Dure-Mansoor - Al-Israa : 87
اِلَّا رَحْمَةً مِّنْ رَّبِّكَ١ؕ اِنَّ فَضْلَهٗ كَانَ عَلَیْكَ كَبِیْرًا
اِلَّا : مگر رَحْمَةً : رحمت مِّنْ رَّبِّكَ : تمہارے رب سے اِنَّ : بیشک فَضْلَهٗ : اس کا فضل كَانَ : ہے عَلَيْكَ : تم پر كَبِيْرًا : بڑا
مگر یہ کہ رب کی طرف سے رحمت ہوجائے۔ بلاشبہ آپ پر اس کا بڑا فضل ہے۔
1:۔ حکیم ترمذی نے ابن عبا سؓ سے روایت کیا کہ یمن کا وفد رسول اللہ ﷺ کے پاس آیا اور کہا کہ ” ابیت اللعن “ یعنی آپ نے کوئی ایسا کام نہیں کیا کہ جس کی وجہ سے لوگ آپ پر لعنت کریں (یہ بادشاہوں کو سلام کرنے کا طریقہ تھا) رسول اللہ ﷺ نے کہا سبحان اللہ یہ تو بادشاہوں کے لئے کہا جاتا ہے اور میں بادشاہ نہیں ہوں میں محمد بن عبداللہ ہوں انہوں نے کہا ہم آپ کو آپ کے نام کے ساتھ نہیں پکاریں گے آپ ﷺ نے فرمایا میں ابوالقاسم ہوں انہوں نے کہا اے ابو القاسم ہم نے (اپنے دلوں میں) ایک بات چھپائی ہوئی ہے آپ ﷺ نے فرمایا سبحان اللہ اس طرح کے سوالات تو کاہن سے کئے جاتے ہیں اور کاہن (غیب کی خبریں بتانے والا) اور متکہن (زبردستی کاہن بننے والا) اور کہانت کا پیشہ اختیار کرنے والا آگ میں ہوں گے۔ ان میں سے ایک نے کہا پھر کون آپ کی گواہی دے گا کہ آپ اللہ کے رسول ہیں آپ ﷺ نے لپ بھر کنکریاں لی اور فرمایا یہ گواہی دیتی ہیں کہ میں اللہ کا رسول ہوں تو وہ (کنکریاں) آپ کے ہاتھ میں تسبیح بیان کرنے لگی اور کہنے لگی کہ ہم گواہی دیتیں ہیں کہ آپ اللہ کے رسول ہیں ان لوگوں نے آپ سے کہا کہ ہم کو بعض (آیات سنائیے جو آپ پر اتاری گئیں تو آپ نے یہ آیات تلاوت فرمائیں (آیت) ” والصفت صفا “ سے لے کر (آیت) ” فاتبعہ شہاب ثاقب “ تک کیونکہ وہ آپ کی ہر حرکت کرنے والی نس ساکن ہوگئی تھی اور آپ کے آنسو داڑھی مبارک تک پہنچ گئے انہوں نے کہا ہم آپ کو روتا ہوا دیکھ رہے ہیں کیا اس ذات کے خوف کی وجہ سے جس نے آپ کو بھیجا ہے فرمایا بلکہ اس خوف کی وجہ سے میں روتا ہوں جس نے مجھے بھیجا ہے اس ذات نے مجھے ایسے راستے پر بھیجا ہے جو تلوار کی دھار کی طرح ہے اگر میں اس سے منحرف ہوگیا تو ہلاک ہوجاوں گا پھر (یہ آیت) ” ولئن شئنا لنذھبن بالذی اوحینا الیک ثم لا تجدلک بہ علینا وکیلا “ 2:۔ سعید بن منصور، ابن ابی شیبہ، ابن جریر، ابن منذر اور ابن ابی حاتم طبرانی حاکم ابن مردویہ اور بیہقی نے شعب میں (حاکم نے تصحیح بھی ہے) ابن مسعود ؓ سے روایت کیا کہ یہ قرآن عنقریب اٹھالیا جائے گا پوچھا گیا کیسے اٹھایا جائے گا ؟ جبکہ اللہ تعالیٰ نے اس کو ہمارے دلوں میں مضبوط کردیا ہے اور ہم نے اس کو مصاحف میں رکھ دیا ہے فرمایا ایک رات اس پر ایسی آئے گی کہ ایک آیت بھی دل میں نہیں چھوڑی جائے گی اور نہ مصحف میں مگر وہ اٹھالی جائے گی اور تم اس حال میں صبح کروگے کہ تمہارے اندر قرآن کا کوئی حصہ بھی موجود نہ ہوگا پھر (یہ آیت) ” ولئن شئنا لنذھبن بالذی اوحینا الیک “ پڑھی۔ 