Dure-Mansoor - Al-An'aam : 61
وَ هُوَ الْقَاهِرُ فَوْقَ عِبَادِهٖ وَ یُرْسِلُ عَلَیْكُمْ حَفَظَةً١ؕ حَتّٰۤى اِذَا جَآءَ اَحَدَكُمُ الْمَوْتُ تَوَفَّتْهُ رُسُلُنَا وَ هُمْ لَا یُفَرِّطُوْنَ
وَهُوَ : اور وہی الْقَاهِرُ : غالب فَوْقَ : پر عِبَادِهٖ : اپنے بندے وَيُرْسِلُ : اور بھیجتا ہے عَلَيْكُمْ : تم پر حَفَظَةً : نگہبان حَتّٰٓي : یہانتک کہ اِذَا : جب جَآءَ : آپ پہنچے اَحَدَكُمُ : تم میں سے ایک۔ کسی الْمَوْتُ : موت تَوَفَّتْهُ : قبضہ میں لیتے ہیں اس کو رُسُلُنَا وَهُمْ : ہمارے بھیجے ہوئے (فرشتے) اور وہ لَا يُفَرِّطُوْنَ : نہیں کرتے کوتاہی
اور وہ اپنے بندوں پر غالب ہے اور وہ تمہارے اوپر نگرانی کرنے والے بھیجتا ہے۔ یہاں تک کہ جب تم سے کسی کو موت آجاتی ہے تو اس کو ہمارے فرشتے قبض کرلیتے ہیں، اور وہ کوتاہی نہیں کرتے۔
(1) امام ابن جریر، ابن ابی حاتم اور ابو الشیخ نے سدی (رح) سے روایت کیا کہ انہوں نے لفظ آیت علیکم حفظۃ کے بارے میں فرمایا کہ وہ پیچھے آنے والے فرشتے ہیں جو بندے اور اس کے ہر عمل کی نگرانی کرتے ہیں۔ (2) امام عبد بن حمید، ابن جریر، ابن منذر، ابن ابی حاتم اور ابو الشیخ نے قتادہ (رح) سے روایت کیا کہ انہوں نے لفظ آیت ویرسل علیکم حفظۃ کے بارے میں فرمایا اے ابن آدم اپنے عمل اپنے رزق اور اپنی مدت کی حفاظت تجھ پر لازم ہے۔ کیونکہ جب یہ ختم ہوجائے گی تو تجھے اپنے رب کے سامنے پیش کردیا جائے گا۔ (3) امام ابن ابی شیبہ، ابن جریر، ابن منذر، ابن ابی حاتم اور ابو الشیخ نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ لفظ آیت توفتہ رسلنا یعنی وہ فرشتے جو ملک الموت کے مددگار ہیں۔ (4) امام عبد بن حمید، ابن جریر، ابن منذر، ابن ابی حاتم اور ابو الشیخ نے ابراہیم (رح) سے روایت کیا کہ لفظ آیت توفتہ رسلنا یعنی فرشتے جانوں کو قبض کرتے ہیں پھر ان کو ملک الموت کے جاتا ہے اور دوسرے لفظ میں یوں ہے۔ پھر بعد میں ملک الموت ان سے لے لیتا ہے۔ (5) عبد الرزاق، ابن جریر، اور ابن منذر نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ ملک الموت کے لئے زمین مثل طثت کے کردی گئی وہ جہاں سے چاہتے ہیں لے لیتے ہیں اور ان کے لئے بہت سے مددگار بنا دیئے گئے ہیں جو روحوں کو قبض کرتے ہیں پھر ان میں ملک الموت قبض کرلیتے ہیں۔ (6) عبد الرزاق، ابن جریر اور ابو الشیخ نے عظمۃ میں قتادہ (رح) سے روایت کیا کہ لفظ آیت توفتہ رسلنا کے بارے میں فرمایا کہ ملک الموت کے بھیجے ہوئے (یعنی قاصد) ہوتے ہیں۔ پہلے وہی روحوں کو قبض کرتے ہیں ان کو ملک الموت کے حوالے کردیتے ہیں۔ (7) عبد الرزاق، ابن جریر، ابن منذر نے کلبی (رح) سے روایت کیا ہے ملک الموت وہ ہے جو موت کا والی اور مختار ہے اگر (میت) مومن ہے تو وہ اس کو رحمت کے فرشتوں کو دے دیتا ہے اور اگر کافر ہے تو عذاب کے فرشتوں کو دے دیتا ہے۔ (8) عبد الرزاق، ابن جریر اور ابن منذر نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ نہیں ہیں کوئی بالوں کے گھر میں رہنے والے اور نہ مٹی کے گھر میں رہنے والے مگر ملک الموت ان پر ہر دن دو مرتبہ چکر لگاتا ہے۔ (9) ابن جریر اور ابو الشیخ نے ربیع بن انس (رح) سے روایت کیا کہ ان سے ملک الموت کے بارے میں پوچھا گیا کیا وہ اکیلا ہے کہ سب روحوں کو قبض کرنے کے لئے تو ارشاد فرمایا کیا تو نے اللہ تعالیٰ کا یہ قول بھی نہیں سنا لفظ آیت حتی اذا جاء تھم یتوفونھم (الاعراف آیت 37) اور فرمایا لفظ آیت توفتہ رسلنا وھم لا یفرطون سوائے ملک الموت کے کہ وہ ان سب کے رئیس ہیں اور ان کا ہر قدم مشرق سے مغرب تک ہوتا ہے پوچھا گیا مؤمنین کی روحیں کہاں ہوتی ہیں ؟ فرمایا جنت میں سدرۃ کے پاس۔ (10) ابن جریر اور ابن ابی حاتم نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ لفظ آیت وھم لا تفرطون یعنی وہ (وقت کو) ضائع نہیں کرتے۔ (11) ابن ابی حاتم نے قیس (رح) سے روایت کیا کہ عثمان بن عفان ؓ ، عبد اللہ بن مسعود ؓ کے پاس تشریف لائے اور فرمایا تم اپنے آپ کو کیسے پاتے ہو ؟ فرمایا لوٹا یا ہوا اپنے حقیقی مولیٰ کی طرف فرمایا تو خوش نصیب ہے (واللہ اعلم)
Top