Fi-Zilal-al-Quran - Al-Israa : 105
وَ بِالْحَقِّ اَنْزَلْنٰهُ وَ بِالْحَقِّ نَزَلَ١ؕ وَ مَاۤ اَرْسَلْنٰكَ اِلَّا مُبَشِّرًا وَّ نَذِیْرًاۘ
وَبِالْحَقِّ : اور حق کے ساتھ اَنْزَلْنٰهُ : ہم نے اسے نازل کیا وَبِالْحَقِّ : اور سچائی کے ساتھ نَزَلَ : نازل ہوا وَمَآ : اور نہیں اَرْسَلْنٰكَ : ہم نے آپ کو بھیجا اِلَّا : مگر مُبَشِّرًا : خوشخبری دینے والا وَّنَذِيْرًا : اور ڈر سنانے والا
اس قرآن کو ہم نے حق کے ساتھ نازل کیا ہے اور حق ہی کے ساتھ یہ نازل ہوا ہے ، اور اے ہمارے نبی تمہیں ہم نے اس کے سوا اور کسی کام کے لئے نہیں بھیجا کہ (جو مان لے اسے) بشارت دے دو اور (جو نہ مانے اسے ) متنبہ کر دو ۔
نزول قرآن کا مقصد ایک امت کی تشکیل و تربیت تھا۔ پھر اس امت کے لئے ایک نظام حیات کی تشکیل قرآن کے پیش نظر تھی تاکہ یہ امت قرآن اور اس نظام کو لے کر اکناف عالم میں پھیل جائے۔ اور تمام انسانیت کو اس مکمل اور خود کفیل نظام حیات کی تعلیم دے۔ یہی وجہ ہے کہ یہ کتاب متفرق طور پر مختلف اوقات میں اس امت کی واقعی ضرورت کے مطابق اترتی رہی۔ اور ان حالات کے مطابق اس کا نزول ہوتا رہا۔ جن حالات میں اس امت کی دو اول میں تربیت ہو رہی تھی۔ چونکہ مقصد ایک امت کی تربیت تھا۔ اس لئے نزول قرآن بھی متفرق طور پر ایک طویل عرصے تک ہوتا رہا کیونکہ کسی جماعت کی تربیت کے لئے ایک طویل عرصہ درکار ہوتا ہے۔ یہ تربیت عملی تجربات کی شکل میں ایک طویل عرصہ تک ہوتی رہتی ہے۔ چناچہ یہ قرآن آیا اور اس نے اپنے ایک ایک جزئی حکم کو عملی مرحلے میں نافذ کیا اور وہ ایک نظام کی شکل اختیار کر گیا۔ یہ نظام محض نظریاتی قانون سازی کی شکل میں نہیں آیا۔ نہ یہ مجرد فکر اور نظریہ کی شکل میں پیش ہوا ، کیونکہ نظریاتی بحثیں محض ذہنی عیاشی اور محض پڑھنے پڑھانے کے لئے ہوتی ہیں۔ یہ تھی قرآن مجید کے متفرق نزول کی حکمت۔ اور یہی وہ تھی کہ قرآن مجید کو یکبار ایک کتاب کی شکل میں نہیں اتارا گیا۔ قرآن کریم مسلمانوں کی پہلی نسل نے خد اور سول سے اس طرح اخذ کیا کہ یہ ان کے لئے ان کی زندگی کے مختلف مراحل میں عملی ہدایات تھیں۔ جب بھی کوئی امر آیا یا نہی وارد ہوئی ، جب بھی کوئی اخلاقی ادب سکھایا گیا یا کوء فریضہ نازل ہوا تو یہ عمل کے لئے تھا۔ مسلمانوں نے قرآن مجید کو محض پڑھنے پڑھانے اور ذہنی اور نظریاتی اور نفسیاتی عیاشی کے طور پر نہیں لیا۔ جیسا کہ وہ شعر و ادب کو لیتے تھے۔ نہ وہ لہو ولعب کے طور پر اسے لیتے تھے جس طرح وہ قصے کہانیوں کو بطور لہو و لعب استعمال کرتے تھے۔ جب بھی قرآن نازل ہوا انہوں نے اس کی کیفیات کو اپنے اوپر طاری کردیا۔ اپنی روز مرہ کی زندگی میں اسے عملی شکل دے دی۔ ان کا شعور اور ان کا ضمیر اس رنگ میں رنگا گیا۔ قرآن ان کے طرز عمل اور ان کی سرگرمیوں پر چھا گیا۔ ان کے گھروں ، ان کے بازاروں میں قرآن کا دور دورہ ہوگیا اور وہ ان کے لئے ایک نظام زندگی بن گیا اور انہوں نے قرآن کے علاوہ ہر طور طریق کو ترک کردیا۔ جو طور طریقے ان کو وراثت میں جاہلیت سے ملے تھے یا جن کو وہ جانتے تھے یا جن کے مطابق وہ نزول قرآن سے قبل چل رہے تھے۔ حضرت ابن مسعود ؓ فرمتے ہیں کہ ہم میں سے جو شخص دس آیات پڑھ لیتا تھا تو وہ آگے نہ بڑھتا تھا جب تک وہ ان کا مفہوم نہ جان لیتا اور ان پر عمل نہ کرلیتا۔ اللہ تعالیٰ نے یہ قرآن مجید حق پر قائم ہوتے ہوئے اتارا ہے۔ وبالحق انزلنہ (71 : 501) ” اس قرآن کو ہم نے حق کے ساتھ نازل کیا ہے “۔ یہ اس لئے نازل ہوا کہ زمین پر سچائی کو مستقلا ٹھہرا دے اور اس کی بنیادیں مضبوط کردے۔ وبالحق نزل (71 : 501) ” اور یہ قرآن بھی حق کے ساتھ اترا “۔ گویا اس کا مواد بھی سچائی پر مشتمل ہے اور اس کی غرض وغایت بھی سچائی ہے۔ اس کا بنیادی عصر ہی سچائی ہے اور اس کی اہم تعلمات بھی سچائی پر مبنی ہیں۔ وہ حق اور سچائی جو اس کائنات میں کارفرما ناموس قدرت کی شکل مین رواں اور جس حق و سچائی کی قوت پر یہ کائنات قائم ہے ، اور جس سچائی کے ساتھ یہ کائنات اور ارض و سما پیوستہ ہیں اسی کے ساتھ یہ قرآن بھی مربوط ہے۔ یہاں قرآن اسی نظام کائنات (حق) کی طرف اشارہ کر رہا ہے۔ یہی سمجھتاتا ہے کہ یہ قرآن بھی اس عظیم تکوینی سچائی کا ذریعہ ہے۔ پس حق قرآن مجید کا جسم و جان ہے اور حق ہی اس کا بنیادی عنصر اور اس کا مقصود ہے اور رسول مبشر ، نذیر اور مبلغ ہے اس عظیم سچائی کا ، جسے وہ لے کر آیا ہے۔ یہاں رسول اللہ ﷺ کو حکم دیا جاتا ہے کہ وہ اس حق کے ذریعے اپنی قوم کا مقابلہ کریں۔ اور انہیں چھوڑ دیں کہ وہ جو راہ اختیار کرنا چاہیں اختیار کریں۔ اگر چاہیں تو قرآن پر ایمان لائیں ، اگر چاہیں تو نہ لائیں۔ لیکن وہ جو راہ بھی اختیار کریں گے اس راہ کے نتائج و عواقب کے وہ ذمہ دار ہوں گے اور ان لوگوں کے سامنے بطور مثال ان اہل کتاب کو پیش کردیں ، یہودو نصاریٰ کو ان میں سے جنہوں نے قرآن مجید پر ایمان لایا ہے۔ شاید کہ وہ ان کے لئے اچھی مثال کا کام کریں۔ کیونکہ قریش تو امی ہیں۔ ان کہ پاس نہ تو تعلیم ہے۔ اور نہ ان کو اس سے قبل کوئی کتاب دی گئی ہے۔
Top