Dure-Mansoor - Al-An'aam : 160
مَنْ جَآءَ بِالْحَسَنَةِ فَلَهٗ عَشْرُ اَمْثَالِهَا١ۚ وَ مَنْ جَآءَ بِالسَّیِّئَةِ فَلَا یُجْزٰۤى اِلَّا مِثْلَهَا وَ هُمْ لَا یُظْلَمُوْنَ
مَنْ : جو جَآءَ بالْحَسَنَةِ : لائے کوئی نیکی فَلَهٗ : تو اس کے لیے عَشْرُ : دس اَمْثَالِهَا : اس کے برابر وَمَنْ : اور جو جَآءَ بالسَّيِّئَةِ : کوئی برائی لائے فَلَا يُجْزٰٓى : تو نہ بدلہ پائے گا اِلَّا مِثْلَهَا : مگر اس کے برابر وَهُمْ : اور وہ لَا يُظْلَمُوْنَ : نہ ظلم کیے جائیں گے
جو شخص نیک کام کرے سو اسے اس جیسے دس حصے ملیں گے اور جو شخص برائی کا کام کرے تو اسے صرف اس کے برابر ہی سزا ملے گی۔ اور ان لوگوں پر ظلم نہ ہوگا۔
(1) امام عبد بن حمید نے سعید بن جبیر ؓ سے روایت کیا کہ جب یہ آیت لفظ آیت من جآء بالحسنۃ فلہ عشر امثالھا نازل ہوئی تو مسلمانوں میں سے ایک آدمی نے کہا یا رسول اللہ ” لا الہ الا اللہ “ نیکی ہے ؟ آپ نے فرمایا ہاں تمام نیکیوں میں سب سے افضل نیکی ہے۔ (2) امام ابن ابی شیبہ، ابن منذر، ابن ابی حاتم اور ابو نعیم نے حلیہ میں ابن مسعود ؓ سے روایت کیا کہ لفظ آیت من جآء بالحسنۃ سے مراد ہے لا الہ الا اللہ۔ (3) امام ابن منذر نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ لفظ آیت من جآء بالحسنۃ سے مراد ہے لا الہ الا اللہ۔ (4) امام ابو الشیخ نے ابوہریرہ ؓ سے روایت کیا کہ لفظ آیت من جآء بالحسنۃ سے مراد ہے لا الہ الا اللہ۔ (5) امام ابن جریر نے ربیع (رح) سے روایت کیا کہ یہ آیت لفظ آیت من جآء بالحسنۃ فلہ عشر امثالھا نازل ہوئی تو اس وقت ایمان والے ہر مہینے میں سے تین روزے رکھتے تھے اور اپنے مالوں کا دسواں حصہ ادا کرتے تھے۔ رمضان کے روزے اور زکوٰۃ کی فرضیت کا حکم نازل ہوا۔ ہر ماہ تین روزے رکھنا سنت ہے (6) امام احمد، بخاری، مسلم، نسائی، اور ابن حبان نے عبد اللہ بن عمرو بن عاص ؓ سے روایت کیا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو بتایا کہ میں کہتا ہوں اللہ کی قسم میں ضرور دن کو روزہ رکھوں گا اور رات کو ضرور قیام کروں گا۔ جب تک میں زندہ ہوں پھر میں نے آپ کے پوچھنے پر عرض کیا کہ میں نے اسی طرح کہا ہے یا رسول اللہ آپ نے فرمایا تو اس کی طاقت نہیں رکھے گا۔ روزہ رکھو اور کبھی روزہ نہ رکھو رات کو سو جایا کرو اور قیام بھی کرو۔ ہر ماہ تین دن کے روزے رکھو کیونکہ ایک نیکی اس جیسی دس نیکیوں کے ثواب کے برابر ہے اور ہمیشہ روزہ رکھنے کی طرح ہے۔ (7) امام احمد، ترمذی، نسائی، ابن ماجہ، ابن ابی حاتم اور ابن مردویہ نے (اور امام ترمذی نے صحیح کیا ہے) ابوذر ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جو شخص ہر ماہ تین روزے رکھے تو یہ ہمیشہ روزہ رکھتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں اس کی تصدیق کو نازل کرتے ہوئے فرمایا۔ لفظ آیت من جآء بالحسنۃ فلہ عشر امثالھا (گویا) ایک دن دس دنوں کے برابر ہے۔ (8) امام ابن منذر، ابن ابی حاتم اور ابن مردویہ نے ابوذر ؓ سے روایت کیا کہ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ مجھے ایسا عمل سکھا دیجئے جو مجھے جنت کے قریب کردے اور جہنم سے دور کردے۔ آپ نے فرمایا جب تو کوئی برا عمل کرے تو (فورا) نیک عمل کرے۔ کیونکہ ایک نیکی اپنی جیسی دس نیکیوں کے برابر ہے۔ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ لا الہ الا اللہ نیکیوں میں سے ہے فرمایا وہ نیکیوں میں سب سے اچھی نیکی ہے۔ (9) امام ابن ابی حاتم نے ابوہریرہ ؓ سے روایت کیا کہ لفظ آیت من جآء بالحسنۃ فلہ عشر امثالھا کس کے لئے ہے ؟ ہم نے کہا مسلمانوں کے لئے آپ نے فرمایا نہیں اللہ کی قسم وہ تو صرف دیہاتیوں کے لئے ہے اور مہاجرین کے لئے (ایک نیکی کا ثواب) سات سو گنا تک ہے۔ (10) امام ابو الشیخ نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ لفظ آیت من جآء بالحسنۃ فلہ عشر امثالھا یہ دیہاتیوں کے لئے ہے اور مہاجرین کے لئے ایک نیکی کا بدلہ سات سو گناتک ہے۔ (11) امام عبد بن حمید، ابن جریر، ابن منذر، ابن ابی حاتم اور ابن مردویہ نے ابن عمر ؓ سے روایت کیا کہ یہ آیت لفظ آیت من جآء بالحسنۃ فلہ عشر امثالھا دیہاتیوں کے بارے میں نازل ہوئی۔ اور دگنا (اجر ہے) مہاجرین کے لئے اور دوسرے لفظ میں ایک آدمی نے کہا اے ابو عبد الرحمن مہاجرین کے لئے کیا ہے ؟ فرمایا وہ جو اس سے افضل اور اعلیٰ ہے۔ (کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا) لفظ آیت ان اللہ لا یظلم مثقال ذرۃ وان تک حسنۃ یضعفھا ویوت من لدنہ اجرا عظیما اور جب اللہ تعالیٰ کسی چیز کے لئے عظیم فرمادیں تو وہ عظیم ہوتی ہے۔ ایک جمعہ دوسرے جمعہ تک گناہوں کا کفارہ ہے (12) امام احمد نے ابو سعید ابوہریرہ ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جس نے جمعہ کے دن کا غسل کیا اور مسواک کیا اور خوشبو لگائی اگر اس کے پاس ہے اور اچھے کپڑے پہنے۔ پھر وہ باہر نکلا یہاں تک کہ مسجد میں آیا اور لوگوں کی گردنوں کا نہ پھاندا۔ پھر اس نے کچھ رکعتیں پڑھیں جو اللہ نے چاہا پھر خاموش رہا جب امام (خطبہ کے لئے) نکلا اور کوئی بات نہیں کی یہاں تک کہ اپنی نماز سے فارغ ہوگیا۔ یہ عمل اس جمعہ اور اس سے پہلے والے جمعہ کے درمیان تک (سب گناہوں) کا کفارہ ہوگا (یعنی ہفتہ بھر کے گناہ معاف ہوگئے) اور ابوہریرہ ؓ فرمایا کرتے تھے کہ تین دن کے مزید (گناہ معاف ہوں گے) کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ہر نیکی کو (اجر کے لحاظ) سے اس جیسی دس نیکیوں کے برابر قرار دیا ہے۔ (13) امام ابن ابی حاتم نے قتادہ (رح) سے روایت کیا کہ انہوں نے لفظ آیت من جآء بالحسنۃ الایہ کے بارے میں فرمایا کہ ہم کو یہ بات ذکر کی گئی کہ نبی ﷺ فرمایا کرتے تھے جب ایک بندہ کسی نیکی کا ارادہ کرتا ہے پھر کرتا نہیں تو اس کے لئے ایک نیکی لکھی جاتی ہے۔ اور جب کسی برائی کا ارادہ کرتا ہے پھر اس پر عمل کرتا ہے تو اس کے لئے ایک ہی برائی لکھی جاتی ہے۔ (14) امام احمد، بخاری، مسلم، نسائی، ابن مردویہ اور بیہقی نے الاسماء والصفات میں ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ نبی ﷺ کی ان روایات میں سے جو انہوں نے اپنے رب سے روایت کیں کہ جو شخص ایک نیکی کا ارادہ کرے اور پھر اس پر عمل نہیں کیا تو اس کے لئے ایک نیکی لکھی جاتی ہے اور اگر اس پر عمل کرے تو اس کے لئے دس سے لے کر سات سو تک اور اس سے بھی زائد کئی گنا تک لکھی جاتی ہیں۔ اور جس شخص نے برائی کا ارادہ کیا اور اس پر عمل نہیں کیا تو اس کے لئے بھی ایک نیکی لکھی جاتی ہے۔ اور اگر اس پر عمل کرلیا تو ایک ہی گناہ لکھا جاتا ہے یا اللہ تعالیٰ اس کو مٹا دیتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کسی کو ہلاک نہیں کرے گا مگر اسے جو خود ہلاکت کا خواہش مند ہو۔ (15) امام احمد، مسلم، ابن ماجہ، ابن مردویہ، بیہقی نے ابوذر ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں جو شخص ایک نیکی کرے تو اس کے لئے اس جیسی دس نیکیوں کے برابر ثواب ہے اور زیادہ بھی اور جو شخص ایک برائی کرے تو اس کی جزا اس کی مثل ہے یا اس کی مغفرت کردی جائے گی اور جو شخص زمین کے برابر گناہ کرے پھر مجھ سے اس حال میں ملاقات کرے اور وہ میرے ساتھ کسی کو شریک نہ کرتا ہو تو میں اس کے برابر اس کی مغفرت کردوں گا۔ اور جو شخص میری طرف ایک بالشت قریب ہوتا ہے تو میں ایک گز بھر اس کی طرف قریب ہوتا ہوں اور جو شخص میرے پاس چل کر آئے گا میری رحمت اس کی طرف دوڑتے ہوئے آئے گی۔ (16) امام ترمذی نے (اور اس کی تصحیح بھی کی ہے) ابوہریرہ ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں اور ان کا قول سچا ہے جب میرا بندہ ایک نیکی کا ارادہ کرے تو اس کے لئے ایک نیکی لکھ دو ۔ اور جب وہ اس پر عمل کرے تو میں اس کے لئے ایک جیسی دس نیکیاں لکھ دو ۔ اور جب برائی کا ارادہ کرتا ہے تو اس کے لئے کچھ نہ لکھو اور اگر وہ برائی کا ارتکاب کرتا ہے تو اس کے برابر (یعنی ایک ہی گناہ) لکھ دو اور اگر وہ اس ارادے پر عمل نہ کرے تو اس کے لئے ایک نیکی لکھ دو پھر یہ آیت لفظ آیت من جآء بالحسنۃ فلہ عشر امثالھا پڑھی۔ (17) امام ابو یعلی نے انس ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جو شخص ایک نیکی کا ارادہ کرے اور (پھر) اس پر عمل نہ کرے تو اس کے لئے ایک نیکی لکھی جاتی ہے اور اگر اس پر عمل کرے تو اس کے لئے دس نیکیاں لکھی جاتی ہیں۔ اور جو شخص برائی کا ارادہ کرے اور اس پر عمل نہ کرے تو اس کے لئے کوئی چیز نہیں لکھی جاتی۔ اور اگر اس پر عمل کرے تو اس کے لئے ایک ہر برائی لکھی جاتی ہے۔ (18) امام طبرانی نے ابو مالک اشعری ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ایک جمعہ اپنے اور دوسرے جمعہ کے درمیانی ایام میں ہونے والے گناہوں کا کفارہ ہوتا ہے۔ اور تین دن سے زائد کا بھی اس لئے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا لفظ آیت من جآء بالحسنۃ فلہ عشر امثالھا جمعہ کی نماز پڑھنے والے تین طرح کے لوگ ہیں (19) امام ابی حاتم اور ابن مردویہ نے عمرو بن شعیب ؓ سے روایت کیا کہ انہوں نے اپنے باپ دادا سے روایت کیا کہ نبی ﷺ نے فرمایا جمعہ (کی نماز) میں تین قسم کے لوگ حاضر ہوتے ہیں۔ ایک آدمی حاضر ہو کر لغو باتیں کرتا ہے تو اس کے لئے جمعہ سے وہی حصہ ہوتا ہے اور ایک آدمی حاضر ہو کر دعا کرتا ہے۔ اگر اللہ تعالیٰ چاہیں اس کو عطا فرمادیں اور اگر چاہیں تو روک دیں اور ایک آدمی حاضر ہو کر چپ رہتا ہے۔ کسی مسلمان کی گردن نہیں پھاندتا اور کسی کو تکلیف نہیں دیتا تو اس کے لئے اس جمعہ سے لے کر اگلے جمعہ تک کے لئے مزید تین دن کے لئے (سب گناہوں) کا کفارہ ہوجاتا ہے۔ اس وجہ سے کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں لفظ آیت من جآء بالحسنۃ فلہ عشر امثالھا (20) امام ابن مردویہ نے ابو درداء ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جس شخص نے جمعہ کے دن غسل کیا اور خوشبو لگائی اگر اس کو پایا۔ پھر وہ مسجد میں آیا اور کسی کو تکلیف نہ دی اور کسی (کی گردن) کو نہ پھاندا تو اس کے لئے اس جمعہ سے لے کر اگلے جمعہ تک اور مزید تین دن کے لئے (سب گناہوں کا) کفارہ ہے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں لفظ آیت بالحسنۃ فلہ عشر امثالھا (21) امام ابن مردویہ نے عثمان بن ابی العاص ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ایک نیکی اس جیسی دوسری نیکیوں کے برابر ہے۔ (22) امام ابن مردویہ نے عبد اللہ بن عمرو بن العاص ؓ سے روایت کیا کہ مجھ کو رسول اللہ ﷺ نے صیام الدھر کے بدلے میں ہر ماہ میں سے تین دن کے روزے رکھنے کا حکم فرمایا کیونکہ ایک نیکی اس جیسی دس نیکیوں کے برابر ہے۔ (23) امام ابن مردویہ نے علی ؓ سے روایت کیا کہ نبی ﷺ نے فرمایا ہر ماہ میں سے تین دن کے روزے رکھنا (گویا) پورا زمانہ روزے رکھنے کے برابر ہے۔ اور ایک دن کا روزہ دس دنوں کے برابر ہوتا ہے (ثواب کے لحاظ سے) کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا لفظ آیت من جآء بالحسنۃ فلہ عشر امثالھا (24) امام احمد نے ابن مسعود ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے ابن آدم کی ہر نیکی کے ثواب کو اس جیسی دس نیکیوں سے لے کر سو گنا تک بنا دیا ہے سوائے روزہ کے اور (روزہ کے بارے میں فرمایا) کہ روزہ میرے لئے ہے اور میں ہی اس کا اجر دوں گا۔ (25) امام ابن ابی شیبہ، ابو داؤد، ترمذی، نسائی اور ابن حبان نے (اور اس کو صحیح بھی کہا) ابن عمر ؓ سے روایت کیا کہ نبی ﷺ نے فرمایا دو خصلتیں ایسی ہیں کہ کوئی مسلمان بندہ ان کی حفاظت نہیں کرتا مگر یہ کہ وہ جنت میں داخل ہوگا اور دونوں آسان ہیں اور تھوڑی سی ہیں اور ان کے مطابق عمل کرنے والے تھوڑے ہیں ہر نماز کے بعد دس مرتبہ سبحان اللہ کہو اور دس مرتبہ الحمد للہ کہنا اور دس مرتبہ اللہ اکبر کہنا تو یہ زبان سے ادا ہونے میں تو ایک سو پچاس ہیں اور ڈیڑھ ہزار ہیں میزان میں اور اللہ اکبر پڑھنا چونتیس مرتبہ جب بستر پر لیٹے اور الحمد للہ پڑھے تینتیس مرتبہ اور سبحان اللہ پڑھے تینتیس مرتبہ یہ سو مرتبہ ہوں گے زبان پر اور ہزار ہوں گے میزان میں اور کوئی شخص تم میں سے دن میں یا رات میں ڈھائی ہزار گناہ کرے گا ؟ (یعنی ڈھائی ہزار نیکیوں کے مقابلہ میں ڈھائی ہزار گناہ کون کرے گا) (26) امام ابن ابی شیبہ نے ابو عبیدہ بن جراح ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جس شخص نے کسی مریض کی عیادت کی یا کسی تکلیف دینے والی چیز کو راستے سے ہٹا دیا تو اس کی اس نیکی (کا ثواب) اس جیسی دس نیکیوں کے برابر ہوگا۔ قرآن کی تلاوت میں ہر حرف پر دس نیکیاں (27) امام طبرانی نے ابن مسعود ؓ سے روایت کیا کہ قرآن کو سیکھو اور اس کی تلاوت کرو بلاشبہ تم اس میں سے ہر حرف کے بدلہ میں دس نیکیاں دیئے جاؤ گے میں یہ نہیں کہتا کہ الم (کے پڑھنے پر) دس نیکیاں ہیں بلکہ الف لام میم (یہ تین حروف ہیں) تو تیس نیکیاں ہوں گی۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں لفظ آیت من جآء بالحسنۃ فلہ عشر امثالھا (28) امام احمد، حاکم اور بیہقی نے الشعب میں (اور حاکم نے تصحیح بھی کی ہے) خریم بن فاتک ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا لوگ چار قسم کے ہیں اور اعمال چھ قسم کے ہیں۔ دو واجب کرنے والے ہیں مثل بمثل (یعنی عمل کے برابر بدلہ دیا جاتا ہے) اور دس گنا اجر اور سات سو گنا اجر جو شخص کافر ہو کر مرا اس کے لئے جہنم واجب ہوگئی۔ اور جو شخص مومن ہو کر مرا اس کے لئے جنت واجب ہوگئی۔ اور بندہ کوئی برا کام کرتا ہے تو اس کا بدلہ اسی کے برابر ہوگا (یعنی اتنی ہی سزا ملے گی) اور کوئی بندہ نیکی کا ارادہ کرتا ہے اور اس کے لئے ایک نیکی لکھ دی جاتی ہے۔ اور جب بندہ نیک کام کرتا ہے تو اس کے لئے دس نیکیاں لکھی جاتی ہیں۔ اور جو بندہ اللہ کے راستہ میں خرچ کرتا ہے تو اسے سات سو گنا تک اجر دیا جاتا ہے اور لوگ چار قسم کے ہیں وہ لوگ جو دنیا میں خوشحال ہیں آخرت میں بھی خوشحال ہوں گے اور وہ لوگ جو دنیا میں خوشحال ہیں اور آخرت میں تنگدست ہوں گے وہ لوگ جو دنیا میں تنگدست ہیں آخرت میں خوشحال ہوں گے۔ اور وہ لوگ جو دنیا میں اور آخرت میں تنگدست ہوں گے۔ (29) امام ابن مردویہ نے ابوہریرہ ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہر نیکی کہ جس پر کوئی مسلمان بندہ عمل کرتا ہے اس کے بدلے دس سے لے کر سات سو گنا تک نیکیاں اس جو دی جاتی ہیں۔ (30) امام ابن مردویہ نے ابوہریرہ ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جس شخص نے کسی ایک نیکی کا ارادہ کیا اس کے مطابق عمل نہ کیا تو اس کے لئے ایک نیکی لکھ دی جاتی ہے۔ اور اگر اس نے اس پر عمل کرلیا تو اس کے لئے اس جیسی دس نیکیاں سے لے کر سات سو سات گنا تک لکھی جاتی ہیں۔ (31) امام ابن مردویہ نے ابوہریرہ ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا بلاشبہ اللہ تعالیٰ ایک نیکی کے بدلے میں ایک ہزار نیکیاں عطا فرماتے ہیں پھر (یہ آیت) پڑھی لفظ آیت من جآء بالحسنۃ فلہ عشر امثالھا (32) امام ابو داؤد، طیالسی، ابن حبان اور بیہقی نے شعب میں ابو عثمان ؓ سے روایت کیا کہ ہم ایک سفر میں ابوہریرہ کے ساتھ تھے کھانا حاضر ہوا تو ہم نے ابوہریرہ کی طرف بھیج دیا وہ قاصد واپس آیا کہ وہ روزہ سے ہیں کھانا رکھ دیا گیا تاکہ کھایا جائے۔ ابوہریرہ آئے اور کھانا شروع کردیا۔ لوگوں نے اس آدمی کی طرف دیکھا جس کو انہوں نے اس کے پاس بھیجا تھا اس نے کہا تم میری طرف کیوں دیکھتے ہو اللہ کی قسم انہوں نے مجھے کہا تھا کہ وہ روزہ سے ہیں ابوہریرہ نے فرمایا اس نے سچ کہا۔ پھر ابوہریرہ ؓ نے فرمایا میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ صبر کے مہینے کا روزہ اور ہر ماہ میں سے تین دن کے روزے (کا ثواب) ہمیشہ روزے رکھنے (کے برابر ہے) اور میں روزہ رکھنے والا ہوں اللہ تعالیٰ کی جانب سے کئی گنا کرنے کے اعتبار سے اور افطار کرنے والا ہوں اس کی تخفیف کے اعتبار سے اور ابن حبان کا لفظ یہ ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا : جو شخص ہر ماہ تین روزے رکھے تو اس نے گویا پورے ماہ کے روزے رکھے اور میں ہر ماہ میں سے تین روزے رکھتا ہوں۔ اور بلاشبہ میں نے پورے ماہ کے روزے رکھے اور میں نے پالی ہے اس کی تصدیق اللہ کی کتاب میں لفظ آیت من جآء بالحسنۃ فلہ عشر امثالھا (33) امام طیالسی، احمد اور بیہقی نے الشعب میں ازرق بن قیس سے اور انہوں نے بنو تمیم کے ایک آدمی سے روایت کیا کہ حضرت معاویہ کے دروازہ پر تھے اور ہمارے ساتھ ابوذر بھی تھے انہوں نے کہا کہ میں روزہ سے ہوں جب ہم (اندر) داخل ہوئے اور دستر خوان پر رکھے گئے تو ابوذر نے کھانا شروع کردیا۔ میں نے ان کی طرف دیکھا انہوں نے فرمایا تجھ کو کیا ہوا ؟ میں نے کہا آپ نے بتایا کہ آپ روزے سے ہیں فرمایا ہاں کیا تو نے قرآن نہیں پڑھا میں نے کہا (پڑھا ہے) فرمایا شاید تو نے اس میں سے اکیلے (ثواب) کو پڑھا ہے اور دگنا (ثواب کو) نہیں پڑھا۔ یعنی لفظ آیت من جآء بالحسنۃ فلہ عشر امثالھا پھر فرمایا میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ صبر کے مہینہ کے روزے اور ہر مہینہ سے تین روزے رکھنا نیکی ہے۔ پھر فرمایا ہمیشہ روزہ رکھا لے جاتا ہے مغلۃ الصدر کو میں نے عرض کیا مغلۃ الصدر کیا ہے۔ فرمایا شیطان کی غلاظت اور گندگی۔ (34) امام مسلم، ابو داؤد، ترمذی، نسائی، ابن ماجہ اور بیہقی نے ابو ایوب انصاری ؓ سے روایت کیا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا جس شخص نے رمضان کے روزے رکھے اور اس کے پیچھے چھ روزے شوال میں سے رکھ لئے تو وہ صیام الدھر کے برابر ہے (یعنی اس کو ہمیشہ روزہ رکھنے کا ثواب ملے گا) (35) امام احمد اور بیہقی نے جابر بن عبد اللہ ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جس شخص نے رمضان کے روزے اور شوال کے چھ روزے رکھے گویا اس نے سارا سال کے روزے رکھے۔ (36) امام بزار اور بیہقی نے ثوبان ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ایک ماہ کے روزے دس ماہ کے روزوں کے بدلے میں ہیں اور اس کے بعد چھ روزے دو ماہ کے بدلہ میں ہیں اور یہ پورا سال ہوگیا یعنی رمضان کے روزے اور اس کے بعد چھ دن کے روزے۔ (37) امام ابن ماجہ نے ثوبان ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جس شخص نے عید الفطر کے بعد چھ روزے رکھے گویا اس نے سارا سال کے روزے رکھے کیونکہ فرمایا لفظ آیت من جآء بالحسنۃ فلہ عشر امثالھا مدینہ منورہ میں سب سے پہلا خطبہ (38) امام بیہقی نے دلائل میں ابو سلمہ بن عبد الرحمن بن عوف ؓ سے روایت کیا کہ پہلا خطبہ جو رسول اللہ ﷺ نے مدینہ منورہ میں دیا تھا کہ آپ ﷺ کھڑے ہوئے اللہ کی حمد وثناء بیان فرمائی جیسے اس کی شان کے مناسب ہے پھر فرمایا امابعد اے لوگو اپنی جانوں کے لئے آگے بھیجو اور تم یقیناً پالو گے۔ اللہ تعالیٰ تم میں سے ہر ایک کو کئی گنا عطا فرمائے گا۔ پھر وہ ضرور چھوڑ دے گا اپنی بکریوں کو اس حال میں کہ اس کے لئے کوئی چرانے والا نہ ہوگا۔ پھر اس کا رب اس سے ضرور کہے گا کہ اس کے لئے نہ کوئی ترجمان ہوگا اور نہ کوئی دربان ہوگا جو اسے اس کے قریب آنے سے روک دے۔ کیا تیرے پاس میرا رسول نہیں آیا تھا جس نے میرا پیغام تجھ کو پہنچایا تھا اور میں نے تجھ کو مال دیا تھا۔ اور میں نے تجھ کو فضیلت دی تھی سو تو نے اپنی جان لے لئے کیا بھیجا ؟ وہ دیکھے گا دائیں طرف اور بائیں طرف کوئی چیز کو اس کو نظر نہیں آئے گی۔ پھر وہ اپنے آگے دیکھے گا تو سوائے جہنم کے کوئی چیز دکھائی نہیں پڑے گی۔ پس جو یہ استطاعت رکھتا ہے کہ وہ بچا لے اپنے چہرے کو آگ سے اگرچہ کھجور کے ایک ٹکڑے کے ساتھ ہو تو اس کو چاہئے کہ ایسا کرے۔ اور جو شخص اس کو بھی نہ پائے تو اچھے کلمہ کے ساتھ بچا لے کیونکہ اس کے ذریعے بدلہ دیا جائے گا ایک نیکی کا اس جیسی دس نیکیوں سے لے کر سات سو گنا تک اور سلامتی ہو رسول اللہ ﷺ پر اور اللہ کی رحمت ہو اور اس کی برکت ہو۔ پھر رسول اللہ ﷺ نے خطبہ دیتے ہوئے ارشاد فرمایا بلاشبہ سب تعریفیں اللہ کے لئے ہیں میں اس کی حمد بیان کرتا ہوں اور اس سے مدد مانگتا ہوں ہم اللہ کی پناہ مانگتے ہیں۔ اپنی جانوں کے شر سے اور اپنے برے اعمال سے۔ جس کو اللہ تعالیٰ ہدایت دیں اس کو کوئی گمراہ کرنے والا نہیں اور جس کو اللہ تعالیٰ گمراہ کردیں اس کو کوئی ہدایت دینے والا نہیں اور میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں وہ اکیلا ہے اس کا کوئی شریک نہیں بلاشبہ کلام اللہ کی کتاب ہے وہ شخص کامیاب ہوگیا کہ اللہ تعالیٰ نے اس کو مزین کردیا اس کے دل میں، اور اس کو اسلام میں داخل کردیا کفر کے بعد اور اس کے سوا لوگوں کے کلام میں اس کو ترجیح دی اور پسند کیا۔ کیونکہ وہ تمام کلاموں سے زیادہ حسین کلام ہے۔ اور سب سے زیادہ بلاغت والی ہے اللہ تعالیٰ کی محبوب چیزوں میں سے زیادہ پسندیدہ اور محبوب ہے۔ اللہ تعالیٰ کے نزدیک تم میں سے تمام دلوں کے لئے زیادہ پسندیدہ ہے۔ اور نہ اکتا جاؤ اللہ تعالیٰ کی کلام سے اور اس کے ذکر سے اور نہ سخت کرلو اس سے اپنے دلوں کو۔ اس لئے کہ اللہ تعالیٰ جسے پسند فرما لیتا ہے اور چن لیتا ہے تو اسے یہ نام دے دیتا ہے کہ یہ اعمال میں سے پسندیدہ ہیں بندوں میں سے یہ پسندیدہ اور چنا ہوا ہے۔ کلام کے اعتبار سے صالح ہے اور اس میں لوگوں کے لئے حلال اور حرام کا تذکرہ کیا گیا ہے پس تم ایک اللہ کی عبادت کرو اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ بناؤ۔ اور اللہ تعالیٰ سے ڈرو جیسے حق ہے اس سے ڈرنے کا۔ اور اللہ تعالیٰ سے سچی بات کہو جو اپنے مونہوں سے کہتے ہو اور ایک دوسرے کی ہمدردی کیا کرو اللہ کی مدد کے ساتھ آپس میں۔ بلاشبہ اللہ تعالیٰ غصہ فرماتے ہیں اس شخص سے جو اپنے عہد کو توڑدیتا ہے اور سلامتی ہو تم پر اور اللہ کی رحمت اور اس کی برکت ہو۔
Top