3:۔ ابن ابی داود نے مصاحف میں ابن مسعودؓ سے روایت کیا کہ قرآن پر ایک رات ایسی آئے گی کہ قرآن اٹھا لیاجائے گا کہ ایک آیت بھی مصحف میں نہیں چھوڑی جائے گی مگر یہ اس کو اٹھالیا جائے گا۔ 4:۔ طبرانی نے ابن مسعود ؓ سے روایت کیا کہ کسی رات قرآن پر (یہ حال) ضرور گذرے گا کہ لوگوں کے سینوں سے اس کو اٹھالیا جائے گا اور زمین پر اس کا کوئی حصہ باقی نہیں رہے گا۔ قرب قیامت قرآن اٹھالیا جائے گا : 5:۔ بیہقی نے شعب میں ابن مسعودؓ سے روایت کیا کہ پڑھو قرآن کو پہلے اس سے کہ اس کو اٹھالیا جائے کیونکہ قیامت اس وقت تک قائم نہ ہوگی یہاں تک کہ اس کو اٹھالیا جائے گا لوگوں نے کہا کیا یہ مصاحف اٹھالئے جائیں گے اور لوگوں کے سینوں سے بھی قرآن اٹھالیا جائے گا صبح کو وہ لوگ کہیں گے گویا کہ ہم کچھ جانتے تھے پھر وہ اشعار پڑھنے میں مشغول ہوجائیں گے۔ 6:۔ حاکم اور بیہقی نے (حاکم نے تصحیح بھی ہے) حذیفہ ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اسلام مٹا دیا جائے گا جیسے کپڑے کا رنگ مٹا دیا جاتا ہے یہ ان تک کہ نہ جانا جائے گا کہ روزہ کیا ہے ؟ صدقہ کیا ہے ؟ قربانی کیا ہے ؟ اور ایک رات میں اللہ کی کتاب پر یہ حال غزرے گا کہ اس میں سے ایک آیت بھی زمین پر باقی نہ رہے گی اور بہت بوڑھے کہیں گے کہ ہم نے اپنے آباء و اجداد کو اس کلمہ پر پایا ” لا الہ الا اللہ “ اور ہم بھی یہی کہتے ہیں۔ 7:۔ خطیب نے تاریخ میں حذیفہ ؓ نے فرمایا عنقریب اسلام مٹ جائے گی جیسے کپڑے کے نقش ونگار مٹ جاتے ہیں لوگ قرآن کو پڑھیں گے اور اس کی حلاوت کو نہیں پائیں گے وہ لوگ رات کو گذاریں گے اور صبح کو اٹھیں گے کہ قرآن رات کو اٹھا یا جائے گا اور اس لے پہلے والی کتاب بھی یہاں تک کہ بہت بوڑھے مرد اور بوڑھی عورتیں کے دلوں سے قرآن سلب ہوجائے گا اور وہ نماز کے وقت کو اور روزے کے وقت کو اور قربانی کے وقت نہ پہچانیں گے یہاں تک یہ ان میں سے ایک کہنے والا کہے گا ہم نے تو لوگوں کو یہ کہتے ہوئے سنا ” لا الہ الا اللہ “ اور ہم بھی کہتے ہیں ” لا الہ الا اللہ “ 8:۔ ابن ابی داود اور ابن ابی حاتم نے شمر بن عطیہ (رح) سے روایت کیا کہ قرآن پر ایک رات ایسے گذرے گی کہ اپنے اوقات میں تہجد پڑھنے والے اٹھیں گے تو کسی چیز پر قادر نہ ہوں گے وہ اپنے مصحفوں کی طرف جائیں گے تو وہ اس پر بھی قادر نہ ہوں گے تو وہ ایک دوسرے کے پاس جائیں گے اور ملاقات کریں گے اور ایک دوسرے کو وہ کیفیت بتائیں گے جس سے وہ دوچار ہوئے۔ 9:۔ ابن عدی نے ابوہریرہ ؓ سے روایت کیا کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا ایک زمانہ لوگوں پر ایسا آئے گا کہ پیغام بھیجا جائے گا قرآن کی طرف اور زمین سے اٹھالیا جائے گا۔ 10:۔ محمد بن نصر نے کتاب الصلاہ میں عبداللہ بن عمر وبن العاص ؓ سے روایت کیا کہ قیامت قائم نہ ہوگی یہاں تک قرآن وہاں واپس چلا جائے گا جہاں سے نازل ہوا تھا اس کی بھنبھناہٹ اس کے اردگرد ہوگی شہد کی مکھی کی بھنبھناہٹ کی طرف اللہ تعالیٰ پوچھیں گے تجھے کیا ہوا ؟ قرآن عرض کرے گا یا رب میری تلاوت کی جاتی تھی اور میرے پر عمل نہیں کیا جاتا تھا۔ 11:۔ محمد بن نصر نے لیث بن سعد (رح) سے روایت کیا کہ بلاشبہ قرآن اٹھالیا جائے گا جب لوگ متوجہ ہوں گے دوسری کتابوں کی طرف اور دوسری کتابوں پر اوندھے گرے ہوں گے اور قرآن کو چھوڑ دیں گے۔ 12:۔ دیلمی نے مسند فردوس میں معاذ بن جبل ؓ سے روایت کیا کہ ہمارے پاس رسول اللہ ﷺ تشریف لائے اور فرمایا میری اطاعت کرو جب تک میں تمہارے درمیان ہوں جب میں چلا جاوں تو تم لازم پکڑو اللہ کی کتاب کو اس کے حلال کو حلال جانو اور اس کے حرام کو حرام جانو عنقریب لوگوں پر ایسا زمانہ آئے گا کہ قرآن رات کو اٹھالیا جائے گا اور دلوں اور مصحفوں سے مٹا دیا جائے گا۔ 13:۔ ابن ابی حاتم اور بیہقی نے (حاکم نے تصحیح بھی ہے) ابوہریرہ ؓ سے روایت کیا کہ قرآن پر ایسی رات گذرے گی کہ وہ آسمان کی طرف اٹھالیا جائے گا تو زمین پر قرآن میں سے کوئی چیز باقی نہ رہے گی نہ تورات میں نہ انجیل میں سے نہ زبور میں سے سلب کرلیا جائے گا لوگوں کے دلوں سے صبح کو وہ نماز میں ہوں گے اور ان کو علم نہ ہوگا اپنی کیفیت کا۔ 14:۔ ابوالشیخ ابن مردویہ اور دیلمی نے حذیفہ وابوہریرہ ؓ دنوں سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اللہ کی کتاب پر ایک ایسی رات گذرے گی کہ وہ اٹھا لیا جائے گا لوگ حج کریں گے (اس حال میں) کہ زمین میں اور نہ کسی مسلمان کے دل میں کوئی آیت ہوگی۔ 15:۔ ان مردویہ نے جابر بن عبداللہ ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا قیامت قائم نہ ہوگی یہاں تک اوپر اٹھالیا جائے گا ذکر کو اور قرآن کو۔ 16:۔ ابن مردویہ نے ابن عباس وابن عمر ؓ دونوں حضرات سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے خطبہ دیتے ہوئے ارشاد فرمایا یہ کیا کتابیں ہیں جن کے متعلق مجھے خبر پہنچی ہے کہ تم ان کو لکھتے ہو اللہ کی کتاب کے ساتھ ؟ ہوسکتا ہے اللہ تعالیٰ ناراض ہوجائے اپنی کتاب کی وجہ سے اس پر ایک رات ایسی آئے گی کہ وہ اٹھا لیاجائے گا کسی دل اور کسی کاغذ پر کوئی ایک حرف بھی باقی نہ رہے گا۔ پوچھا یا رسول اللہ ! کیا کیفیت ہوگی مومنین اور مومنات کی ؟ فرمایا جس کے ساتھ اللہ تعالیٰ خیر کا ارادہ فرمائیں گے تو اس کے دل میں ” لا الہ الا اللہ “ کو باقی رکھیں گے۔ 17:۔ ابن ابی حاتم نے قاسم بن عبدالرحمان سے روایت کیا اور وہ اپنے باپ دادا سے کرتے ہیں کہ آدھی رات میں قرآن چلا جائے گا جبرائیل (علیہ السلام) آئیں گے اور اس (قرآن) کو لے کر چلے جائیں گے پھر یہ آیت (آیت) ” ولئن شئنا لنذھبن “ پڑھی۔
Top