Dure-Mansoor - Al-An'aam : 75
وَ كَذٰلِكَ نُرِیْۤ اِبْرٰهِیْمَ مَلَكُوْتَ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ وَ لِیَكُوْنَ مِنَ الْمُوْقِنِیْنَ
وَكَذٰلِكَ : اور اسی طرح نُرِيْٓ : ہم دکھانے لگے اِبْرٰهِيْمَ : ابراہیم مَلَكُوْتَ : بادشاہی السَّمٰوٰتِ : آسمانوں (جمع) وَالْاَرْضِ : اور زمین وَلِيَكُوْنَ : اور تاکہ ہوجائے وہ مِنَ : سے الْمُوْقِنِيْنَ : یقین کرنے والے
اور اسی طرح ہم نے ابراہیم کو آسمانوں کی اور زمین کی مخلوقات دکھائیں۔ تاکہ وہ یقین کرنے والوں میں سے ہوجائے۔
(1) امام ابن جریر، ابن منذر، ابن ابی حاتم اور بیہقی نے الاسماء والصفات میں ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ لفظ آیت وکذلک نری ابراہیم ملکوت السموت والارض سے مراد سورج چاند اور ستارے ہیں۔ (2) امام ابن ابی حاتم اور ابو الشیخ نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ انہوں نے لفظ آیت وکذلک نری ابراہیم ملکوت السموت والارض کے بارے میں فرمایا کہ کھول دیا گیا جو آسمانوں اور زمین کے درمیان تھا یہاں تک کہ ان کی طرف دیکھا ایک چٹان اور وہ چٹان ایک مچھلی پر تھی اور یہ مچھلی وہی ہے جس میں سے لوگوں کا کھانا ہے اور مچھلی ایک زنجیر میں تھی اور زنجیر عزت والی انگوٹھی میں ہے۔ (3) امام ابو الشیخ نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ انہوں نے لفظ آیت ملکوت السموت والارض کے بارے میں فرمایا کہ بادشاہ آسمانوں کا اور زمین کا پھر فرمایا ان دونوں کی بادشاہت مراد ہے۔ (4) امام عبد بن حمید، ابن منذر اور ابن ابی حاتم نے عکرمہ (رح) سے روایت کیا کہ انہوں نے لفظ آیت وکذلک نری ابراہیم ملکوت السموت والارض کے بارے میں فرمایا کہ وہ بادشاہ ہے آسمانوں کا اور زمین کا لیکن اس کو نبطی زبان میں ملکوت کہتے ہیں۔ (5) امام آدم بن ابی ایاس، ابن منذر، ابن ابی حاتم، ابو الشیخ اور بیہقی نے الاسماء والصفات میں مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ انہوں نے لفظ آیت وکذلک نری ابراہیم ملکوت السموت والارض کے بارے میں فرمایا کہ یہ نشانیاں تھیں ان کے لئے ساتویں آسمان میں ظاہر کردی گئی اور آپ نے ان (سب) چیزوں کی طرف دیکھا جو ان میں تھیں۔ یہاں تک کہ ان کی نگاہ عرش تک پہنچی۔ پھر ان کے لئے ساتوں زمین کھول دی گئیں۔ ان (سب) چیزوں کی طرف دیکھا جو ان میں تھیں۔ (6) امام سعید بن منصور، ابن منذر اور ابن ابی حاتم نے سدی (رح) سے روایت کیا کہ انہوں نے لفظ آیت وکذلک نری ابراہیم ملکوت السموت والارض کے بارے میں فرمایا کہ ابراہیم ایک چٹان پر کھڑے ہوئے۔ ان کے لئے ساتوں آسمان کھول دیئے گئے۔ یہاں تک کہ انہوں نے عرش کی طرف دیکھا اور جنت میں اپنی منزل کی طرف بھی دیکھا پھر ان کے لئے ساتویں زمین کو کھول دیا گیا یہاں تک کہ انہوں نے ایک چٹان کو دیکھا کہ جس پر زمینیں تھیں۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ کا قول ہے لفظ آیت اتینہ اجرہ فی الدنیا (العنکبوت آیت 37) اللہ تعالیٰ کا دیدار نصیب ہونا (7) امام احمد، ابن جریر، ابن مردویہ اور بیہقی نے الاسماء والصفات میں عبد الرحمن بن عائش حضرمی (رح) سے روایت کیا کہ بعض اصحاب النبی ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا۔ میں نے اپنے رب کو انتہائی حسین صورت میں دیکھا۔ اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا کس بارے میں ملئا اعلی جھگڑ رہے ہیں (یعنی بحث کر رہے ہیں) اے محمد ﷺ میں نے عرض کیا اے میرے رب آپ مجھ سے زیادہ جاننے والے ہیں۔ فرمایا پھر اللہ تعالیٰ نے اپنا ہاتھ میرے دونوں کندھوں کے درمیان رکھ دیا۔ میں نے اس کی ٹھنڈک کو اپنی چھاتی کے درمیان پایا۔ فرمایا پھر میں نے جان لیا جو کچھ آسمانوں اور زمین میں تھا پھر (یہ آیت) تلاوت کی لفظ آیت وکذلک نری ابراہیم ملکوت السموت والارض ولیکون من الموقنین پھر فرمایا اے محمد ﷺ کس بارے میں ملئا اعلی بحث کر رہے ہیں۔ میں نے عرض کیا درجات کفارات کے بارے میں پوچھا کفارات کیا ہیں ؟ میں نے عرض کیا جماعات کی طرف قدموں کو نقل کرنا اور مسجدوں میں مجالس قائم کرنا نمازوں کے بعد اور پورا وضو کرنا جو شخص ایسا کرے گا خیر کے ساتھ زندہ رہے گا اور خیر کے ساتھ مرے گا۔ اور وہ اپنی خطاؤں سے (اس قدر پاک ہوجائے گا) جسے اس دن تھا جب اس کی ماں نے اس کو جنا تھا لیکن درجات تو اس سے مراد سلام کو عام کرنا یعنی (سلام کی کثرت سے کرنا) اور (بھوکوں کو) کھانا کھلانا اور رات کو نماز پڑھنا جب لوگ سو رہے ہوں۔ فرمایا کہہ دیجئے اے اللہ میں آپ سے سوال کرتا ہوں پاکیزہ چیزوں کا۔ برے کاموں کے چھوڑنے کا مسکینوں سے محبت کرنے کا اور یہ کہ مجھ کو بخش دے اور تو مجھ پر رحم فرما۔ اور جب آپ ارادہ کریں فتنہ کا کسی قوم میں تو مجھ کو بغیر فتنہ میں ڈالے فوت کردینا۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تم ان عورتوں کو بھی سکھاؤ بلاشبہ ان کا بھی حق ہے۔ (8) امام ابن مردویہ نے علی بن ابی طالب ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جب ابراہیم نے آسمانوں اور زمین کی بادشاہت کو دیکھا اوپر سے ایک آدمی کو گناہ کرتے ہوئے دیکھا اللہ کے گناہوں میں سے آپ نے بددعا کی تو وہ ہلاک ہوگیا۔ پھر اوپر سے دوسرے شخص کو دیکھا گناہ کرتے ہوئے اللہ کے گناہوں میں سے اس پر بددعا کی تو وہ بھی ہلاک ہوگیا۔ پھر تیسرے آدمی کو گناہ کرتے ہوئے دیکھا اس کے لئے بددعا کرنے لگے تو اللہ تعالیٰ نے ان کی طرف وحی نازل فرمائی اے ابراہیم تو ایسا آدمی ہے جس کی دعا قبول کی جاتی ہے میرے بندوں پر بددعا نہ کرو کیونکہ وہ مجھ سے تین حالتوں میں سے ایک پر ہوں گے۔ یا تو وہ مجھ سے توبہ کرے گا تو میں اس کی توبہ قبول کرلوں گا یا اس کی نسل میں سے ایسی اولاد پیدا کردوں گا جو زمین کو تسبیح وتحمید سے بھر دے گی یا میں اس کو اسی حالت میں موت دے دوں گا۔ اگر میں نے چاہا اس کو معاف کردوں گا اگر چاہا تو اس کو سزا دوں گا۔ (9) امام عبد بن حمید اور ابو الشیخ نے عطاء (رح) سے روایت کیا کہ جب ابراہیم (علیہ السلام) کو آسمانوں کی بادشاہی کے مشاہد کے لئے اٹھایا گیا اور اوپر سے ایک آدمی کو زنا کرتے ہوئے دیکھا تو آپ نے اس پر بددعا کی تو وہ ہلاک ہوگیا پھر اوپر اٹھایا گیا تو اور ایک آدمی کو زنا کرتے ہوئے دیکھا۔ آپ نے اس پر بددعا کی تو وہ ہلاک ہوگیا۔ پھر اور اوپر اٹھایا گیا تو اوپر سے ایک اور بندے کو گناہ کرتے ہوئے دیکھا تو انہوں نے بددعا کرنے کا ارادہ کیا تو ان کے رب نے ان سے فرمایا اے ابراہیم ٹھہر جا۔ تو ایسا بندہ ہے کہ جس کی دعا قبول کی جاتی ہے۔ میرا تعلق اپنے گناہگار بندوں سے تین طرح کا ہے۔ یا وہ میری طرف توبہ کرلے گا تو میں اس کی توبہ قبول کرلوں گا یا میں اس کی صلب سے پاکیزہ اولاد پیدا کروں گا پھر وہ اسی طرح موجود سرکشی کی حالت پر رہے گا۔ اور میں اس کے پیچھے رہوں گا۔ (یعنی اسی حالت میں اس کی روح قبض کر کے اپنی مرضی کے مطابق اس سے سلوک کروں گا) ۔ (10) امام عبد بن حمیدد اور ابن ابی حاتم نے شہر بن حوشب (رح) سے روایت کیا کہ انہوں نے لفظ آیت وکذلک نری ابراہیم ملکوت السموت والارض کے بارے میں فرمایا ابراہیم کو آسمان کی طرف اٹھایا گیا انہوں نے اس سے نیچے دیکھا تو ایک آدمی کو ایک فاحشہ عورت پر دیکھا (جو زنا کر رہا تھا) اس کے لئے بددعا کی تو وہ دھنسا دیا گیا۔ یہاں تک کہ سات آدمیوں پر بددعا کی تو ان کو دھنسایا گیا۔ تو آواز دی گئی اے ابراہیم میرے بندوں سے تین مرتبہ نرمی اختیار کر۔ میرا تعلق اپنے بندے سے تین طرح کا ہوتا ہے۔ یا تو وہ توبہ کرے تو اس کی توبہ قبول کرلوں گا۔ پھر میں اس کی نسل سے مومن اولاد نکالوں گا۔ یا وہ کفر کرتا رہے گا تو اس کو جہنم (کا عذاب) کافی ہے۔ (11) ابو الشیخ، ابن مردویہ اور بیہقی نے شعب میں شہر بن حوشب کے طریق سے معاذ بن جبل ؓ سے روایت کیا کہ نبی ﷺ نے فرمایا جب ابراہیم نے آسمانوں اور زمین کی سلطنت کو دیکھا تو ایک بندے کو گناہ کرتے دیکھا اس پر بددعا کی۔ پھر ایک بندہ کو گناہ کرتے دیکھا اس پر بددعا کی۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی طرف وحی بھیجی اے ابراہیم بیشک تو ایک ایسا بندہ ہے جس کی دعا قبول کی جاتی ہے۔ کسی پر بددعا نہ کر۔ میرا تعلق اپنے بندے سے تین طرح کا ہوتا ہے یا تو وہ اپنی آخری عمر میں توبہ کرلے گا تو میں اس کی توبہ قبول کرلوں گا۔ اور اگر (توبہ) سے منہ پھیر لیتا ہے تو اس کے پیچھے جہنم ہے۔ (12) امام سعید بن منصور، ابن ابی شیبہ، ابن منذر اور ابو الشیخ نے سلمان فارسی ؓ سے روایت کیا کہ جب ابراہیم نے آسمانوں اور زمین کی سلطنت دیکھی تو ایک آدمی کو فاحشہ عورت پر دیکھا اس پر بددعا کی وہ ہلاک ہوگیا۔ پھر دوسرے آدمی کو فاحشہ عورت پر دیکھا اس پر بددعا کی وہ ہلاک ہوگیا۔ پھر تیسرے آدمی کو فاحشہ عورت پر دیکھا اس کے لئے بددعا کا ارادہ کیا تو اللہ تعالیٰ نے ان کی طرف وحی بھیجی۔ اے ابراہیم ٹھہر جا تو ایک ایسا آدمی ہے کہ تیرے لئے دعا قبول کی جاتی ہے اور میرا تعلق اپنے بندے سے تین طرح کا ہے اگر وہ موت سے پہلے توبہ کرلے گا تو میں قبول کرلوں گا۔ یا اس کی نسل میں ایسی اولاد پیدا کرتا ہوں جو مجھ کو یاد کرتی ہے اور اگر وہ (توبہ سے) منہ پھیرتا ہے تو اس کے پیچھے جہنم ہے۔ اللہ تعالیٰ کا اپنے بندوں سے تین طرح کا تعلق (13) امام بیہقی نے شعب میں عطاء (رح) سے روایت کیا کہ جب ابراہیم کو آسمانوں کی سلطنت کی طرف اٹھایا گیا تو ایک آدمی کو زنا کرتے ہوئے دیکھا اس پر بددعا کی تو وہ ہلاک ہوگیا۔ پھر اوپر اٹھایا گیا ایک آدمی کو زنا کرتے دیکھا اس پر بددعا کی تو وہ ہلاک ہوگیا۔ اور پھر اور اوپر اٹھایا گیا ایک آدمی کو زنا کرتے ہوئے دیکھا تو اس پر بددعا کی تو وہ ہلاک ہوگیا۔ پھر ایک آدمی کو زنا کرتے ہوئے دیکھا اس پر بددعا کی تو وہ ہلاک ہوگیا کہا گیا اے ابراہیم ٹھہر جاؤ تو ایک ایسا آدمی ہے کہ تیری دعا قبول کی جاتی ہے۔ اور میرا تعلق اپنے بندوں سے تین طرح کا ہے۔ اگر وہ توبہ کرلے گا تو میں اس کی توبہ قبول کرلوں گا۔ یا اس میں سے نیک اولاد پیدا کروں گا جو میری عبادت کرے گی۔ یا پھر وہ اسی حالت میں سرکشی کرتا رہے گا جس میں وہ ہے تو جہنم اس کے پیچھے ہے۔ (14) امام ابن جریر اور ابن ابی حاتم نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ انہوں نے لفظ آیت وکذلک نری ابراہیم ملکوت السموت والارض ولیکون من الموقنین کے بارے میں فرمایا یعنی آسمانوں اور زمین کو پیدا فرمایا لفظ آیت ولیکون من الموقنین جب ظاہر ہوگیا معاملہ اس کا پوشیدہ بھی اور اس کا اعلانیہ بھی اور کوئی چیز ان پر چھپی نہیں رہی مخلوق کے اعمال میں سے۔ جب گناہ گار لوگوں کو لعنت کرنا شروع کیا تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا تو اس کی طاقت نہیں رکھتا۔ تو اللہ تعالیٰ نے آپ کو ایسی حالت پر لوٹا دیا جس پر آپ پہلے تھے۔ (15) امام عبد بن حمید، ابن منذر، ابن ابی حاتم اور ابو الشیخ نے قتادہ (رح) سے روایت کیا کہ انہوں نے اس آیت کے بارے میں فرمایا کہ ہمیں یہ بتایا گیا کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے ایک جابر اور متکبر حکمران سے بھاگ کر ایک تہہ خانے میں پناہ لی تو آپ کا رزق آپ کے اعضاء میں رکھ دیا گیا جب بھی آپ کوئی انگلی چوستے تھے تو اللہ تعالیٰ اسی سے آپکو خوراک عطا فرما دیتا۔ جب آپ اس تہ خانے سے باہر آئے تو اللہ تعالیٰ نے آپ کو آسمانوں اور زمین کی بادشاہی دکھائی آپ کو سورج چاند ستارے بادل اور بہت بڑی مخلوق کا مشاہدہ کرایا۔ اور زمین کی بادشاہی بھی دکھائی۔ چناچہ آپ نے پہاڑوں سمندروں دریاؤں درختوں ہر قسم کے چوپائے دیگر کیڑے مکوڑے اور عظیم مخلوق کا مشاہدہ فرمایا لفظ آیت فلما جن علیہ الیل راکوکبا پھر جب ان پر رات چھا گئی تو انہوں نے ایک ستارہ دیکھا بیان کیا گیا کہ وہ ستارہ زہراہ تھا وہ عشاء کے وقت طلوع ہوا۔ لفظ آیت قال ھذا ربی فلما افل قال لا احب الافلین فرمایا کہ یہ میرا رب ہے پھر جب وہ ڈوب گیا تو فرمایا میں ڈوب جانے والوں کو پسند نہیں کرتا۔ آپ نے جان لیا کہ آپ کا رب تو دائمی ہے ہمیشہ رہنے والا ہے وہ کبھی بھی زائل اور ختم نہیں ہوگا۔ لفظ آیت لما را القمر بازغا قال ھذا ربی پھر جب چاند کو چمکتے ہوئے دیکھا تو کہا کیا یہ میرا رب ہے ؟ یعنی آپ نے پہلی تخلیق سے مزید بڑی تخلیق کا مشاہدہ کیا۔ تو پھر سوالیہ انداز میں فرمایا کیا یہ میرا رب ہے لیکن پھر جب وہ غروب ہوگیا تو آپ نے فرمایا اگر میرا رب مجھے ہدایت نہ دیتا تو میں بھی ضرور اس قوم سے ہوجاتا۔ پھر جب سورج کو جگمگاتے ہوئے دیکھا یعنی ایک ایسی تخلیق کا مشاہدہ فرمایا جو جسامت کے اعتبار سے پہلی دونوں سے بڑی اور اعظم ہے۔ ان سے بڑھ کر منور اور روشن ہے تو پھر فرمایا کیا یہ میرا رب ہے یہ تو ان سے بڑا ہے۔ (16) امام ابن ابی حاتم نے سدی (رح) سے روایت کیا کہ ابراہیم کے حال میں سے یہ تھا کہ پہلا بادشاہ جو زمین پر اس کے مشرق اور اس کے مغرب کا بادشاہ تھا۔ وہ نمرود بن کنعان بن کوش بن سام بن نوح تھا۔ وہ بادشاہ جن کی پوری زمین پر بادشاہی تھی وہ چار ہیں۔ ابن کنعان سلیمان بن داؤد القرنین بخت نصر دو مسلمان اور دو کافر تھے (ہوا یہ کہ) ایک ستارہ نمرود پر طلوع ہوا جس سے سورج اور چاند کی روشنی چلی گئی۔ وہ اس سے گھبرایا اور اس نے جادو گر کا ہن قافیہ شناس اور جانچ پرکھ کو بلوایا اور ان سے اس بارے میں پوچھا۔ انہوں نے کہا تیرے ملک میں ایک آدمی نکلے گا۔ اس کی وجہ سے تیری اور تیرے ملک کی ہلاکت ہوگی۔ اس کا مسکن بابل کوفہ ہوگا۔ وہ اس بستی سے دوسری بستی کی طرف نکلا مردوں کو نکال دیا اور عورتوں کو چھوڑ دیا اور حکم دیا جو بچہ پیدا ہو اس کو ذبح کریں۔ (اس طرح) اس نے ان کے بچوں کو ذبح کردیا۔ ابراہیم (علیہ السلام) کی ولادت کا واقعہ پھر اس کو شہر میں جانے کو ضرورت پیش آئی۔ آزر ابراہیم کے والد اسے کسی پر اعتبار نہیں تھا۔ اس کو بلایا اور بھیجا اس سے کہا دیکھو اپنی بیوی پر واقع نہ ہوجانا۔ آزرنے کہا میں زیادہ حریص ہوں اپنے دین کے ساتھ جب وہ بستی میں داخل ہوا اپنی بیوی پر نظر پڑی تو اپنے آپ کو قابو نہ کرسکا اور اس پر واقع ہوگیا اس کو لے کر کوفہ اور بصرہ کے درمیان ایک بستی میں چلے گئے جس کو آزر کہا جاتا تھا۔ اس کو ایک تہہ خانہ میں رکھ دیا۔ اس کے کھانے اور دوسری ضروریات کی نگہداشت کرتا رہتا تھا۔ بادشاہ پر جب معاملہ لمبا ہوگیا تو اس نے کہا جادوگر کی بات جھوٹوں میں ہے۔ لوٹ جاؤ اپنے شہروں کو سب لوگ (اپنے گھروں کو) لوٹ آئے اور ابراہیم ولادت باسعادت ہوئی اور آپ اتنی تیزی سے جوان ہوئے گویا ایک دن ایک ہفتہ کے برابر ایک ہفتہ ایک ماہ کے برابر ہے۔ اس کی جوانی سے سرعت سے بادشاہ اس بات کو بھول گیا ابراہیم بڑے ہوگئے اور ان کے اور ان کے والدین کے علاوہ کوئی مخلوق نہیں دیکھی تھی۔ ابراہیم کے والد نے کہا اپنے ساتھیوں سے۔ میرا ایک بیٹا ہے میں نے اس کو چھپایا ہے۔ تو کیا تم اس پر بادشاہ کو خوف زدہ کرو گے، کہ میں اس کو (یعنی اپنے بیٹے کو) لے آؤں انہوں نے کہا اسے کوئی خطرہ نہیں ہوگا۔ وہ گیا اور اس کو باہر نکال لایا۔ جب لڑکا تہہ خانہ سے نکلا تو دیکھا چوپاؤں کو (دوسرے) جانوروں کو اور مخلوق کو تو اس نے اپنے باپ سے پوچھنا شروع کیا اور کہتا رہا یہ کیا ہے تو وہ اس کو بتاتا اونٹ کے بارے میں کہ وہ اونٹ ہے اور گائے کے بارے میں کہ وہ گائے ہے۔ اور گھوڑے کے بارے میں کہ وہ گھوڑا ہے۔ اور بکری کے بارے میں کہ وہ بکری ہے۔ پھر اس نے کہا کہ ان (ساری مخلوق) کے لئے ضروری ہے کہ ان کا کوئی پالنے والا ہو۔ تہہ خانہ سے جب نکلے تو سورج غروب ہوچکا تھا اور آپ نے اپنا سر آسمان کی طرف اٹھایا تو اچانک وہ ایک مشتری (ستارہ) تھا فرمایا یہ میرا رب ہے۔ کچھ دیر بعد وہ غائب ہوگیا۔ تو فرمایا میں ایسے کو پسند نہیں کرتا جو غائب ہوجاتا ہے۔ ابن عباس ؓ نے فرمایا مہینہ کے آخر میں تشریف لائے۔ اس لئے چاند نہیں دکھائی دیا ستارہ سے پہلے۔ جب آخری رات ہوئی چاند کو چمکتا ہوا دیکھا وہ طلوع ہوچکا تھا۔ فرمایا یہ میرا رب ہے۔ جب وہ چھپ گیا (اور) غائب ہوگیا لفظ آیت قال لئن لم یھدنی ربی لا کونن من القوم الضالین پھر جب صبح کو سورج چمکتا ہوا دیکھا تو فرمایا لفظ آیت قال ھذا ربی ھذا اکبر اور فرمایا لفظ آیت فلما افلت قال یقوم انی بری مما تشرکون اللہ تعالیٰ نے ان سے فرمایا تو اسلام لے آیا فرمایا میں فرمانبردار ہوگا رب العالمین کے لئے۔ ابراہیم نے اپنی قوم کو بلایا اور انکو ڈرانا شروع کیا اور ان کے والد بتوں کو بناتے اور اپنی اولاد کو دیتے تھے تو وہ ان کو بیچ دیتے تھے۔ ان کو بھی ایک بت دیا تو انہوں نے آواز لگائی کون اس کو خریدے گا جو نہ نقصان دے سکتا ہے اور نہ نفع دے سکتا ہے۔ ان کے بھائی اپنے بتوں کو بیچ کر واپس لوٹتے تھے۔ ابراہیم اپنے بتوں کو اپنی اصلی حالت میں واپس لے آتے۔ پھر اپنے باپ کو حق کی دعوت دی اور فرمایا لفظ آیت یابت لم تعبد ما لا یسمع ولا یبصر ولا یغنی عنک شیئا پھر ابراہیم بت خانہ کی طرف لوٹے اچانک وہ بت بڑے کمرے میں تھے۔ کمرے کے دروازے کے سامنے بڑا بت تھا اس کی ایک جانب کی طرف اس سے چھوٹا بت تھا اس کے بعض بت بعض کی جانب تھے۔ ہر بت اس میں چھوٹے بت کے ساتھ ملا ہوا تھا۔ یہاں تک کہ بڑے ہال کے دروازہ کو پہنچتے تھے۔ اچانک انہوں نے ایک کھانا اپنے معبودوں کے آگے رکھ دیا اور کہا جب ہم لوٹیں گے تو ہمارے خدا اپنے کھانے اور اپنے پینے سے رک چکے ہوں گے (یعنی کھاچکے ہوں گے) جب ان کی طرف ابراہیم نے دیکھا اور جو ان بتوں کے آگے تھا کھانے میں سے فرمایا کیا تم نہیں کھاتے ہو۔ جب انہوں نے جواب نہ دیا تو فرمایا تمہیں کیا ہوا کہ تم بولتے نہیں۔ پھر ابراہیم اپنی قوم کے پاس آئے اور ان کو (توحید کی طرف) بلایا آپ اپنی قوم کو دعوت دیتے رہے اور ڈراتے رہے ان لوگوں نے ان کو ایک گھر میں بند کردیا۔ اور ان کے لئے لکڑیاں جمع کیں۔ یہاں تک کہ ایک مریض عورت یہ کہتی تھی اگر اللہ نے مجھے عافیت دی تو میں ابراہیم کے لئے ضرور لکڑیاں جمع کروں گی جب انہوں نے جمع کرلیں اور لکڑیوں کی کثرت ہوگئی یہاں تک کہ اگر ایک پرندہ اوپر سے گزرے تو وہ جل جائے شعلوں کی شدت اس کی بھڑک اور اس کی گرمی سے۔ اب انہوں نے ان کو ڈالنے کا ارادہ کیا۔ تو ان کو ایک عمارت کی چوٹی پر لے گئے۔ ابراہیم نے اپنا سر آسمان کی طرف اٹھایا تو آسمان پہاڑ اور فرشتوں نے کہا اے ہمارے رب ابراہیم تیری وجہ سے جلائے جا رہے ہیں۔ اللہ نے فرمایا میں اس کو زیادہ جانتا ہوں۔ اگر وہ تم کو پکارے تو اس کی مدد کرو اور ابراہیم نے فرمایا جب انہوں نے آسمان کی طرف سر اٹھایا اے اللہ تو اکیلا آسمان میں اور میں اکیلا ہوں زمین میں میرے علاوہ کوئی تیری عبادت نہیں کرتا۔ اللہ میرے لئے کافی ہے اور بہترین کارساز ہے۔ انہوں نے ان کو آگ میں ڈال دیا۔ اللہ تعالیٰ نے آواز دی اور فرمایا لفظ آیت ینار کونی بردا وسلم ا علی ابراہیم اے آگ تو ٹھنڈی اور سلامتی والی ہوجا ابراہیم پر اور جبرئیل وہی آواز دینے والے تھے۔ ابن عباس ؓ نے فرمایا اگر ٹھنڈک پیچھے سلامتی نہ ہوتی تو ابراہیم سردی سے مرجاتے اور زمین پر کوئی آگ باقی نہیں رہی مگر وہ بجھ گئی میں نے گمان کیا کہ اللہ کی فرمانبرداری ہوگئی جب آگ بجھ گئی تو لوگوں نے ابراہیم کی طرف دیکھا اچانک (زندہ ہے) اور ایک دوسرا آدمی اس کے ساتھ ہے۔ اور ابراہیم کا سر اس کی گود میں ہے۔ اس کی پیشانی سے پسینہ پونچھ رہا ہے۔ اور ذکر کیا گیا کہ یہ آدمی سائے کا فرشتہ تھا۔ اللہ تعالیٰ نے آگ کو اتارا تاکہ اس کے ذریعہ آدم کے بیٹے نفع اٹھائے لوگوں نے ابراہیم کو نکالا اور ان کو بادشاہ کے پاس لے گئے۔ اس سے پہلے اس کے پاس جانا نہیں ہوا تھا اور اس سے بات کی۔ (17) امام ابو الشیخ نے عظمۃ میں سدی (رح) سے روایت کیا کہ لفظ آیت رای کوکبا میں کوکب سے مراد ہے مشتری ستارہ۔ اور وہ مغرب کے وقت قبلہ کی طرف طلوع ہوتا ہے۔ (18) امام ابن منذر، ابن ابی حاتم اور ابو الشیخ نے زید بن علی (رح) سے روایت کیا کہ لفظ آیت رای کوکبا میں کوکب سے مراد زہرہ ستارہ ہے۔ (19) امام ابن ابی حاتم نے سعید بن جبیر (رح) سے روایت کیا کہ لفظ آیت فلما افل ای ذھب یعنی وہ چلا گیا۔ (20) امام طستی نے ابن عباس ؓ سے روایت نقل کیا کہ نافع بن ازرق (رح) نے ابن عباس ؓ سے پوچھا کہ مجھے اللہ تعالیٰ کے اس قول لفظ آیت فلما افلت کے بارے میں بتایئے فرمایا جب سورج آسمان کے وسط سے زائل ہوگیا۔ عرض کیا کیا عرب کے لوگ اس معنی کو جانتے ہیں فرمایا ہاں کیا تو نے کعب ابن مالک انصاری کو نہیں سنا۔ اور وہ نبی ﷺ کا مرثیہ کہتے ہوئے کہتا ہے، فتغیر القمر المنسیر لفقدہ والشمس قد کسفت وکاوت تافل ترجمہ : چمکتا ہوا چاند اپنے غروب ہونے کے سبب متغیر ہوگیا اور سورج گرہن زدہ ہوا اور زائل ہونے کے قریب ہوگیا۔ پھر پوچھا کہ مجھے اللہ تعالیٰ کے اس قول لفظ آیت حنیفا کے بارے میں بتائیے فرمایا خالص دین پھر پوچھا کیا عرب کے لوگ اس معنی کو جانتے ہیں فرمایا ہاں کیا تو نے حمزہ بن عبد المطلب کو یہ کہتے ہوئے نہیں سنا حمدت اللہ حین ھدی فوادی الی الاسلام والدین الحنیف ترجمہ : میں اس وقت اللہ تعالیٰ کی حمد و ستائش بیان کی جب اس نے میرے دل کو اسلام اور خالص دین کی طرف رہنمائی فرمائی۔ اور فرمایا کہ ایک اور آدمی نے بنو عبد المطلب اور ان کی فضیلت کو یاد کرتے ہوئے کہتا ہے اقیمولنا دینا حنیفا فانتھوا لنا غایۃ قد نھتدی بالذوائب ترجمہ : تم ہمارے لئے خالص دین قائم کرو پس تم ہماری منزل ہو ہم سواریوں سمیت ہدایت پاتے ہیں۔ (21) امام ابو الشیخ نے عطا (رح) سے روایت کیا کہ لفظ آیت حنیفا سے مراد ہے لفظ آیت مخلصا یعنی خالص ہوکر۔ (22) امام مسلم نسائی اور ابن مردویہ نے عیاض بن حمار المجاشعی ؓ سے روایت کیا کہ وہ نبی ﷺ کے خطبہ کے وقت حاضر تھے۔ انہوں نے اس کو سنا کہ آپ فرما رہے تھے۔ بلاشبہ اللہ تعالیٰ نے مجھ کو حکم فرمایا ہے کہ میں تم کو وہ چیز سکھاؤں جو تم اپنے دین میں سے نہیں جانتے ان چیزوں میں سے جو مجھ کو آج کے دن سکھایا گیا۔ ہر قوم کا وہ مال جو تو نے غلام کو دیا وہ اس کے لئے حلال ہے۔ میں نے اپنے سب بندوں کو حنیف پیدا کیا۔ پھر ان کے پاس شیاطین آئے اور ان کو ان کے دین سے پھیر دیا۔ اور ان پر حرام کردیا۔ جو میں نے ان کے لئے حلال کیا تھا اور ان کو حکم دیا کہ میرے ساتھ شریک ٹھہراتے جب تک کہ کوئی دلیل اور حجت نازل نہ کروں۔ (23) امام احمد، مسلم، ابو داؤد، ترمذی، نسائی، ابن ماجہ، ابن مردویہ اور امام بیہقی نے سنن میں علی ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ جب نماز شروع فرماتے تھے تو اللہ اکبر کہتے تھے پھر فرماتے لفظ آیت وجھت وجھی للذی فطر السموت والارض حنیفا وما انا من المشرکین ان صلاتی ونسکی ومحیای ومماتی للہ رب العلمین لا شریک لہ وبذلک امرت انا اول المسلمین
Top