Dure-Mansoor - Al-Baqara : 164
اِنَّ فِیْ خَلْقِ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ وَ اخْتِلَافِ الَّیْلِ وَ النَّهَارِ وَ الْفُلْكِ الَّتِیْ تَجْرِیْ فِی الْبَحْرِ بِمَا یَنْفَعُ النَّاسَ وَ مَاۤ اَنْزَلَ اللّٰهُ مِنَ السَّمَآءِ مِنْ مَّآءٍ فَاَحْیَا بِهِ الْاَرْضَ بَعْدَ مَوْتِهَا وَ بَثَّ فِیْهَا مِنْ كُلِّ دَآبَّةٍ١۪ وَّ تَصْرِیْفِ الرِّیٰحِ وَ السَّحَابِ الْمُسَخَّرِ بَیْنَ السَّمَآءِ وَ الْاَرْضِ لَاٰیٰتٍ لِّقَوْمٍ یَّعْقِلُوْنَ
اِنَّ : بیشک فِيْ : میں خَلْقِ : پیدائش السَّمٰوٰتِ : آسمانوں وَالْاَرْضِ : اور زمین وَ : اور اخْتِلَافِ : بدلتے رہنا الَّيْلِ : رات وَالنَّهَارِ : اور دن وَالْفُلْكِ : اور کشتی الَّتِىْ : جو کہ تَجْرِيْ : بہتی ہے فِي : میں الْبَحْرِ : سمندر بِمَا : ساتھ جو يَنْفَعُ : نفع دیتی ہے النَّاسَ : لوگ وَمَآ : اور جو کہ اَنْزَلَ : اتارا اللّٰهُ : اللہ مِنَ السَّمَآءِ : آسمان سے مِنْ : سے مَّآءٍ : پانی فَاَحْيَا : پھر زندہ کیا بِهِ : اس سے الْاَرْضَ : زمین بَعْدَ مَوْتِهَا : اس کے مرنے کے بعد وَبَثَّ : اور پھیلائے فِيْهَا : اس میں مِنْ : سے كُلِّ : ہر قسم دَآبَّةٍ : جانور وَّتَصْرِيْفِ : اور بدلنا الرِّيٰحِ : ہوائیں وَالسَّحَابِ : اور بادل الْمُسَخَّرِ : تابع بَيْنَ : درمیان السَّمَآءِ : آسمان وَالْاَرْضِ : اور زمین لَاٰيٰتٍ : نشانیاں لِّقَوْمٍ : لوگوں کے لیے يَّعْقِلُوْنَ : ( جو) عقل والے
بلاشبہ آسمان اور زمین کے پیدا فرمانے میں اور رات و دن کے الٹ پھیر میں اور کشتیوں میں جو کہ چلتی ہیں سمندر میں وہ سامان لے کر جو لوگوں کو نفع دیتا ہے اور جو کچھ نازل فرماتا ہے اللہ نے آسمان سے یعنی پانی پھر زندہ فرمایا اس کے ذریعہ زمین کو اس اس کے مردہ ہوجانے کے بعد اور پھیلا دئیے زمین میں ہر قسم کے چلنے پھرنے والے جانور اور ہواؤں کے گردش کرنے میں اور بادلوں میں جو آسمان و زمین کے درمیان مسخر ہیں ضرور نشانیاں ہیں ان لوگوں کے لئے جو سمجھ رکھتے ہیں۔
آسمان و زمین کی تخلیق میں نشانی قدرت (1) ابن ابی حاتم و ابن مردویہ نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ قریش نے نبی اکرم ﷺ سے کہا کہ آپ اللہ تعالیٰ سے دعا فرما دیں کہ اللہ تعالیٰ ہمارے لئے صفا (پہاڑ) کو سونے کا بنا دے تاکہ ہم اس کے ذریعہ اپنے دشمنوں سے قوت حاصل کریں۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کی طرف وحی بھیجی میں ان کو یہ چیز عطا کروں اور ان کے لئے صفا کو سونے کا بنا دوں گا۔ اور اگر اس کے بعد انہوں نے کفر کیا تو ایسا عذاب دوں گا کہ جہان والوں میں سے کسی کو ایسا عذاب نہیں دوں گا۔ آپ نے اللہ تعالیٰ سے فرمایا اے میرے رب ! مجھ کو اور میری قوم کو ان کے حال پر چھوڑ دیجئے میں ان کو ہر روز بلاتا رہوں گا (پھر) اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نال زفرمائی لفظ آیت ” ان فی خلق السموت والارض واختلاف الیل والنھار والفلک التی تجری فی البحر “ اور وہ کس طرح آپ سے صفا کے بارے میں سوال کرتے ہیں حالانکہ وہ صفا سے بھی زیادہ بڑی بڑی نشانیوں کو دیکھ چکے ہیں۔ (2) عبد بن حمید وابن جریر، سعید بن جبیر (رح) سے روایت کیا کہ قریش نے یہود سے سوال کیا کہ ہم کو بتاؤ جو موسیٰ (علیہ السلام) تمہارے پاس نشانیاں لے کر آئے تھے ؟ انہوں نے ان کو بتایا کہ وہ مادر زاد اندھے کو بینا کردیتے تھے اور برص کی بیامری والے کو ٹھیک کردیتے تھے۔ اور مردوں کو زندہ کردیتے تھے اللہ کے حکم سے۔ قریش نے نبی اکرم ﷺ سے عرض کیا کہ آپ اللہ تعالیٰ سے دعا فرما دیں کہ ہمارے لئے صفا کو سونے کا بنا دے تاکہ ہم اس سے یقین حاصل کریں اور ہم اس کے ذریعہ اپنے دشمنوں میں قوت بھی حاصل کریں نبی اکرم ﷺ نے اپنے رب سے سوال فرمایا تو اللہ تعالیٰ نے ان کی طرف وحی بھیجی کہ میں تم کو یہ چیز عطا کروں گا۔ لیکن اگر اس کے بعد انہوں نے جھٹلایا تو ایسا عذاب ان کو دوں گا کہ جہان والوں میں سے کسی کو ایسا نہ دوں گا۔ آپ نے عرض کیا چھوڑ دیجئے مجھے بھی اور میری قوم کو بھی میں ان کو ہر روز دعوت دیتا رہوں گا (پھر) اللہ تعالیٰ نے یہ آیات نازل فرمائیں لفظ آیت ” ان فی خلق السموات والارض “ (الآیہ) یعنی آسمان اور زمین کو پیدا فرمایا اور رات اور دن کے آنے جانے میں بڑی نشانیاں ہے اس سے کہ میں صفا کو سونے کا بنا دوں۔ نشانی سے عبرت کے لئے عقل کی ضرورت ہے (3) امام وکیع، الفریابی، آدم بن ایاس، سعید بن منصور، ابن جریر، ابن ابی حاتم، ابو الشیخ نے العظمہ میں اور بیہقی نے شعب الایمان میں ابو الضحی (رح) سے روایت کیا کہ جب یہ آیت لفظ آیت ” الہکم الہ واحد “ نازل ہوئی تو مشرکین نے تعجب کیا اور کہنے لگے کہ محمد ﷺ کہتے ہیں لفظ آیت ” الہکم الہ واحد “ تو ہمارے پاس کوئی دلیل لے آئے اگر وہ ہے سچ بولنے والوں میں سے تو اللہ تعالیٰ نے نازل فرمایا لفظ آیت ” ان فی خلق السموات والارض “ (الآیہ) وہ فرماتے ہیں کہ ان آیات میں بھی (نشانیاں ہیں) لفظ آیت ” لایت لقوم یعقلون “ (اس قوم کے لئے جو عقل رکھتی ہے) ۔ (4) ابن جریر، ابن المنذر، ابن ابی حاتم، ابو الشیخ نے عطا (رح) سے روایت کیا کہ نبی اکرم ﷺ پر مدینہ منورہ میں (یہ آیت) نازل ہوئی لفظ آیت ” والہکم الہ واحد، لا الہ الا ھو الرحمن الرحیم “ تو (اس پر) مکہ کے قریش نے کہا ایک معبود لوگوں کے لئے کیسے کافی ہوگا تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائیں۔ لفظ آیت ” ان فی خلق السموت والارض “ (الآیہ) وہ فرماتے ہیں کہ ان آیات میں بھی (نشانیاں ہیں) لفظ آیت ” لایت لقوم یعقلون “ (اس قوم کے لئے جو عقل رکھتی ہے) ۔ (4) ابن جریر، ابن المنذر، ابن ابی حاتم، ابو الشیخ نے عطا (رح) سے روایت کیا کہ نبی اکرم ﷺ پر مدینہ منورہ میں (یہ آیت) نازل ہوئی لفظ آیت ” والھکم الہ واحد، لا الہ الا ھو الرحمن الرحیم “ تو (اس پر) مکہ کے قریش نے کہا ایک معبود لوگوں کے لئے کیسے کافی ہوگا تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائیں۔ لفظ آیت ” ان فی خلق السموت والارض “ سے ” لقوم یعقلون “ تک اس سے انہوں نے جان لیا بیشک وہ ایک ہی خدا ہے اور وہ ہر چیز کا خدا ہے اور ہر چیز کا پیدا کرنے والا ہے۔ وأما قولہ : واختلاف اللیل والنھار۔ (5) ابو الشیخ نے العظمہ میں سلیمان ؓ سے روایت کیا کہ رات پر ایک فرشتہ مقر رہے جس کو شراہیل کہا جاتا ہے جب رات کا وقت قریب آتا ہے تو وہ فرشتہ ایک سیاہ موتی لے کر اس کو مغرب کی جانب لٹکا دیتا ہے جب سورج اس کی طرف دیکھتا ہے تو پہلک جھپکنے سے بھی زیادہ جلدی غائب ہوجاتا ہے اور سورج کو یہ حکم دیا گیا ہے کہ وہ غائب نہ ہو یہاں تک کہ موتی کو نہ دیکھے جب سورج غروب ہوجاتا ہے تو رات آجاتی ہے۔ وہ موتی برابر لٹکا رہتا ہے یہاں تک کہ وہ دوسرے فرشتہ سفید موتی لے کر آتا ہے جس کو برابیل کہتے ہیں وہ طلوع ہونے کی جانب اس کو لٹکا دیتا ہے جب شراہیل مطلع کو دیکھتا ہے تو اس کی طرف وہ موتی لٹکا دیتا ہے اور سورج جب اس سفید موتی کو دیکھتا ہے تو طلوع ہوجاتا ہے اور اس کو یہ حکم کیا گیا ہے کہ طلوع نہ ہو جب تک کہ اس موتی کو نہ دیکھے جب سورج طلوع ہوتا ہے تو دن ہوجاتا ہے وأما قولہ : والفلک التی تجری فی البحر : (6) ابن ابی حاتم نے ابو مالک (رح) سے روایت کیا کہ ” فلک “ سے مراد کشتی ہے۔ وأما قولہ : وبث فیہا من کل دابۃ : (7) ابن ابی حاتم نے سدی (رح) سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” وبث فیہا من کل دابۃ “ سے مراد ہے کہ اس نے مخلوق کو پھیلایا۔ (8) امام حاکم نے حضرت جابر ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ باہر نکلنے کو کم کردو جب پاؤں کی آواز رک جائے (یعنی رات کو جب لوگ چلنا بند کریں) کیونکہ اللہ تعالیٰ رات کو اپنی مخلوق میں سے جس کو چاہتے ہیں پھیلا دیتے ہیں۔ وأما قولہ : وتصریف الریح : (9) عبد بن حمید، ابن جریر، ابن ابی حاتم نے قتادہ (رح) سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” وتصریف الریح “ سے مراد ہے کہ جب (اللہ تعالیٰ ) چاہیں ہواؤں کو بادل کے لئے رحمت بنا دیتا ہے اور رحمت سے پہلے بشارت بنا دیتا ہے اور جب چاہتا ہے ان ہواؤں کو عذاب بنا دیتا ہے اور اس کو بےفائدہ بنا دیتا ہے۔ جو درختوں کو بار دار نہیں کرتی۔ (10) ابن ابی حاتم نے ابی بن کعب ؓ سے روایت کیا کہ قرآن میں ” الریاح “ کا معنی رحمت ہے اور قرآن میں ” الریح “ کا معنی عذاب ہے۔ (11) ابن ابی شیبہ، حاکم اور بیہقی نے شعب الایمان میں ابی بن کعب ؓ سے روایت کیا کہ ہوا کو برانہ ہو کیونکہ وہ رحمن کے سانس سے ہے اس لئے فرمایا لفظ آیت ” وتصریف الریاح والسحاب المسخر “ لیکن تم اس طرح دعا کیا کرو۔ اللہم ان نسئلک من خیر ھذہ الریح وخیر ما فیہا وخیر ما ارسلت بہ ترجمہ : اے اللہ ہم آپ سے اس ہوا کا خیر کا سوال کرتے ہیں اور جو اس میں خیر ہے اور جس خیر کے ساتھ یہ بھیجی گئی ہے ہم اس کا بھی سوال کرتے ہیں۔ ونعوذبک من شرھا وشرما ارسلت بہ ترجمہ : اور ہم آپ سے اس کے شر سے پناہ مانگتے ہیں جس شر کے ساتھ یہ بھیجی گئی ہے۔ (12) ابن ابی حاتم نے عبد اللہ بن شداد بن ھاد (رح) سے روایت کیا کہ ہوا اللہ کی روح میں سے ہے جب تم اس کو دیکھو تو اللہ تعالیٰ سے اس کی خیر کا سوال کرو اور اس کے شر سے اللہ سے پناہ مانگو۔ (13) ابن ابی حاتم نے عبدہ (رح) سے روایت کیا اور وہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ ہوائیں رحمت ہیں اور اس میں سے بعض عذاب بھی ہیں جب تم ہواؤں کی آواز کو سنو تو کہو : اللہم اجعلہا ریاح رحمۃ ولا یجعلھا ریاح عذاب ترجمہ : اے اللہ ہواؤں کو رحمت بنا دے اور ہواؤں کو عذاب نہ بنا۔ (14) ابو الشیخ نے العظمہ میں حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ پانی اور ہوا اللہ تعالیٰ کے لشکروں میں سے دو لشکر ہیں اور ہوا اللہ تعالیٰ کا بڑا لشکر ہے۔ (15) ابو الشیخ نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ ہوا کے دو پر ہیں اور ایک دم ہے۔ (16) ابو عبید ابن ابی الدنیا نے کتاب المطر میں ابن المنذر، ابن ابی حاتم اور ابو الشیخ نے العظمہ میں ابن عمرو ؓ نے فرمایا کہ ہوائیں آٹھ ہیں چار اس میں سے رحمت ہیں اور چار عذاب ہیں رحمت (والی ہوائیں) یہ ہیں ناشرات، مبشرات، مرسلات اور زاریات اور عذاب (والی ہوئیں) یہ ہیں قعیم، صرصر اور یہ دونوں خشکی میں ہوتی ہیں۔ اور عاصف اور قاصف یہ دونوں سمندر میں ہوتی ہیں۔ ہواؤں کی آٹھ قسمیں ہیں (17) ابن ابی الدنیا اور ابو الشیخ نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ ہوائیں آٹھ ہیں۔ چار (باعث) رحمت ہیں اور چار (باعث) عذاب ہیں۔ رحمت (والی ہوئیں) یہ ہیں : منشرات، مبشرات، مرسلات اور رخاء اور عذاب (والی ہوئیں) یہ ہیں عاصف، قاصف اور یہ دونوں سمندر میں ہوتی ہیں اور عقیم اور صرصر یہ دونوں خشکی میں ہوتی ہیں۔ (18) ابو الشیخ نے عیسیٰ بن ابی عیسیٰ خیاط (رح) سے روایت کیا کہ ہم کو یہ بات پہنچی ہے کہ ہوائیں سات ہیں : صبا، دبور، جنوب، شمال، خروق، نکباء اور ریح القائم صبا مشرق سے آتی ہے۔ دبور : مغرب سے آتی ہے۔ جنوب : قبلہ کے بائیں طرف سے آتی ہے۔ شمال : قبلہ کے دائیں طرف سے آتی ہے۔ نکباء صبا اور جنوب کے درمیان ہوتی ہے خروق : شمال اور دبور کے درمیان ہوتی ہے اور ریح القائم مخلوق کے سانس ہیں۔ (19) اب الشیخ نے حضرت حسن (رح) سے روایت کیا کہ ہواؤں کو کعبہ کے اوپر رکھا گیا۔ جب تو ان کے جاننے کا ارادہ کرے تو کعبہ کے دروازہ کی طرف اپنی پیٹھ کی ٹیک لگائے تو شمال تیرے شمال سے ہوگی۔ اور یہ اس طرف سے ہے جس میں پتھر لگا ہوا ہے۔ اور جنوب تیری داہنی طرف سے ہوگی اور یہ بھی اس طرف سے ہے جس میں حجر اسود لگا ہوا ہے۔ اور صبا تیرے سامنے ہوگی اور یہ باب کعبہ کے سامنے سے آتی ہے اور دبور کعبہ شریف کے پیچھے سے آتی ہے۔ (20) ابن ابی حاتم نے حسین بن علی جعفی (رح) سے روایت کیا کہ میں نے اسرائیل بن یونس سے پوچھا کہ ریح (یعنی ہوا) کے یہ نام کیوں ہیں ؟ انہوں نے فرمایا قبلہ کے اوپر ہیں جو قبلہ کے شمال ہے اس کا نام شمال ہے جنوب میں ہے اس کا نام جنوب ہے اور صبا وہ ہے جو کعبہ کے سامنے سے آتی ہے اور دبور وہ ہے جو اس کے پیچھے سے آتی ہے۔ (21) ابن ابی حاتم، ابو الشیخ نے ضمرہ بن حبیب (رح) سے روایت کیا کہ دبور، ریح العربیہ ہے قبول شرقیہ ہے شمال جنوبہ ہے یمان قبلہ ہے اور نکباء چاروں جوانب سے آتی ہے۔ (22) اب الشیخ نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ شمال وہ ہے جو جدی (قطب کے پاس سے ایک ستارہ کا نام ہے) کے درمیان (سے آتی ہے) اور دبور وہ ہے جو سورج کے مغرب سے لے کر سہیل ستارہ تک چلتی ہے۔ (23) ابو الشیخ نے حضرت انس ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جنوب (ہوا) جنت کی ہواؤں میں سے ہے۔ (24) ابن جریر، ابو الشیخ، ابن مردویہ نے ابوہریرہ ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جنوب کی ہوا جنت میں سے ہے اور یہ درختوں کو بار دار کرتی ہے۔ اور اس میں لوگوں کے لئے بہت سے مانفع ہیں اور شمال (ہوا) آگ میں سے نکلتی ہے پھر جنت سے گزرتی ہے پھر اس کو ایک جھونکا جنت میں سے لگتا ہے تو وہ ٹھنڈی ہوجاتی ہے۔ (25) ابن ابنی شیبہ اسحاق بن راہو یہ نے اپنی اپنی سند میں اور ابو الشیخ، البزار اور بخاری نے اپنی تاریخ میں ابوذر ؓ سے روایت کیا ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے جنت میں سات سال کے فاصلہ کے ساتھ ہوا کے بعد ہوا کو پیدا فرمایا اس کے آگے ایک بند دروازہ ہے۔ اور تمہارے پاس ہوا اس دروازہ کے شگاف کے درز میں سے آتی ہے اگر یہ دروازہ کھول دیا جائے تو جو کچھ آسمان اور زمین کے درمیان ہے وہ اڑ جائے اور یہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک أزیب ہے اور تمہارے نزدیک جنوب ہے۔ (26) ابو الشیخ نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ جنوب تمام ہواؤں کی سردار ہے اس کا نام اللہ تعالیٰ کے نزدیک أزیب ہے۔ اور اس کے ساتھ دروازے ہیں اور یہ ہوا ان دروازوں کی دراڑوں میں سے آتی ہے اگر اس میں سے ایک دروازہ کھول دیا جائے تو جو کچھ آسمان و زمین کے درمیان ہے وہ بکھر جائے گا۔ (27) ابو الشیخ نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ شمال (ہوا) زمین کا نمک ہے۔ اگر شمال نہ ہوتی تو زمین بدبودار ہوجاتی۔ (28) عبد اللہ بن احمد بن حنبل نے زوائد الزہد میں ابو الشیخ نے العظمہ میں کعب ؓ سے روایت کیا کہ اگر لوگوں سے تین دن ہوا کو روک دیا جائے تو آسمان و زمین کے درمیان میں جو کچھ ہے بدبودار ہوجائے۔ (29) ابن ابی حاتم نے عبد اللہ بن مبارک (رح) سے روایت کیا کہ ہوا کا ایک پر ہے اور چاند پانی کے غلاف کی طرف پناہ لیتا ہے۔ ہوا کے ٹھہرنے کا مقام (30) ابو الشیخ نے عثمان اعرج (رح) سے روایت کیا کہ ہواؤں کے ٹھہرنے کی جگہیں حاملین عرش فرشتوں کے پاؤں کے نیچے ہیں ہوا پھرتی ہے تو وہ سورج کی گاڑی پر پڑتی ہے اور فرشتے اس کے کھینچنے پر مقرر ہیں پھر وہ سورج کی گاڑی سے سمندر میں واقع ہوتی ہے۔ پھر سمندر میں ہوتی ہے تو پہاڑوں کی چوٹیوں پر واقع ہوتی ہے۔ پھر پہاڑوں کی چوٹیوں سے ابھر کر خشکی میں واقع ہوتی ہے۔ اور شمال (ہوا) جنت عدن سے گزرتی ہے تو وہاں سے اس کی عمدہ خوشبو کو لے لیتی ہے پھر شمال اکیلی سات ستاروں کی کرسی سے مغرب کی طرف آتی ہے دبور اکیلی سورج کے غروب ہونے کی جگہ سے مطلع شمس تک اور سات ستاروں کی کرسی تک پہنچتی ہے یہ ایک دوسرے کی حد میں داخل نہیں ہوتیں۔ (31) امام شافعی، ابن ابی شیبہ، احمد، ابو داؤد، نسائی ابن ماجہ اور بیہقی نے سنن میں حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت کیا کہ مکہ کے راستے میں ہم کو ہوا نے آلیا اور حضرت عمر ؓ حج کی ادائیگی پر تھے ہوا سخت ہوگئی تو حضرت عمر ؓ نے اپنے ساتھیوں سے پوچھا تم کو ہوا کے بارے میں کیا پہنچا ہے ؟ (یعنی ہوا کے بارے میں کوئی ارشاد نبوی ہے) ابوہریرہ ؓ نے فرمایا کہ میں نے عرض کیا میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ ہوا اللہ کی روح ہے یہ رحمت اور عذاب لاتی ہے اس کو برا نہ کہو اور اللہ تعالیٰ سے اس کی خیر کا سوال کرو اور اس کے شر سے پناہ مانگو۔ (32) امام شافعی نے صفوان بن سلیم ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہوا کو برا نہ کہو اور اللہ تعالیٰ سے اس کے شر سے پناہ مانگو۔ (33) بیہقی نے شعب الایمان میں حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ ایک آدمی نے ہوا پر لعنت کی نبی اکرم ﷺ نے اس کو فرمایا ہوا کو لعنت نہ کرو کیونکہ وہ (اللہ کی طرف سے) حکم دی جاتی ہے۔ اور جو آدمی کسی چیز پر لعنت کرتا ہے جو لعنت کی مستحق نہیں ہوتی تو لعنت اسی پر لوٹ آتی ہے۔ (34) امام شافعی، ابو الشیخ، بیہقی نے معرفہ میں حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ جب بھی ہوا چلتی مگر نبی اکرم ﷺ اپنے گھٹنوں کے بل بیٹھ جاتے اور یہ دعا فرماتے : ” اللہم اجعلھا رحمۃ ولا اجعلہا عذابا “ ترجمہ : اے اللہ اس کو رحمت بنا دے اس کو عذاب نہ بنا۔ ” اللہم اجعلھا ریاحا ولا یجعلھا ریحا “ ترجمہ : اے اللہ اس کو رحمت بنا دے اور اس کو عذاب نہ بنا۔ حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا اللہ کی قسم اس کی تفسیر اللہ کی کتاب میں ہے۔ لفظ آیت ” علیہم ریحا صرصرا “ (القمر آیت 19) لفظ آیت ” ارسلنا علیہم الریح العقیم “ (41) (النازعات آیت 41) اور فرمایا : لفظ آیت ” وارسلنا الریح لواقح “ (الحجر آیت 23) (اور) لفظ آیت ” ان یرسل الریاح مبشرت “ (الروم آیت 46) 1: ہم نے ان پر تند ہوا بھیجی 2: ہم نے ان پر نفع سے خالی ہو بھیجی 3: اور ہم نے ہوائیں بادلوں کو بوجھل کرنے والی بھیجی 4: چلاتا ہے ہوائیں خوشخبری لانے والیاں۔ (35) امام ترمذی، نسائی، عبد اللہ بن احمد نے زوائد المسند میں ابی ابن کعب ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہوا کو برانہ کہو کیونکہ وہ اللہ تعالیٰ کی روح میں سے ہے۔ اور اللہ تعالیٰ سے اس کے خیر کا سوال کرو اور اس خیر کا جو اس کے اندر ہے اور اس کے خیر کا جس کے ساتھ یہ بھیجی گئی اور اللہ تعالیٰ سے اس کے شر سے پناہ مانگو اور اس شر سے جو اس کے اندر ہے اور اس شر سے جس کے ساتھ یہ بھیجی گئی۔ (36) ابن ابی شیبہ نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ ہوا چلی تو لوگوں نے اس کو برا کہا ابن عباس ؓ نے فرمایا اس کو برا نہ کہو وہ رحمت کو لے کر آتی ہے اور عذاب کو لے کر آتی ہے لیکن تم یوں کہو : ” اللہم اجعلھا رحمۃ ولا اجعلہا عذابا “ ترجمہ : اے اللہ اس کو رحمت بنا دیجئے اور اس کو عذاب نہ بنائیے۔ (37) ابن ابی شیبہ اور ابو الشیخ نے حضرت عمر ؓ سے روایت کیا کہ جب ہوا چلتی اور گھومنے لگتی تو آپ فرماتے تکبیر کہو (یعنی تکبیر کو کثرت سے پڑھو) کیونکہ یہ اڑا کرلے جانے والی ہے۔ (38) ابن ابی شیبہ نے عبد الرحمن بن ابی یعلی ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا رات کو دن کو سورج کو چاند کو اور ہوا کو برا نہ کہو کیونکہ یہ بھیجی جاتی ہے کسی قوم پر عذاب بنا کر اور کسی قوم پر رحمت بنا کر بھیجی جاتی ہے۔ وأما قولہ تعالیٰ : والسحاب المسخرین السماء والارض۔ بادل بارش کی چھلنی ہے (39) ابن ابی حاتم، ابو الشیخ نے العظمہ میں، بیہقی نے الاسماء والصفات میں اور ابن عساکر نے معاذ بن عبد اللہ بن حبیب جہنی (رح) سے روایت کیا کہ میں نے ابن عباس ؓ کو دیکھا کہ وہ کعب ؓ کی عورت کے بیٹے سے سوال کر رہے تھے تو نے حضرت کعب کو بادل کے بارے میں کچھ فرماتے ہوئے سنا عرض کیا ہاں میں نے ان کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ بادل بارش کی چھلنی ہے اگر بادل نہ ہوتے تو پانی آسمان سے نازل ہوتا تو جس زمین پر واقع ہوتا اس کو خراب کردیتا اور میں نے حضرت کعب کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ زمین ایک سال کچھ اگاتی ہے اور آئندہ سال کچھ اگاتی ہے اور یہ بھی فرماتے ہوئے سنا کہ بیج نازل ہوتا ہے آسمان سے بارش کے ساتھ پھر وہ زمین سے اگ آتے ہیں حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا کہ تو نے سچ کہا میں نے بھی اسی طرح حضرت کعب سے سنا ہے۔ (40) ابن ابی حاتم اور ابو الشیخ نے حضرت عطا (رح) سے روایت کیا کہ بادل زمین سے اٹھتا ہے۔ (41) ابن ابی حاتم اور ابو الشیخ نے خالد بن معدان (رح) سے روایت کیا کہ جنت میں ایک درخت ہے جو بادل کو پھل دیتا ہے کالا پھل اس میں سے وہ ہوتا ہے جس کو بارش اٹھاتی ہے اور وہ پک جاتا ہے اور بادل وہ ہوتا ہے جس کو بارش نہیں اٹھاتی اور وہ پکا ہوا نہیں ہوتا۔ (42) ابو الشیخ (رح) نے حضرت ابن عباس ؓ سے انہوں نے اواعمش سے روایت کیا کہ زمین نے کہا اے میرے رب ! مجھ کو پانی سے سیراب کر لیکن اس طرح تیز نہ ہو جس طرح آپ نے مجھ پر طوفان کے دن اتارا تھا اللہ پاک نے فرمایا عنقریب میں تیرے بادل کو چھلنی بنا دوں گا۔ (43) امام احمد، ابن ابی الدنیا نے کتاب المطر میں اور ابو الشیخ نے حضرت غفاری ؓ سے روایت کیا ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا بادل کو (جب) پیدا ہوتا ہے تو بہت بہت عمدہ کلام کرتا ہے اور بہتر عمدہ بنتا ہے۔ (44) ابو الشیخ نے حضرت عائشہ ؓ سے روایت کیا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ جب سمندر کی طرف سے ایک ابر اٹھے پھر شام کی طرف سے آئے تو وہ چشمہ ہے وہ عام طریقہ ہے یعنی بہت بارش ہے۔ (45) امام طبرانی نے الاوسط میں حضرت علی ؓ سے روایت کیا تمہارے رب کی سخت ترین مخلوق (دس چیزوں) میں ہے پہاڑ، لوہا جو پہاڑ کو تراش دیتا ہے۔ اور آگ جو لوہے کو کھا جاتی ہے۔ اور پانی آگ کو بجھا دیتا ہے۔ اور بادل جو آسمان اور زمین کے درمیان مسخر کئے گئے ہیں وہ پانی کو اٹھا لیتے ہیں اور ہوا بادلوں کو (ایک جگہ سے دوسری جگہ) منتقل کردیتی ہے اور انسان اپنے ہاتھ کے ذریعہ ہوا سے بچاؤ کرتا ہے اور اس میں اپنی حاجت کو جاتا ہے اور نشہ انسان پر غالب آجاتا ہے اور نیند نشہ پر غالب آجاتی ہے اور غم روک دیتا ہے نیند کو اور اللہ تعالیٰ کی سخت ترین مخلوق دل کا روگ ہے۔ (46) ابو الشیخ نے حضرت حسن (رح) سے روایت کیا کہ جب وہ بال کی طرف دیکھتے تھے تو فرماتے تھے اللہ کی قسم اس میں تمہارا رزق ہے لیکن تم اس سے اپنے گناہوں کی وجہ سے محروم ہوجاتے ہو۔ (47) ابن ابی شیبہ، ابو داؤد، نسائی اور ابن ماجہ نے حضرت عائشہ ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ آفاق میں کسی افق میں جب کسی گہرے بادل کو دیکھتے تو اس کام کو چھوڑ دیتے تھے جس میں مشغول ہوتے تھے آپ نماز شروع کردیتے یہاں تک کہ اس کی طرف متوجہ ہو کر یہ دعا فرماتے تھے۔ ” اللہم انا نعوذبک من شرما ارسل بہ “ ترجمہ : اے اللہ ! ہم پناہ مانگتے ہیں آپ سے اس کے شر سے جس کے ساتھ یہ بھیجا گیا۔ اگر بارش ہوتی تو فرماتے ” اللہم سیبان فانعا “ (یعنی اے اللہ اس کو نفع بخش بنا دے) دو مرتبہ یا تین مرتبہ ایسا فرماتے اور اگر اللہ تعالیٰ (آسمان) کھول دیتے اور بارش نہ ہوتی تو اس پر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتے۔
Top