور وہ کہتے ہیں ءَاِذَا : کیا۔ جب كُنَّا : ہم ہوگئے عِظَامًا : ہڈیاں وَّرُفَاتًا : اور ریزہ ریزہ ءَاِنَّا : کیا ہم یقینا لَمَبْعُوْثُوْنَ : پھر جی اٹھیں گے خَلْقًا : پیدائش جَدِيْدًا : نئی
جب ہم صرف ہڈیاں اور خاک ہو کر رہ جائیں گے تو کیا ہم نئے سرے سے پیدا کرکے اٹھائے جائیں گے ؟
بعثت بعد الموت کا مسئلہ رسول اللہ اور مشرکین مکہ کے درمیان بار بار زیر بحث آتا تھا۔ قرآن کریم نے بکثرت ان مباحث کو نقل کیا ہے ، حالانکہ اس کائنات اور موت وحیات کی حقیقت پر غوروفکر کرنے والا ہر آدمی بڑی آسانی کے ساتھ اسے سمجھ سکتا ہے۔ حشر ونشر کی نوعیت کو بسہولت سمجھتا جاسکتا ہے۔ قرآن کریم نے اس پر بار بار روشنی ڈالی ہے ، لیکن جس سادگی اور سلامت اور جس وضاحت کے ساتھ قرآن نے اس مسئلہ کو سمجھایا ، یہ لوگ اسے نہ سمجھ سکے۔ لہٰذا وہ یہی کہتے رہے کہ مرمٹنے کے بعد وہ کیسے دوبارہ اٹھائے جائیں گے۔ وقالوء اذا کنا عظاما ورفاتاء انا لمبعوثون خلقا جدیدا (71 : 94) ” وہ کہتے ہیں کہ جب ہم صرف ہڈیاں اور خاک ہو کر رہ جائیں گے تو کیا ہم نئے سرے سے پیدا کرکے اٹھائے جائیں گے ؟ “ وہ یہ باتیں اس لئے کرتے تھ کہ وہ حیات کی اصل حقیقت کے بارے میں سوچتے ہی نہ تھے کہ وہ ایک وقت بالکل نہ تھے اور اللہ انہیں وجود میں لایا۔ اور یہ کہ ابتدائی تخلیق مشکل ہوتی ہے جبکہ دوربارہ تخلیق کوئی مشکل نہیں ہوتی۔ پھر یہ بھی وہ نہیں سوچتے کہ اللہ کی قدرت لامحدود ہے ، اس کے سامنے مشکل نام کی کوئی چیز نہیں ہے۔ اللہ کی تخلیق کا آلہ اور سبب فقط کن فیکون ہے۔ لہٰذا کوئی چیز سہل یا دشوار انسانوں کے نقطہ نظر سے تو ہوسکتی ہے لیکن اللہ کے نقطہ نظر سے نہیں۔ وہاں تو صرف ارادے کی ضرورت ہوتی ہے۔ ان کے اس تعجب کو یوں رد کردیا گیا۔
Top