Dure-Mansoor - Al-Baqara : 131
اِذْ قَالَ لَهٗ رَبُّهٗۤ اَسْلِمْ١ۙ قَالَ اَسْلَمْتُ لِرَبِّ الْعٰلَمِیْنَ
اِذْ قَالَ : جب کہا لَهُ : اس کو رَبُّهُ : اس کا رب اَسْلِمْ : تو سر جھکا دے قَالَ : اس نے کہا اَسْلَمْتُ : میں نے سر جھکا دیا لِرَبِّ : رب کے لئے الْعَالَمِينَ : تمام جہان
جب فرمایا ان کے رب نے کہ فرمانبردار ہوجاؤ، تو انہوں نے عرض کیا کہ میں رب العالمین کا فرمانبردار ہوں
(آیت نمبر 127 کا بقیہ حاشیہ ) حضرت جبرائیل (علیہ السلام) نے بیت اللہ کا طواف کیا (61) الازرقی نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ جبرائیل (علیہ السلام) رسول اللہ ﷺ کے پاس تشریف لائی تو ان کے سر پر سبز پٹی بندھی ہوئی اور اس کے اوپر غبار تھا رسول اللہ ﷺ نے ان سے فرمایا یہ کیا غبار ہے جس کو میں تیری پٹی پر دیکھتا ہوں انہوں نے عرض کیا میں نے بیت اللہ کی زیارت کی تو رکن پر فرشتوں کا ہجوم تھا اور یہ غبار جو آپ دیکھ رہے یہ اس غبار میں سے ہے جو ان کے پروں سے اڑ رہا تھا۔ (62) الازرقی نے حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت کیا کہ آدم (علیہ السلام) نے حج کیا اور حج کے احکام ادا کئے جب حج کرچکے تو عرض کیا اے اللہ ! ہر عمل کرنے والے کے لیے اجر ہوتا ہے اللہ تعالیٰ نے فرمایا اسے آدم ! میں نے تیرے گناہوں کو معاف کردیا اور تیری اولاد میں سے جو کوئی اس گھر پر آئے گا اور اپنے گناہوں کا اقرار کرے گا اس کے گناہ معاف کر دوں گا۔ آدم (علیہ السلام) نے حج کیا تھا آدم نے پوچھا کہ تم اس کے گرد کیا پڑھتے ہو انہوں نے کہا لفظ آیت ” سبحان اللہ والحمدللہ ولا الہ الا اللہ واللہ اکبر “ تو آدم (علیہ السلام) بھی طواف کرتے وقت یہی کلمات کہتے آدم (علیہ السلام) نے سات طواف رات کے وقت اور پانچ طواف دن کے وقت کرے تھے۔ (63) الازرقی، الجندی اور ابن عساکر نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ آدم (علیہ السلام) نے حج کیا اور بیت اللہ کے سات چکر لگائے طواف میں فرشتوں سے ملاقات ہوئی تو انہوں نے کہا اے آدم تیرا حج قبول ہو ہم نے بھی آپ سے دو ہزار سال پہلے اس گھر کا حج کیا تھا آدم نے ان سے پوچھا تم طواف میں کیا پڑھتے ہو ؟ انہوں نے کہا ہم یہ پڑھتے تھے ” سبحان اللہ والحمدللہ ولا الہ الا اللہ واللہ اکبر “ آدم نے فرمایا اس میں زیادہ کر دو ” ولا حول ولا قوۃ الا باللہ “ تو فرشتوں نے یہ کلمات اس میں زیادہ کر دئیے پھر ابراہیم (علیہ السلام) نے بیت اللہ کو تعمیت کرنے کے بعد حج کیا۔ طواف میں فرشتوں سے ملاقات ہوئی انہوں نے آپ کو سلام کیا۔ ابراہیم (علیہ السلام) نے ان سے پوچھا تم اپنے طواف میں کیا پڑھا کرتے تھے۔ انہوں نے کہا کہ ہم آپ کے باپ آدم سے پہلے یہ پڑھا کرتے تھے ” سبحان اللہ والحمد للہ ولا الہ اللہ واللہ اکبر “ تو انہوں نے ہم کو بتایا کہ اس میں یہ کلمات زیادہ کردو۔ ” ولا حول ولا قوۃ الا باللہ “ ابراہیم نے فرمایا اس میں اور زیادہ کردو ” العلی العظیم “ تو فرشتوں نے یہ کلمات بھی کہے۔ (64) الجندی اور دیلمی نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا آدم (علیہ السلام) کے اترنے سے پہلے بیت اللہ جنت کے یاقوتوں میں سے ایک یاقوت سے بنا ہوا تھا اس کے سبز زمرد کے دو دروازے تھے ایک شرقی اور ایک غربی اور اس میں جنت کے فانوس تھے اور آسمان میں موجود بیت المعمور آسمانوں میں ہے اس میں ہر دن ستر ہزار فرشتے داخل ہوتے ہیں جو اس میں سے پھر قیامت تک لوٹ کر نہیں آئیں گے۔ جو کعبۃ الحرام کے بالکل سیدھ میں ہے اللہ تعالیٰ نے آدم (علیہ السلام) کو جب کعبہ کی جگہ پر اتارا تو وہ کشتی کی طرح شدید ہچکولے کھا رہے تھے اللہ تعالیٰ نے حجر اسود کو نازل فرمایا اور وہ سفید موتی کی طرح چمک رہا تھا آدم (علیہ السلام) نے اس کو اٹھا لیا اور اس کو سینے سے لگایا اور اس سے مانوس ہوئے اللہ تعالیٰ نے آدم کی اولاد سے جو میثاق لیا تھا اور اس کو حجر اسود میں رکھ دیا۔ پھر اللہ تعالیٰ نے آدم (علیہ السلام) پر ایک لاٹھی کو اتارا اور ان سے فرمایا اے آدم چلو تو وہ چل پڑے۔ آپ ہندوستان کی زمین میں موجود تھے جتنا اللہ تعالیٰ نے چاہا آدم وہاں ٹھہرے رہے پھر آپ کو بیت اللہ کا شوق ہوا تو ان سے کہا گیا اے آدم حج کرو۔ انہوں نے ہندوستان سے پیدال چلنا شروع کیا تو جہاں آپ نے قدم رکھا وہاں سبزہ اور آبادی ہوگئی اور دو قوموں کے درمیان جنگل بن گئے یہاں تک کہ آپ مکہ مکرمہ پہنچ گئے فرشتوں نے ملاقات کی اور کہنے لگے اے آدم تیرا حج قبول ہو ہم نے بھی تجھ سے دو ہزار سال پہلے اس گھر کا حج کیا تھا آدم (علیہ السلام) نے پوچھا تم اس کے گرد کیا پڑھتے ہو انہوں نے کہا ” سبحان اللہ والحمدللہ ولا الہ الا اللہ واللہ اکبر “ پڑھتے تھے آدم (علیہ السلام) نے جب طواف کیا تو انہوں نے بھی یہی کلمات پڑھے آدم (علیہ السلام) دن کو سات طواف کرتے تھے۔ آدم (علیہ السلام) نے (اللہ تعالیٰ سے) عرض کیا اے میرے رب ! اس گھر کو میری اولاد سے آباد کردے اللہ تعالیٰ نے وحی بھیجی میں اس کو تیری اولاد میں ایک نبی کے ذریعہ آباد کروں گا جس کا نام ابراہیم ہوگا اس کو میں اپنا خلیل بناؤں گا اس کے ہاتھوں سے اس کی عمارت کو پورا کروں گا اور پانی کا کام بھی اس کے سپرد کروں گا اور اس کو اس کے حل کو اس کے حرم کو اور اس کے مواقف کو دکھاؤں گا اور اس کو مشاعر اور مناسک سکھاؤں گا۔ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا آدم نے اپنے رب سے سوال کیا اے میرے رب جو میری اولاد میں سے اس گھر کا حج کرے اور وہ کسی کو تیرا شریک نہ ٹھہرائے اس کو (قیامت کے دن) جنت میں میرے ساتھ ملا دیجئے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا اے آدم ! جو حرم میں مرے گا اور میرے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہراتا اس کو میں قیامت کے دن امن کے ساتھ اٹھاؤں گا۔ (65) الجندی نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ آدم (علیہ السلام) نے بیت اللہ کا طواف کیا۔ فرشتوں نے ان سے ملاقات کی مصافحہ کیا اور ان کو سلام کیا اور ان کو کہا اے آدم تیرا حج قبول ہو آپ سے دو ہزار سال پہلے ہم اس گھر کا حج کرچکے ہیں آدم (علیہ السلام) نے ان سے پوچھا تم اپنے طواف میں کیا پڑھا کرتے تھے ؟ انہوں نے کہا ہم یہ کہتے ہیں ” سبحان اللہ والحمدللہ ولا الہ الا اللہ واللہ اکبر “ آدم نے فرمایا اور میں اس سے زیادہ کروں گا ” ولا حول ولا قوۃ الا باللہ “۔ (66) الازرقی نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ کعبہ کی جگہ مٹ گئی تھی جو نوح اور ابراہیم (علیہما السلام) کے زمانہ تک پوشیدہ رہی اور یہ جگہ گول سرخ ٹیلے کی طرح تھی۔ اس پر (رب) سیلاب کا پانی نہیں چڑھتا تھا۔ لیکن لوگ اتنا جانتے تھے کہ بیت اللہ کی جگہ یہاں اس (جگہ) میں ہے۔ لیکن معین جگہ نہ تھی اور اس جگہ مظلوم آئے تھے اور زمین کے (دوردراز) کناروں سے پانی مانگنے والے آتے تھے اور غم زدہ لوگ اس کے پاس (کھڑے ہوکر) دعائیں کرتے تھے۔ جو یہاں دعا کرتا اس کی دعا قبول ہوتی (اور) لوگ بیت اللہ کی جگہ کا طواف کرتے تھے یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے ابراہیم (علیہ السلام) کے لیے جگہ کا تعین فرمایا جب (اللہ تعالیٰ نے) اپنے گھر کی آبادی اور اپنے دین کا اظہار اور اپنے شعائر کو ظاہر کرنے کا ارادہ فرمایہا (اور) جب سے اللہ تعالیٰ نے آدم (علیہ السلام) کو زمین پر اتارا برابر اس کے گھر تعظیم والا اور عزت والا رہا۔ قومیں اور ملتیں بدلتی رہیں لیکن یہ اپنی حرمت کے ساتھ قائم رہا اور اس سے پہلے فرشتے حج کیا کرتے تھے۔ تعمیر بیت اللہ میں سات پہاڑوں کے پتھر استعمال ہوئے (67) الازرقی نے عثمان بن ساج (رح) سے روایت کیا کہ ہم کو یہ بات پہنچی ہے واللہ اعلم کہ ابراہیم خلیل اللہ (علیہ السلام) آسمان کی طرف اٹھائے گئے انہوں نے زمین کے مشرقوں اور مغربوں کی طرف دیکھا (مگر) کعبہ کی جگہ کو پسند فرمایا فرشتوں نے ان سے کہا اے اللہ کے خلیل آپ نے زمین میں اللہ کے حرم کو پسند کیا (پھر) انہوں نے اس کو سات پہاڑوں کے پتھروں سے اس کو تعمیر کیا بعض علماء پانچ کہتے ہیں۔ فرشتے ان پہاڑوں سے ابراہیم (علیہ السلام) کے پاس پتھر لاتے تھے۔ (68) الازرقی نے مجاہر (رح) سے روایت کیا کہ ابراہیم (علیہ السلام) کی طرف سکینہ اور صرد (ایک قسم کا پرندہ) اور ایک بادشاہ ملک شام سے آئے تھے سکینہ نے کہا اے ابراہیم اس گھر پر رکے رہو۔ اس لئے کہ ظالم بادشاہ اس گھر کا طواف نہیں کرے گا اور کوئی اکھڑ مزاج یہاں بھی طواف نہیں کرے گا۔ مگر اس پر سکینہ اور وقار طاری ہوگا۔ (69) الازرقی نے بشر بن عاصم (رح) سے روایت کیا کہ ابراہیم (علیہ السلام) آرمینیہ سے آئے اور ان کے ساتھ بطور رہنما کے ایک فرشتہ سکینہ اور ہوا بھی آئے ان کے ذریعے ابراہیم (علیہ السلام) کے لیے جگہ کا تعین ہوا۔ جس طرح مکڑی اپنے گھر کا تعین کرتی ہے۔ انہوں نے ایسی چٹان اٹھائی جس کو تیس آدمی اٹھ سکتے تھے سکینہ نے کہا مجھ پر اس کعبہ کو بنائیے اس وجہ سے کوئی دیہاتی اکھڑ مزاج یا ظالم اس میں داخل نہیں ہوتا مگر تو اس پر سکینہ کو دیکھے گا۔ (70) الازرقی نے حضرت علی بن ابی طالب ؓ سے روایت کیا کہ ابراہیم (علیہ السلام) کے ساتھ بطور دلیل کے ایک فرشتہ سکینہ اور تیز ہوا آئے۔ یہاں تک کہ بطور بیت اللہ کا تعین ہوا جیسے عنکبوت اپنے گھر کا تعین کرتی ہے۔ انہوں نے کھودا تو اس کی بنیادوں میں سے اونٹوں کی طرح چٹانیں ظاہر ہوئیں۔ وہ اتنی بڑی تھیں کہ ان کو تیس آدمی حرکت دے سکتے تھے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے ابراہیم کو فرمایا ہم ابھی تم کو دکھائیں گے اللہ تعالیٰ نے ایک بادل بھیجا جس میں ایک سر تھا جو ابراہیم سے باتیں کرتا تھا اس نے کہا اے ابراہیم ! تیرا رب تجھ کو حکم دیتا ہے کہ اس بادل کی مقدار خط کھینچ لو آپ اسے دیکھ کر خط کھینچتے گئے سر نے کہا تو نے خط کھینچ لیا ہے۔ انہوں نے کہاں ہاں ! پھر وہ بادل اوپر کو اٹھ گیا زمین میں سے بنیاد ظاہر ہوگئی ابراہیم (علیہ السلام) نے اس پر بنیادیں رکھیں۔ (71) الازرقی نے قتادہ (رح) سے اللہ تعالیٰ کے اس قول لفظ آیت ” واذ یرفع ابراہیم القواعد من البیت “ کے بارے میں روایت کیا کہ ہم کو یہ بات بتائی گئی کہ بیت اللہ کو پانچ پہاڑوں سے بنایا گیا۔ ” طور سینا، طور زینا، لبنان، جودی، حرا “۔ اور ہم کو یہ بھی بتایا گیا کہ اس کی بنادیں حرا (پہاڑ) سے ہیں۔ (72) الازرقی نے شعبی (رح) سے روایت کیا جب ابراہیم (علیہ السلام) کو بیت اللہ کے بنانے کا حکم دیا گیا تو آپ حجر اسود کی جگہ تک پہنچ گئے پھر آپ نے اسماعیل (علیہ السلام) سے فرمایا میرے پاس ایک پتھر لے آؤ جو لوگوں کے لیے ایک نشانی ہو کہ جہاں سے طواف کو شروع کریں وہ ایک پتھر لے آئے لیکن آپ کو پسند نہ آیا پھر ابراہیم (علیہ السلام) کے پاس یہ پتھر لایا گیا تو فرمایا میرے پاس وہ آدمی پتھر لایا ہے جو تیرے پتھر پر مجھے بھروسہ نہیں کراتا۔ حجر اسود جنتی پتھر ہے (73) الازرقی نے عبد اللہ بن عمرو ؓ سے روایت کیا کہ جبرائیل (علیہ السلام) حجر اسود کو جنت سے لائے تھے اور اسی جگہ رکھا جہاں تم دیکھتے ہو اور تم ہمیشہ خیر کے ساتھ رہو گے جب تک یہ (حجر اسود) تمہارے درمیان رہے گا اس کو مظبوطی کے ساتھ پکڑے رہو جتنا تم سے ہو سکے۔ ہوسکتا ہے وہ وقت آجائے کہ یہ اس جگہ لوٹ جائے جہاں سے آیا تھا۔ (74) امام احمد، ترمذی (ترمذی نے اسے صحیح بھی کہا ہے) اور ابن خزیمہ نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا حجر اسود جنت سے نازل کیا گیا تھ اور وہ دودھ سے زیادہ سفید تھا لیکن اس کو بنی آدم کی خطاؤں نے کالا کردیا۔ (75) البزار نت حضرت انس ؓ سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا حجر اسود جنت کے پتھروں میں سے ہے۔ (76) الازرقی اور الجندی نے مجاہد (رح) سے فرمایا کہ رکن (حجر اسود) جنت میں سے ہے اگر یہ جنت میں سے نہ ہوتا تو وہ ختم ہوچکا ہوتا۔ (77) الازرقی اور الجندی نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا اگر رکن زنگ آلود نہ ہوتا جاہلیت کی نجاستوں اور گندگی سے اور گناہوں والے ہاتھ نہ لگتے تو اس کے ساتھ ہر بیمای سے شفا طلب کرتا اور آج بھی اسے اسی طرح پاتا جس دن اللہ تعالیٰ نے اس کو پیدا فرمایا تھا (پھر) اللہ تعالیٰ نے اس کو تاریک کردیا تاکہ دنیا والے رخصت کی زینت کی طرف نہ دیکھیں اور وہ سفید یاقوت کا تھا جنت کے یاقوتوں میں سے۔ اللہ تعالیٰ نے زمین پر آدم کے لیے اتارا جب اللہ تعالیٰ نے آدم کو کعبہ کی جگہ میں اتارا تھا یہ کعبہ بننے سے پہلے زمین اس دن پاک تھی کوئی اس پر گناہ نہیں کیا گیا تھا اور اس پر ناپاک ہاتھ نہ لگے تھے جو اس کو نجس کردیتے اور حرم شریف کے طواف میں فرشتوں کی ایک صف کھڑی کردی گئیں جو زمین کے جنات سے اس کی حفاظت کرتے تھے۔ کیونکہ ان دونوں زمین میں جنات رہتے تھے اور ان کو یہ جائز نہیں تھا کہ وہ اس (حجر اسود) کی طرف دیکھیں کیونکہ وہ جنت میں سے تھا اور جو آدمی جنت کو دیکھ لے گا وہ اس میں داخل ہوگا (اس لئے) حرم شریف کے اطراف میں جہاں آج کل حرم کی حدود کی علامات بنی ہوئی ہیں فرشتے حرم کے ان اطراف پر تھے۔ (78) ابو الشیخ نے العظمہ میں حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا وہ بیت اللہ جس کو اللہ تعالیٰ نے آدم (علیہ السلام) کے لیے ٹھکانہ بنایا سرخ یاقوت کا تھا اس کے دو دروازے تھے ایک شرقی اور دوسرا غربی۔ اور اس میں جنت کے نور کی قندیلیں تھیں۔ اس کے برتن سونے کے تھے جو سفید یاقوت کے ٹکڑوں سے جڑے ہوتے تھے اور اس وقت رکن (حجر اسود) یاقوت کا ایک ٹکڑا تھا حرم شریف کے اطراف پر فرشتوں کی ایک صف کھڑی کردی گئیں وہ ان دنوں (جنات) کو اس سے روکتے تھے کیونکہ وہ جنت کی ایک چیز تھی اور کسی کو اس کی طرف دیکھنا لائق نہیں تھا اس کے لئے جنت واجب ہوجاتی تھی اور جو شخص اس کی طرف دیکھ لے تو اس میں داخل ہوجائے اور حرم کو حرم اس لئے کہتے ہیں کیونکہ جنات اس کے اندر نہیں جاسکتے اور اللہ تعالیٰ نے آدم (علیہ السلام) کے لیے یہ گھر اتارا تھا اور زمین اس دن پاک تھی کوئی گناہ اس میں نہ ہوا تھا اس کے رہنے والے ایسے نہیں تھے جو اس کو ناپاک کردیں۔ اور اس کے رہنے والے (ان دنوں) جنات تھے۔ (79) الجندی نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ انہوں نے فرمایا کہ حجر اسود زمین میں اللہ تعالیٰ کا داہنا ہاتھ ہے جس شخص نے رسول اللہ ﷺ کی بیعت کو نہیں پایا اس کو چاہئے کہ حجر اسود کا استلام کرلے تو گویا اس نے اللہ اور اس کے رسول سے بیعت کرلی۔ (80) الازرقی اور الجندی نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ انہوں نے فرمایا کہ یہ حجر اسود اللہ تعالیٰ کا زمین میں داہنا ہاتھ ہے اس کے ذریعے اللہ تعالیٰ اپنے بندوں سے مصافحہ کرتا ہے۔ (81) الازرقی نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ انہوں نے فرمایا زمین میں حجر اسود اور مقام ابراہیم کے علاوہ کوئی چیز جنت میں نہیں ہے۔ کیونکہ وہ جنت کے جوہروں میں سے دو جوہر ہیں۔ اگر اس کو شرک والے نہ چھوتے تو جو بیماری والا اس کو چھوتا اللہ تعالیٰ اس کو شفا عطا فرما دیتے۔ (82) الازرقی نے حضرت عبد اللہ بن عمرو بن عاص ؓ سے روایت کیا کہ انہوں نے فرمایا کہ رکن (یعنی حجر اسود) کو جب نازل کیا گیا تو وہ چاندی سے زیادہ سفید تھا اگر اس کو جاہلیت کی نجاستوں اور گندگیوں نے نہ چھوا ہوتا تو جو بیمار اس کو چھوتا وہ ٹھیک نہ ہوجاتا۔ (83) الازرقی نے حضرت عائشہ ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اس پتھر (یعنی حجر اسود) کے استلام کی کثرت کرو پھر تم اس بات کی شکایت کرو گے کہ تم نے اس کو کھو دیا۔ ایک رات جبکہ لوگ اس کا طواف کر رہے ہوں گے اچانک صبح کے وقت وہ اس کو کھو بیٹھیں گے بلاشبہ اللہ تعالیٰ نے جنت سے کوئی چیز ایسی نازل نہیں فرمائی مگر قیامت کے دن سے پہلے اسے واپس جنت میں لوٹا دے گا۔ (84) الازرقی نے یوسف بن مالک (رح) نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ حجر اسود کو اس قبلہ والوں کے لیے عید بنا دیا جس طرح بنی اسرائیل کے لیے مائدہ کو عید بنایا تھا۔ اور ہم ہمیشہ خیر کے ساتھ رہیں گے جب تک یہ تمہارے درمیان میں (موجود) ہے اور جبرائیل نے اس کو اس کی جگہ پر رکھا تھا۔ (85) الازرقی نے عبد اللہ بن عمرو بن العاص ؓ سے روایت کیا کہ بلاشبہ اللہ تعالیٰ قیامت سے پہلے قرآن اور حجر اسود کو لوگوں کے سینوں سے اٹھالے گا۔ (86) الازرقی نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ تمہاری کیا حالت ہوگی جب قرآن کو تمہارے سینوں سے اٹھالیا جائے گا اور تمہارے دلوں سے مٹا دیا جائے گا اور رکن کو بھی اٹھالیا جائے گا۔ (87) الازرقی نے عثمان بن ساج (رح) سے روایت کیا کہ مجھ کو یہ بات پہنچی ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا سب سے پہلے رکن کو قرآن کو اور رؤیا النبی فی المنام کو (یعنی خواب میں نبی اکرم ﷺ کی زیارت کو) اٹھا لیا جائے گا۔ (88) ابن ابی شیبہ اور طبرانی نے عبد اللہ بن عمرو ؓ سے روایت کیا کہ اس گھر کا حج کرو اور حجر اسود کا استلام کرو اللہ کی قسم ضرور ان کو اٹھا لیا جائے گا یا ان کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے ضرور حکم پہنچے گا۔ یہ دونوں پتھر جنت سے اتارے گئے ہیں ان دونوں میں سے ایک کو اٹھالیا جائے گا اور عنقریب دوسرے کو بھی اٹھالیا جائے گا اگر ایسا نہ ہوا جیسے میں نے کہا سو جو شخص میری قبر پر گزرے تو اس کو چاہئے کہ یوں 8 کہے یہ قبر عبد اللہ بن عمرو جھوٹے کی ہے۔ (89) امام حاکم نے (روایت کیا ہے اور اسے صحیح بھی کہا ہے) اور بیہقی نے شعب الایمان میں حضرت ابن عمر ؓ سے روایت کیا کہ نبی اکرم ﷺ نے حجر اسود کو استلام فرمایا پھر اپنے دونوں ہونٹوں کو اس پر رکھ کر بہت دیر روتے رہے۔ متوجہ ہوئے (دیکھا) کہ حضرت عمر ؓ بھی رو رہے تھے آپ نے فرمایا اے عمر ! یہاں آنسو بہائے جاتے ہیں۔ (90) امام طبرانی نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا حجر اسود جنت کے پتھروں میں سے ہے اس کے علاوہ جنت میں سے زمین میں کوئی چیز نہیں اور یہ سفید موتی کی طرح سفید تھا اگر اس کو جاہلیت کی گندگی نہ چھوتی تو اس کو جو بھی بیمار اور مصیبت زدہ ہاتھ لگاتا تو وہ ٹھیک ہوجاتا۔ (91) امام طبرانی نے حضرت ابن عمر ؓ سے روایت کیا کہ حجر اسود آسمان سے نازل کیا گیا اور اس کو ابو قیس (پہاڑ) پر رکھا گیا تھا۔ اور وہ سفید موتی کی طرح تھا چالیس سال اس جگہ رہا پھر اس کو ابراہیم کی بنائی ہوئی بنیادوں پر رکھ دیا گیا۔ (92) الازرقی نے عکرمہ (رح) سے روایت کیا کہ رکن جنت کے یاقوتوں میں سے ایک یاقوت ہے۔ اور جنت اس کے لوٹنے کی جگہ ہے اور ابن عباس ؓ نے فرمایا اگر اس کو جاہلیت کے ہاتھ نہ چھوتے تو مادرزاد اندھا اور برص کی بیماری والا اس سے شفا یاب ہوتے۔ (93) الازرقی نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ اللہ تعالیٰ نے رکن اور مقام کو آدم (علیہ السلام) کے ساتھ اتارا اور رات میں رکن اور مقام کے درمیان آدم (علیہ السلام) کو اتارا جب صبح ہوئی تو رکن اور مقام کو دیکھا ان کو پہچانا اور انہیں گلے لگایا اور ان سے انس حاصل کیا۔ (94) الازرقی نے ابی بن کعب ؓ سے روایت کیا ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا حجر اسود کو آسمان سے ایک فرشتہ لایا تھا۔ (95) الازرقی نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ اللہ تعالیٰ نے حجر اسود کو جنت سے اتارا اور وہ اپنی شدید سفیدی کی وجہ سے چمک رہا تھا آدم (علیہ السلام) نے اس کو اٹھا کر اپنے سینے سے لگایا اس سے انس حاصل کیا۔ (96) الازرقی نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ حضرت آدم (علیہ السلام) جنت سے اتارے گئے اور ان کے ساتھ حجر اسود تھا جس کو وہ بغل میں دبائے ہوئے تھے اور وہ جنت کے یاقوتوں میں سے ایک یاقوت تھا اگر اللہ تعالیٰ اس کی روشنی کو ختم نہ فرماتے تو کوئی اس کی طرف نہ دیکھ سکتا۔ اور آپ باسہ اور عجوہ کھجور کے ساتھ اترے ابو محمد خزاعی (رح) نے فرمایا کہ الباستہ سے صنعت کاروں کے آلات مراد ہیں۔ (97) الازرقی نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ حضرت عمر بن خطاب ؓ نے حضرت کعب ؓ سے حجر اسود کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے فرمایا کہ وہ جنت کے چقماق کے پتھروں میں سے ایک پتھر ہے۔ (98) الازرقی نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ حجر اسود اگر لاشعوری کی حالت میں حائضہ عورتوں اور اجنبی مردوں نے نہ چھوا ہوتا تو جذام والا اور برص کی بیماری والا اس کو چھوتا تو شفایاب ہے۔ (99) الازرقی نے عمرو بن شعیب (رح) سے روایت کیا اور انہوں نے اپنے باپ دادا سے روایت کیا کہ حجر اسود دودھ کی طرح سفید تھا اس کی لمبائی بازو کی ہڈی کی طرح ہے۔ مشرکین کے چھونے کی وجہ سے کالا ہوگیا اگر ایسا نہ ہوتا تو جو بیماری والا اس کو چھوتا شفا یاب ہوجاتا۔ حجر اسود ابتداء میں سفید تھا (100) الازرقی نے عثمان بن ساج (رح) سے روایت کیا کہ مجھ کو ابن نبیہ حجی نے اپنی والدہ سے بیان کیا کہ ان کے والد نے ان کو بتایا کہ جلنے سے پہلے میں نے حجر اسود کو دیکھا وہ اتنا سفید تھا کہ انسان اس میں اپنے چہرہ کو دیکھ سکتا تھا۔ عثمان نے فرمایا کہ مجھ کو زبیر نے بتایا کہ ان کو یہ بات پہنچی ہے کہ حجر اسود جنت کے یاقوت کی باریک کنکریوں کا تھا اور یہ انتہائی سفید تھا اور چمکتا تھا مشرکین کی نجاستوں نے اس کو کالا کردیا اور عنقریب یہ پہلی شکل کی طرف لوٹ جائے گا اور وہ قیامت کے دن موٹائی چوڑائی میں جبل ابی قیس کی طرح ہوگا۔ اس کی دو آنکھیں ایک زبان اور دو ہونٹ ہوں گے اس شخص کے بارے میں گواہی دے گا جس نے (دنیا میں) حق کے ساتھ استلام کیا ہوگا اور اس شخص کے خلاف گواہی دے گا جس نے بغیر حق کے اس کا استلام کیا ہوگا۔ (101) ابن خزیمہ نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمای احجر اسود سفید یاقوت ہے جنت کے یاقوتوں میں سے، مشرکین کی خطاؤں نے اس کو کالا کردیا۔ قیامت کے دن احد کے برابر اس کو اٹھایا جائے گا۔ دنیا کے ہر اس شخص کے بارے میں گواہی دے گا جس نے (دنیا میں) اس کا استلام کیا ہوگا اور بوسہ دیا ہوگا۔ (102) امام احمد، ترمذی (انہوں نے اسے حسن کہا ہے) ابن ماجہ، ابن خزیمہ، ابن حسان، ابن مردویہ اور بیہقی نے شعب الایمان میں حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا اللہ تعالیٰ (قیامت کے دن) حجر اسود اس حال میں اٹھائے گا کہ اس کی دو آنھکیں ہوں گی جس سے وہ دیکھتا ہوگا۔ اور زبان ہوگی جس سے وہ بولتا ہوگا اور اس شخص کے بارے میں گواہی دے گا جس نے حق کے ساتھ اس کا استلام کیا ہوگا۔ (103) الازرقی نے سلمان فارسی ؓ سے روایت کیا کہ حجر اسود جنت کے پتھروں میں سے ایک پتھر ہے اور قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ میں سلمان کی جان ہے قیامت کے دن وہ ضرور اس کو اس حال میں لائے گا کہ اس کی دو آنکھیں ایک زبان اور دو ہونٹ ہوں گے۔ اس شخص کے بارے میں گواہی دے گا جس نے حق کے ساتھ اس کا استلام کیا ہوگا۔ (104) الازرقی نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ رکن زمین میں اللہ تعالیٰ کا داہنا ہاتھ ہے جس کے ساتھ وہ اپنی مخلوق سے مصافحہ کرتا ہے۔ قسم ہے اس ذات کی جو اللہ تعالیٰ سے سوال کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس کو عطا فرماتے ہیں۔ (105) ابن ماجہ نے عطاء بن أبی رباح (رح) سے روایت کیا کہ ان سے رکن کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے بتایا کہ مجھ کو ابوہریرہ نے بیان کیا میں نے رسول اللہ ﷺ کوئی فرماتے ہوئے سنا جو اس کے ساتھ ہاتھ ملانے میں شریف ہوا اس نے رحمن کے ساتھ ہاتھ ملایا۔ (106) امام ترمذی (انہوں نے اسے حسن کہا ہے) حاکم (انہوں نے اس صحیح کہا ہے) اور بیہقی نے شعب الایمان میں ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا حجر اسود کی ایک زبان اور دو ہونٹ ہیں قیامت کے دن گواہی دے گا اس شخص کے بارے میں جس نے حق کے ساتھ اس کا استلام کیا ہوگا۔ (107) ابن خزیمہ، طبرانی (نے الاوسط میں) حاکم اور بیہقی نے الاسماء والصفات میں عبد اللہ بن عمرو ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا قیامت کے دن رکن (جبل) ابو قیس سے بھی بڑا ہو کر آئے گا اس کی ایک زبان اور دو ہونٹ ہوں گے۔ اس شخص کے متعلق بات کرے گا جس نے اس کا استلام حسن نیت کے ساتھ کیا ہوگا اور وہ اللہ کا داہنا ہاتھ ہے۔ جس کے ساتھ اللہ تعالیٰ اپنی مخلوق سے مصافحہ کرتا ہے۔ (108) امام طبرانی نے الاوسط میں حضرت عائشہ ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تم لوگ حجر اسود کی خیر کے ساتھ گواہی دو ۔ کیونکہ یہ قیامت کے دن آئے گا ایسا سفارش کرنے والا جس کی سفارش قبول کی جائے گی اس کی ایک زبان اور دو ہونٹ ہوں گے۔ اس شخص کے بارے میں گواہی دے گا جس نے اس کا استلام کیا ہوگا۔ (109) الجندی نے عطاء بن سائب سے انہوں نے محمد بن سابط ؓ سے روایت کیا کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا انبیاء میں سے جس نبی کی امت ہلاک کردی جاتی تھی تو وہ مکہ مکرمہ آجاتا تھا۔ اور مرتے دم تک اللہ کا نبی اور اس کے ساتھی (ایمان والے لوگ) یہاں اللہ کی عبادت کرتے تھے یہاں تک کہ اس نبی کا وصال ہوجاتا۔ یہاں (مکہ مکرمہ میں) نوح، ھود، صالح اور شعیب (علیہم السلام) نے وفات پائی اور ان کی قبریں زم زم اور حجر اسود کے درمیان ہیں۔ (110) الازرقی اور الجندی نے عطاء بن سائب سے انہوں نے عبد الرحمن بن سابط ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا مکہ مکرمہ میں (ناحق) خون بہانے والا۔ تاجر سود کھانے والا اور چغلی کھانے والا نہیں ٹھہرے گا (اور) فرمایا کہ مکہ مکرمہ سے زمین کو پھیلایا گیا اور فرشتے بیت اللہ کا طواف کرتے ہیں اور یہ پہلی (مخلوق تھی) جس نے اس گھر کا طواف کیا۔ اور یہ وہی زمین ہے جس کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا لفظ آیت ” انی جاعل فی الارض خلیفۃ “ اور انبیاء میں سے جس نبی کی امت ہلاک کردی جاتی تھی اور وہ نبی اور اس کے ساتھ صالحین لوگ جو نجات پا جاتے تھے وہ یہاں (مکہ مکرمہ) میں آجاتے تھے اور عبادت کرتے رہتے تھے یہاں تک کہ یہیں فوت ہوجاتے تھے اور بلاشبہ نوح، ھود، شعیب اور صالح (علیہم السلام) کی قبریں، زم زم، رکن اور مقام کے درمیان ہیں۔ (111) الازرقی نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ موسیٰ (علیہ السلام) نے سرخ اونٹ پر حج کیا۔ جب روحاء (کے مقام) سے گزرے تو ان کی دو قطوانی چادریں تھیں ایک اوپر اور دوسری نیچے لپٹی ہوئی تھی۔ انہوں نے بیت اللہ کا طواف کیا پھر صفا مروہ کی سعی کی اس درمیان کہ وہ طواف کر رہے تھے اور صفا مروہ کے درمیان تلبیہ پڑھ رہے تھے اچانک انہوں نے آسمان سے ایک آواز سنی اور وہ کہہ رہا تھا میرا بندہ میں حاضر ہوں میں تیرے ساتھ ہوں تو موسیٰ (علیہ السلام) (یہ آواز سن کر) سجدہ میں گرگئے۔ (112) الازرقی نے مقاتل (رح) سے روایت کیا کہ مسجد حرام میں زم زم اور رکن کے درمیان ستر انبیاء کی قبریں ہیں ان میں سے ھود، صالح اور اسماعیل (علیہم السلام) بھی ہیں اور آدم، ابراہیم، اسحاق، یعقوب اور یوسف (علیہم السلام) کی قبریں بیت المقدس میں ہیں۔ (113) الازرقی اور الجندی نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ کعبہ کو دیکھنا ایمان کی تازگی کا موجب ہے۔ (114) الازرقی اور الجندی نے ابن المسیب (رح) سے روایت کیا کہ جو شخص کعبہ کی طرف ایمان اور یقین کے ساتھ دیکھے وہ گناہوں سے ایسا پاک صاف ہوجاتا ہے جیسے بچہ ماں کے پیٹ سے پیدا ہوتا ہے اور گناہوں سے ہاک صاف ہوتا ہے۔ (115) الازرقی اور الجندی نے زبیر بن محمد سے ابو سائب مدنی (رح) سے روایت کیا کہ جو شخص ایمان اور تصدیق قلبی کے ساتھ کعبہ کو دیکھے تو اس کے گناہ اس طرح جھڑ جاتے ہیں جس طرح پتے درخت سے جھڑ جاتے ہیں (پھر) فرمایا کہ مسجد حرام میں بیٹھنے والا جو صرف بیت اللہ کی طرف دیکھتا ہے نہ طواف کرتا ہے نہ نماز پڑھتا ہے گھر میں اس نماز پڑھنے والے سے افضل ہے جو بیت اللہ کو نہیں دیکھ پاتا۔ (116) ابن ابی شیبہ، الجندی، الازرقی اور بیہقی نے شعب الایمان میں عطا (رح) سے روایت کیا کہ بیت اللہ کی طرف دیکھنا عبادت ہے اور بیت اللہ کی طرف دیکھنے والا رات کو قیام کرنے والا اور دن کو روزہ رکھنے والے اور اللہ کے راستے میں جہاد کرنے کے قائم مقام ہے۔ بیت اللہ کی طرف دیکھنا بھی ثواب کا کام ہے (117) الجندی نے عطا (رح) سے روایت کیا کہ طواف اور نماز کے علاوہ میں بیت اللہ کی طرف نظر کرنا ایک سال کی عبادت کے برابر ہے۔ اور سال کے قیام کے رکوع اور سال کے سجدوں کے برابر ہے۔ (118) ابن ابی شیبہ اور الجندی نے طاؤس (رح) سے روایت کیا کہ اس بیت اللہ کی طرف دیکھنا روزے رکھنے والے اور ہمیشہ قیام کرنے والے اور اللہ کے راستہ میں جہاد کرنے والے سے افضل ہے۔ (119) الازرقی نے ابراہیم نضعی (رح) سے روایت کیا کہ کعبہ کی طرف دیکھنے والا اس کے علاوہ دوسرے شہروں میں عبادت میں لگے رہنے والاے کی طرح سے ہے۔ (120) ابن ابی شیبہ اور الازرقی نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ کعنہ کی طرف دیکھنا عبادت ہے۔ (121) الازرقی، الجندی، ابن عدی، بیہقی نے شعب الایمان میں (بیہقی نے اسے ضعیف کیا ہے اصبہانی نے الترغیب میں حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا بلاشبہ اللہ کے لیے ہر دن اور رات میں ایک سو بیس رحمتیں ہیں جو اس کے گھر پر نازل فرماتے ہیں ساٹھ رحمتیں طواف کرنے والوں پر چالیس نماز پڑھنے والوں پر اور بیس (صرف) دیکھنے والوں کے لیے ہیں۔ (122) الجندی نے حضرت ابن مسعود ؓ سے روایت کیا کہ اس گھر کا طواف کثرت سے کرو قبل اس کے کہ اس کو اٹھا لیا جائے اور لوگ اس کی جگہ کو بھی بھول جائیں۔ (123) البزار نے اپنی سند میں، ابن خزیمہ، ابن حبان، طبرانی اور حاکم نے ابن عمر ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اس گھر سے نفع حاصل کرلو دو مرتبہ اس کو گرا دیا گیا اور تیسری مرتبہ اس کو اٹھا لیا جائے گا۔ (124) الجندی نے زہری (رح) سے روایت کیا جب قیامت کا دن ہوگا تو اللہ تعالیٰ کعبہ کو مسجد حرام سے بیت المقدس کی طرف اٹھالیں گے (جب بیت اللہ) مدینہ منورہ میں قبر النبی ﷺ کے پاس سے گزرے گا تو کہے گا السلام علیک یا رسول اللہ و (رح) وبرکاتہ اس کے جواب میں نبی اکرم ﷺ فرمائیں گے وعلیک السلام یا کعبۃ اللہ میری امت کا کیا حال ہے ؟ وہ کہے گا اے محمد ﷺ آپ کی امت میں سے جو میری طرف آیا تو میں اس کا ذمہ دار ہوں۔ اور جو آپ کی امت میں سے نہیں آیا تو اس کے آپ ذمہ دار ہیں۔ (125) امام ابوبکر الواسطی نے فضائل بیت المقدس میں خالد بن معدان (رح) سے روایت کیا کہ قیامت قائم نہ ہوگی یہاں تک کہ کعبہ چٹان تک پہنچ جائے گا جس طرح دلہن شوہر کے پاس پہنچائی جاتی ہے۔ پھر سب لوگ حج کرنے والے اور عمرہ کرنے والے کعبہ کے ساتھ ہوں گے جب الصخرہ (یعنی چٹان) اس کو دیکھے گی تو کہے گی مرحبا زیارت کرنے والوں اور زیارت کئے جانے والے۔ (126) الواسطی نے کعب ؓ سے روایت کیا کہ قیامت قائم نہیں ہوگی یہاں تک کہ بیت اللہ کو بیت المقدس کی طرف بھیج دیا جائے گا۔ سو دونوں جنت کی طرف لے جائے جائیں گے اور ان دونوں میں ان کی زیارت کرنے والے بھی ہوں گے اور ان کی پیشی اور حساب بیت المقدس میں ہوگا۔ (127) ابن مردویہ نے الاصبہانی نے الترغیب میں اور دیلمی نے جابر ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جب قیامت کا دن ہوگا تو کعبہ بیت اللہ کو میری قبر کی طرف بھیجا جائے گا تو وہ کہے گا ” السلام علیک یا محمد “ میں (جواب میں) کہوں گا وعلیک السلام یا بیت اللہ میری امت نے میرے بعد تیرے ساتھ کیا معاملہ کیا ؟ وہ کہے گا اے محمد جو میرے پاس آتا ہے میں اس کی کفایت کرتا ہوں اور اس کے لیے سفارش کرنے والا ہوں گا اور جو میرے پاس نہیں آیا تو پھر آپ ہی اس کی کفالت کرنے والے ہیں اور اس کی سفارش کرنے والے ہیں۔ تعمیر ابراہیمی کی تفصیل (128) الازرقی نے ابو اسحاق (رح) سے روایت کیا کہ ابراہیم (علیہ السلام) نے بیت اللہ کو تعمیر فرمایا اس کی اونچائی (آسمان کی طرف) نو ہاتھ تھی اور اس کی چوڑائی زمین سے بتیس ہاتھ تھی حجر اسود سے رکن شامی تک جو سامنے سے حجر کے پاس ہے اور رکن شامی سے مغرنی رکن تک جس میں حجر اسود ہے تئیس ہاتھ عرض کیا اور پیچھے کی طرف سے یعنی غربی رکن سے یمانی رکن تک اکتیس ہاتھ تھا۔ اور رکن یمانی اور رکن اسود کے درمیان بیس ہاتھ تھا۔ پھر فرمایا کعبہ کو کعبہ اس لئے کہا جاتا ہے کیونکہ اس کی بناوٹ کعب جیسی ہے۔ پھر فرمایا کہ آدم (علیہ السلام) کی بنادیں اسی طرح کی تھیں اور انہوں نے اس کے لیے فارس دروازے بنائے اور ان کو پورے پورے غلان پہنائے اور اس کے پاس اونٹ ذبح کئے اور ابراہیم (علیہ السلام) نے بیت اللہ کے پہلوں میں ایک باڑ بنوائی تھی جس کے اوپر کیکر کے بالوں کا ایک چھپر تھا اس میں بکریاں داخل ہوتی تھی۔ یہ اسماعیل کی بکریوں کا باڑ تھا۔ ابراہیم (علیہ السلام) نے بیت اللہ کے اندر داہنی طرف ایک گہرا گڑھا کھود اس کے اندر بیت اللہ کا خزانہ تھا اس میں وہ چیزیں ڈالی جاتی تھی جو کعبہ کے لیے ہدیہ کی جاتی تھیں اور اللہ تعالیٰ نے حجر اسود کو ابو قیس پر امانت دیا تھا جب نوح (علیہ السلام) کے زمانہ میں اللہ تعالیٰ نے (ساری) زمین کو غرق کردیا تھا اور اللہ تعالیٰ نے ابو قیس سے فرمایا تھا کہ جب میں اپنے خلیل کو میرا گھر بناتے ہوئے دیکھوں گا تو اس (رکن) کو ان کے لیے پھر نکالوں گا چناچہ اس (رکن) کو جبرائیل (علیہ السلام) لے آئے اور اس کو اپنی جگہ پر رکھا تھا اور اس پر ابراہیم نے عمارۃ بنائی اور وہ اس وقت اپنی شدید سفیدی کی وجہ سے چمک رہا تھا اور اس کا نور آدھے حرم تک ہر طرف چمکتا تھا (اور) فرمایا اس کا شدید کالا ہونا اس وجہ سے ہے کہ زمانہ جاہلیت میں اور زمانہ اسلام میں یکے بعد دیگرے اس کو آگ پہنچ گئی۔ (129) امام مالک، شافعی، بخاری، مسلم اور نسائی نے حضرت عائشہ ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کیا تو نے اپنی قوم کو نہیں دیکھا تھا جب وہ کعبہ کو بنا رہے تھے (اور) ابراہیم (علیہ السلام) نے اس کی بنیادوں سے کچھ حصہ چھوڑ دیا میں نے عرض کیا یا رسول اللہ ! کیا آپ اس کو ابراہیم کی بنادوں پر پھر نہیں لوٹا لیتے ؟ آپ نے فرمایا اگر تیری قوم کا کفر کا زمانہ قریب نہ ہوتا (تو میں ایسا کرلیتا) ابن عمر ؓ نے فرمایا میں نے رسول اللہ ﷺ کو رکنین کے استلام کو ترک کرتے ہوئے نہیں دیکھا جو حجر اسود سے ملے ہوئے ہیں مگر یہ کہ بیت اللہ کو ابراہیم کی بنادوں پر مکمل نہ فرمایا۔ (130) الازرقی نے ابن جریر (رح) سے روایت کیا کہ ابن زبیر ؓ نے کعبہ کو ابراہیم (علیہ السلام) کی بنیادوں پر بنایا تھا (پھر) فرمایا کعبہ خلیفہ کعب کی شکل کا ہے۔ اس لئے اس کو کعبہ کہتے ہیں (اور) فرمایا ابراہیم (علیہ السلام) نے کعبہ کی چھت نہیں بنائی تھی اور اس میں مٹی استعمال نہیں کی تھی اور اس میں (بڑے بڑے) پتھر استعمال کئے تھے۔ (131) الازرقی نے ابو المرتفع (رح) سے روایت کیا کہ ہم حجر کے علاقہ میں ابن زبیر کے ساتھ تھے منجنیق سے پہلا پتھر کعبہ میں آکر گرا اور ہم نے کعبہ کے رونے کی آواز سنی تھی جیسے مریض کا کراہنا ہوتا ہے آہ آہ۔ (132) الجندی نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ میں نے کعبہ کو خواب میں دیکھا اور وہ نبی اکرم ﷺ سے باتیں کر رہا تھا اور یہ کہہ رہا تھا کہ اگر آپ کی امت گناہوں سے باز نہ آئی تو میں پھٹ جاؤں گا حتی کہ میرا یہ پتھر اپنی اپنی جگہ ہوگا۔ (133) الجندی نے وھب بن ورد (رح) سے روایت کیا کہ میں اور سفیان بن سعید ثوری رات میں طواف کر رہے تھے سفیان لوٹ گئے اور میں طواف میں باقی رہا میں حجر (یعنی حطیم) میں داخل ہوا اور میزاب رحمت کے نیچے نماز پڑھی اس درمیان کہ میں سجدہ کر رہا تھا اچانک میں نے کعبہ کے پروں اور پتھروں میں سے آواز سنی اور وہ کہہ رہا تھا اے جبریل ! میں اللہ کی بارگاہ میں پھر تیری طرف یہ شکایت کرتا ہوں جو کچھ یہ طواف کرنے والے میرے اردگرد کرتے ہیں ان کا خوش طبعی کی باتیں کرنا اور ان کی خوش کلامی اور ان کو نحوست وہیب (رح) نے فرمایا میں نے تاویل کی کہ بیت اللہ شکایت کر رہا تھا جبرائیل (علیہ السلام) کی طرف۔ وأما قولہ : ربنا تقبل منا انک انت السمیع العلیم : ترجمہ : اے ہمارے رب ہم سے قبول فرما لیجئے بیشک خوب سننے والا جاننے والا ہے۔ (134) دار قطنی نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ نبی اکرم ﷺ جب (روزہ) افطار فرماتے تھے تو یہ دعا فرماتے تھے : اللہم لک صمنا وعلی رزقک أفطرنا فتقبل منا انک أنت السمیع العلیم ترجمہ : اے اللہ تیرے لئے ہم نے روزہ رکھا اور تیرے رزق کے ساتھ ہم سے افطار کیا ہم سے قبول فرما بلاشبہ تو سننے والا اور جاننے والا ہے (135) ابن ابی داؤد نے المصاحف میں حضرت اعمش (رح) سے روایت کیا کہ وہ اس آیت کو اس طرح پڑھتے تھے لفظ آیت ” واذ یرفع ابراہیم القواعد من البیت واسمعیل یقولان ربنا تقبل منا “ (اور جب ابراہیم (علیہ السلام) بنیادیں کھڑی کر رہے تھے اور اسماعیل (علیہ السلام) بھی اور وہ دونوں کہہ رہے تھے کہ اے ہمارے رب ہم سے قبول فرمائیے) ۔
Top