Dure-Mansoor - Al-Baqara : 68
قَالُوا ادْعُ لَنَا رَبَّكَ یُبَیِّنْ لَّنَا مَا هِیَ١ؕ قَالَ اِنَّهٗ یَقُوْلُ اِنَّهَا بَقَرَةٌ لَّا فَارِضٌ وَّ لَا بِكْرٌ١ؕ عَوَانٌۢ بَیْنَ ذٰلِكَ١ؕ فَافْعَلُوْا مَا تُؤْمَرُوْنَ
قَالُوْا : انہوں نے کہا ادْعُ ۔ لَنَا : دعاکریں۔ ہمارے لئے رَبَّکَ : اپنا رب يُبَيِّنْ ۔ لَنَا : بتلائے ۔ ہمیں مَا هِيَ : کیسی ہے وہ قَالَ : اس نے کہا اِنَّهٗ : بیشک وہ يَقُوْلُ : فرماتا ہے اِنَّهَابَقَرَةٌ : وہ گائے لَا فَارِضٌ : نہ بوڑھی وَلَا بِكْرٌ : اور نہ چھوٹی عمر عَوَانٌ : جوان بَيْنَ ۔ ذٰلِکَ : درمیان۔ اس فَافْعَلُوْا : پس کرو مَا : جو تُؤْمَرُوْنَ : تمہیں حکم دیاجاتا ہے
وہ کہنے لگے کہ تو اپنے رب سے دعا کر ہمارے لئے بیان کر دے کہ وہ بیل کیسا ہو، موسیٰ نے کہا بیشک اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وہ ایسا بیل ہو جو بوڑھا نہ ہو اور بالکل جوان بھی نہ ہو ان دونوں کے درمیان ہو، سو تم اس پر عمل کرلو جس کا تم کو حکم دیا جا رہا ہے
(1) امام البزار نے ابوہریرہ ؓ سے روایت کیا کہ نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا اگر بنی اسرائیل کوئی معمولی گائے بھی لے لیتے تو ان کو کافی ہوجاتی یا (فرمایا) کہ ان کی طرف سے کافی ہوجاتی۔ (2) حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ نے ارشاد فرمایا اگر بنی اسرائیل یوں نہ کہتے ” وانا انشاء اللہ لمھتدون “ (اور ہم انشاء اللہ ٹھیک پتہ لگالیں گے) تو کبھی ان کو گائے نہ ملتی۔ اگر وہ کوئی گائے بھی لے کر ذبح کرلیتے تو وہ ان کی طرف سے کافی ہوجاتی لیکن انہوں نے سختی اختیار کرلی اللہ تعالیٰ نے بھی ان پر سختی ڈال دی۔ (3) عکرمہ (رح) سے روایت کیا کہ وہ نبی اکرم ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے ارشاد فرمایا اگر بنی اسرائیل کوئی معمولی سی گائے لے لیتے کہ اس کو ذبح کرلیتے تو ان کی طرف سے کافی ہوجاتی لیکن انہوں نے (خود میں) سختی اختیار کی اور اگر وہ لفظ آیت ” وانا انشاء اللہ لمھتدون “ نہ کہتے تو اس (گائے) کو کبھی نہ پاتے۔ (4) ابن جریج (رح) سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا ان کو (یعنی بنی اسرائیل کو) معمولی گائے ذبح کرنے کا حکم دیا گیا تھا لیکن انہوں نے اپنے اوپر سختی کی تو اللہ تعالیٰ نے بھی ان پر سختی فرمائی اور اگر وہ انشاء اللہ کہتے تو قیامت تک ان کے لئے گائے ظاہر نہ ہوتی۔ (5) ابن جریر نے قتادہ (رح) سے روایت کیا کہ ہم کو یہ بات ذکر کی گئی کہ نبی اکرم ﷺ فرمایا کرتے تھے قوم (بنی اسرائیل) کو معمولی گائے (کے ذبح کرنے) کا حکم دیا گیا لیکن انہوں نے اپنی جانوں پر سختی کی تو ان پر بھی سختی کردی گئی اور اس ذات کی قسم جس کے قبضہ میں محمد ﷺ کی جان ہے اگر وہ انشاء اللہ کہتے تو کبھی گائے ظاہر نہ ہوتی۔ (6) حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ اگر (بنی اسرائیل) معمولی گائے لے کر اس کو ذبح کرلیتے تو ان کی طرف سے کافی ہوجاتا لیکن انہوں نے (خود ہی) سختی کی اور موسیٰ (علیہ السلام) کو دشواری میں ڈالا تو اللہ تعالیٰ نے ان پر سختی فرما دی۔ (7) ابن جریر، ابن المنذر اور ابن ابی حاتم نے متعدد طریق سے حضرت ابن عباس ؓ سے اللہ تعالیٰ کے اس قول لفظ آیت ” لا فارض ولا بکر عوان بین ذلک “ کے بارے میں روایت کیا کہ الفارض سے مراد بوڑھی اور البکر سے مراد چھوٹی اور العوان سے مراد آدھی عمر والی۔ (8) امام الطستی نے اپنے مسائل میں حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کہا کہ نافع بن ازرق ؓ نے ان سے پوچھا کہ مجھے اللہ جل شانہ کے اس قول ” لافارض “ کے بارے میں بتلائیے (کہ اس سے کیا مراد ہے) انہوں نے فرمایا کہ اس سے مراد اس گائے سے ہے جو بڑی ہو اور بوڑھی ہو (پھر) عرض کیا گیا عرب لوگ بھی اس معنی سے واقف ہیں فرمایا ہاں کیا تو نے ایک شاعر کو نہیں سنا جو یہ کہتا ہے۔ لعمری قد اعطیت صیفک فارضا نساق الیہ ما تقوم علی رحل ترجمہ : قسم ہے مجھے اپنی عمر کی کہ تحقیق تو نے اپنے مہمان کو بوڑھی گائے دی ہے اس کو تو وہ دی جاتی ہے جو اپنے قدموں پر (کھڑی ہوتی ہے) چلتی ہے۔ پھر عرض کیا کہ اللہ جل شانہ کے اس قول ” صفراء فاقع لونھا “ کے بارے میں بتلائیے فرمایا الفاقع سے مراد خالص پیلا رنگ عرض کیا کیا عرب لوگ بھی اس معنی سے واقف ہیں فرمایا ہاں کیا تو نے لبید بن ربیعہ کا قل نہیں سنا وہ کہتا ہے۔ سدما قلیلا عھدہ بالسیہ من فتحہ بین اصفر فاقع ودفان ترجمہ : اس نے تھوڑا سا اپنے عہد کو اپنے دوست کے ساتھ روکے رکھا گہرے پہلے اور پوشیدہ چیز کے درمیان۔ (9) امام ابن جریر نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ ” الفارض “ سے مراد بڑی گائے اور ” البکر “ سے مراد چھوٹی گائے اور العنوان سے مراد آدھی عمر والی۔ (10) امام عبد بن حمید نے سعید بن جبیر (رح) سے روایت کیا کہ وہ بکر پر خاموش رہنے کو پسند فرماتے تھے (یعنی ٹھہر جانے کو) لفظ آیت ” عوان بین ذلک “ پڑھتے تھے۔ (11) ابن جریر اور ابن ابی حاتم نے حضرت ابن عباس ؓ سے ” عوان بین ذلک “ کے بارے میں روایت کیا کہ بڑی اور چھوٹی کے درمیان ہو کیونکہ وہ زیادہ قوی اور خوبصورت ہوتی ہے۔ (12) ابن جریر اور ابن ابی حاتم نے حضرت ابن عباس ؓ سے لفظ آیت ” صفراء فاقع لونھا “ کے بارے میں روایت کیا کہ اس سے مراد سخت زرد رنگ ہے قریب ہے کہ جس کی زردی میں سے سفیدی نمودار ہوتی ہے۔ (13) امام ابن ابی حاتم نے حضرت ابن عمر ؓ سے روایت کیا کہ ” صفراء “ سے مراد ہے کہ جس کے کھر زرد ہوں اور ” فاقع لونھا “ سے مراد ہے، خالص رنگ والی۔ (14) عبد الرزاق عبد بن حمید، اور ابن جریر نے قتادہ (رح) سے روایت کیا کہ ” فاقع لونھا “ سے مراد ہے صاف رنگ والی اور ” تسر الناظرین “ سے مراد ہے جو دیکھنے والوں کو خوش کرنے والی ہو (اچھی لگتی ہو) ۔ (15) ابن ابی حاتم، طبرانی، الخطیب اور دیلمی نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ جس شخص نے زرد رنگ کا جوتا پہنا وہ برابر خوشی میں رہے گا جب تک اس کو پہنے رہے گا۔ اور اسی لئے اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے۔ لفظ آیت ” صفراء فاقع لونھا تسر النظرین “ میں اشارہ نکلتا ہے۔ (16) سعید بن منصور، عبد بن حمید، ابن جریر نے حسن (رح) سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” صفراء فاقع لونھا “ سے مراد ہے کالا رنگ یعنی گہرا کالا رنگ۔ (17) ابن ابی حاتم نے عکرمہ (رح) سے روایت کیا کہ انہوں نے لفظ آیت ” ان الباقر تشبۃ علینا “ پڑھا ہے۔ (18) عبد بن حمید نے یحییٰ سے انہوں نے یعمر (رح) سے روایت کیا کہ انہوں نے لفظ آیت ” ان الباقر تشبۃ علینا “ پڑھا ہے اور فرمایا بلاشبہ باقر زیادہ ہے بقر سے۔ (19) ابن ابی داؤد نے المصاحف میں اعمش (رح) سے روایت کیا کہ ہماری قرأت میں یوں ہے لفظ آیت ” ان البقر متشابہ “ (20) امام ابن جریر نے ابو العالیہ (رح) سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” انھا بقرۃ لا ذلول “ سے مراد ہے کہ اس سے کام نہ لیا گیا ہو ” تثیر الارض “ یعنی اس سے زمین نہ پھاڑی گئی ہو ” ولا تسقی الحرث “ یعنی اس نے کھیتی میں کام نہ کیا ہو ” مسلمۃ “ یعنی ہر عیب سے سلامت ہو۔ (21) عبد بن حمید، ابن جریر نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” لا ذلول تثیر الارض “ سے مراد ہے کہ اس کو ہل چلانے کے لیے مطیع نہ بنایا گیا ہو ” مسلمۃ “ یعنی وہ شبہ سے سلامت ہو۔ ” لا شیۃ فیہا “ یعنی نہ اس میں سفید داغ ہو اور نہ کالا داغ ہو۔ (22) ابن جریر نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ ” مسلمۃ “ سے مراد ہے کہ اس میں کوئی عیب نہ ہو۔ (23) امام ابن جریر نے عطیہ (رح) سے روایت کیا کہ ” لاشیۃ فیہا “ سے مراد ہے کہ اس کا رنگ ایک ہو اس کے رنگ کے علاوہ دوسرا کوئی رنگ اس میں نہیں ہو۔ (24) عبد بن حمید، ابن جریر نے قتادہ (رح) سے روایت کیا کہ ” لا ذلول “ یعنی کام نے اس کا تابع نہ کیا ہو۔ مسلمۃ یعنی تمام عیو سے صحیح سالم ہو ” لاشیۃ فیہا “ یعنی اس میں سفید داغ نہ ہو ” قالوا الئن جئت بالحق “ کہنے لگے اب آپ نے ہمارے لئے حق کو بیان کیا ہے ” فذبحوھا وما کانوا یفعلون “۔ (25) امام ابن جریر نے محمد بن کعب (رح) سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” فذبحوھا وما کانوا یفعلون “ انہوں نے ذبح کیا اور مہنگی ہونے کی وجہ سے (وہ ذبح کرنے والے نہ تھے) ۔ چالیس سال تک گائے ڈھونڈنا (26) ابن ابی حاتم نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ بنی اسرائیل گائے کو چالیس سال تک ڈھونڈتے رہے یہاں تک کہ انہوں نے یہ گائے ایک آدمی کے پاس پالی اور یہ گائے مالک کو بہت عزیز اور پیاری تھی وہ اس کی زیادہ سے زیادہ قیمت پیش کرتے رہے لیکن وہ لگاتار انکار کرتا رہا۔ یہاں تک کہ انہوں نے اس (گائے) کی کھال کو دیناروں سے بھر کر اس کو دے دی۔ پھر انہوں نے اس سے پوچھا کہ تجھے کس نے قتل کیا ہے اس نے کہا فلاں آدمی نے قتل کیا۔ (27) امام وکیع، ابن ابی حاتم نے حضرت عطا (رح) سے روایت کیا کہ گائے کو ذبح کرنا یا نحر کرنا برابر ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں ” فذبحوھا “ انہوں نے اس کو ذبح کیا۔ (28) وکیع، عبد الرزاق، عبد بن حمید، ابن المنذر، ابن ابی حاتم نے حضرت مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ بنی اسرائیل کے لیے ذبح تھا اور تمہارے لئے نحر ہے۔ پھر یہ پڑھا ” فذبحوھا “ (اور) ” فصل لربک وانحر “۔
Top