Dure-Mansoor - Al-Baqara : 188
وَ لَا تَاْكُلُوْۤا اَمْوَالَكُمْ بَیْنَكُمْ بِالْبَاطِلِ وَ تُدْلُوْا بِهَاۤ اِلَى الْحُكَّامِ لِتَاْكُلُوْا فَرِیْقًا مِّنْ اَمْوَالِ النَّاسِ بِالْاِثْمِ وَ اَنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ۠   ۧ
وَلَا : اور نہ تَاْكُلُوْٓا : کھاؤ اَمْوَالَكُمْ : اپنے مال بَيْنَكُمْ : آپس میں بالْبَاطِلِ : ناحق وَتُدْلُوْا : اور (نہ) پہنچاؤ بِهَآ : اس سے اِلَى الْحُكَّامِ : حاکموں تک لِتَاْكُلُوْا : تاکہ تم کھاؤ فَرِيْقًا : کوئی حصہ مِّنْ : سے اَمْوَالِ : مال النَّاسِ : لوگ بِالْاِثْمِ : گناہ سے وَاَنْتُمْ : اور تم تَعْلَمُوْنَ : جانتے ہو
اور آپس میں ایک دوسرے کے مال باطل ذریعہ سے مت کھاؤ اور نہ لے جاؤ ان کو حاکموں کی طرف تاکہ کھا جاؤ ایک حصہ لوگوں کے مالوں میں سے گناہ کے ساتھ حالانکہ تم جانتے ہو
(1) ابن جریر، ابن المنذر، ابن ابی حاتم نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” ولا تاکلوا اموالکم بینکم بالباطل وتدلوا بھا الی الحکام “ یہ آیت اس آدمی کے بارے میں ہے کہ اس پر کسی کا مال (قرض) ہو اور اس بارے میں اس پر کوئی گناہ بھی نہ ہو (اس لئے) وہ (دوسرے کے) مال کا انکار کرتا ہے اور حکام کی طرف جھگڑا لے جاتا ہے۔ حالانکہ وہ جانتا ہے کہ (دوسرے کا) حق اس پر ہے اور وہ یہ بھی جانتا ہے کہ یہ گناہ ہے، کھانا حرام ہے۔ (2) سعید بن منصور، عبد بن حمید نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” ولا تاکلوا اموالکم بینکم بالباطل وتدلوا بھا الی الحکام “ سے مراد ہے کہ تو جھگڑا نہ کرو اور تو جانتا ہے کہ تو ظالم ہے۔ (3) ابن المنذر نے قتادہ (رح) سے اس آیت کے بارے میں روایت کیا کہ اپنے بھائی کے مال کا جھگڑا حکام کے پاس نہ لے جا اور تو جانتا ہے کہ بلاشبہ تو ہی ظالم ہے اور حاکم کا فیصلہ تیرے لئے کسی چیز کو حلال نہیں کرے گا (بلکہ) وہ تجھ پر حرام ہوگا۔ (4) ابن ابی حاتم نے سعید بن جبیر (رح) سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” ولا تاکلوا اموالکم بینکم بالباطل “ میں باطل سے مراد ہے ظلم ہے اور واقعہ یہ ہے کہ امرء القیس بن عالس عبد ان بن أشوع حضرمی دونوں نے زمین کے بارے میں جھگڑا کیا اور امرء القیس نے قسم اٹھانے کا ارادہ کیا اس بارے میں یہ آیت لفظ آیت ” ولا تاکلوا اموالکم بینکم بالباطل “ نازل ہوئی اور اللہ تعالیٰ کے اس قول لفظ آیت ” لتاکلوا فریقا من اموال الناس بالاثم “ سے مراد ہے ایک جماعت ” وانتم تعلمون “ یعنی تم جانتے ہو کہ تم باطل کا دعوی کر رہے ہو۔ (5) امام مالک، شافعی، ابن ابی شیبہ، بخاری، مسلم نے ام سلمہ ؓ سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا میں ایک بشر ہوں اور تم میرے پاس اپنے جھگڑے لے کر آتے ہو اور شاید کہ بعض تمہارا جو اپنی دلیل پیش کرنے میں دوسرے سے زیادہ تیز ہو پھر میں اس کے لئے فیصلہ کر دوں اس کے مطابق جو میں نے سنا سو جس شخص کے لئے میں کسی چیز کا فیصلہ کروں اس کے بھائی کے حق میں سے تو وہ اس کو ہرگز نہ لے بیشک میں کاٹتا ہوں اس کے لئے ایک ٹکڑا آگ میں سے۔ (6) امام احمد نے ابو حمید الساعدی ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کسی مرد کے لئے یہ حلال نہیں کہ وہ اپنے بھائی کا مال ناحق لے لے اور یہ اس وجہ سے کہ اللہ تعالیٰ نے مسلمان کا مال مسلمان پر حرام قرار دیا ہے۔ (7) ابن جریر، ابن ابی حاتم نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ وہ اس بات کو ناپسند فرماتے تھے کہ ایک آدمی کپڑا بیچتے ہوئے اپنے ساتھی سے کہے اگر تو اس کو ناپسند کرے تو اس کو ایک دینار کے ساتھ واپس کر دے اللہ تعالیٰ نے فرمایا لفظ آیت ” ولا تاکلوا اموالکم بینکم بالباطل “ اور یہ بھی اس آیت کے حکم میں آتا ہے کہ اپنے مال باطل طریقے سے نہ کھاؤ۔ (8) ابن ابی شیبہ نے عبد الرحمن بن عبد رب الکعبہ (رح) سے روایت کیا کہ میں نے عبد اللہ بن عمرو ؓ سے کہا کہ یہ تیرے چچا کا بیٹا ہم کو حکم دیتا ہے کہ ہم اپنا مال آپس میں ناجائز طریقہ پر کھائیں اگرچہ ہم اپنی جانوں کو قتل کریں اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے لفظ آیت ” ولا تاکلوا اموالکم بینکم بالباطل وتدلوا بھا الی الحکام “ (آیت کے آخر تک) انہوں نے اپنے ہاتھوں کو ہلا کر اپنے منہ پر رکھا پھر فرمایا اللہ کی اطاعت میں اس کی اطاعت کر اور اللہ کی نافرمانی میں اس کی نافرمانی کر۔
Top