Bayan-ul-Quran - Al-Baqara : 155
وَ لَنَبْلُوَنَّكُمْ بِشَیْءٍ مِّنَ الْخَوْفِ وَ الْجُوْعِ وَ نَقْصٍ مِّنَ الْاَمْوَالِ وَ الْاَنْفُسِ وَ الثَّمَرٰتِ١ؕ وَ بَشِّرِ الصّٰبِرِیْنَۙ
وَلَنَبْلُوَنَّكُمْ : اور ضرور ہم آزمائیں گے تمہیں بِشَيْءٍ : کچھ مِّنَ : سے الْخَوْفِ : خوف وَالْجُوْعِ : اور بھوک وَنَقْصٍ : اور نقصان مِّنَ : سے الْاَمْوَالِ : مال (جمع) وَالْاَنْفُسِ : اور جان (جمع) وَالثَّمَرٰتِ : اور پھل (جمع) وَبَشِّرِ : اور خوشخبری دیں آپ الصّٰبِرِيْن : صبر کرنے والے
اور ہم تمہیں لازماً آزمائیں گے کسی قدر خوف اور بھوک سے اور مالوں اور جانوں اور ثمرات کے نقصان سے اور (اے نبی ﷺ بشارت دیجیے ان صبر کرنے والوں کو
آیت 155 وَلَنَبْلُوَنَّکُمْ بِشَیْءٍ مِّنَ الْخَوْفِ وَالْجُوْعِ دیکھ لو ‘ جس راہ میں تم نے قدم رکھا ہے یہاں اب آزمائشیں آئیں گی ‘ تکلیفیں آئیں گی۔ رشتہ دار ناراض ہوں گے ‘ شوہر اور بیوی کے درمیان تفریق ہوگی ‘ اولاد والدین سے جدا ہوگی ‘ فساد ہوگا ‘ فتور ہوگا ‘ تصادم ہوگا ‘ جان و مال کا نقصان ہوگا۔ ہم خوف کی کیفیت سے بھی تمہاری آزمائش کریں گے اور بھوک سے بھی۔ چناچہ صحابہ کرام رض نے کیسی کیسی سختیاں جھیلیں اور کئی کئی روز کے فاقے برداشت کیے۔ غزوۂ احزاب میں کیا حالات پیش آئے ہیں ! اس کے بعد جیش العسرۃ غزوۂ تبوک میں کیا کچھ ہوا ہے ! وَنَقْصٍ مِّنَ الْاَمْوَالِ وَالْاَنْفُسِ وَالثَّمَرٰتِ مالی اور جانی نقصان بھی ہوں گے اور ثمرات کا نقصان بھی ہوگا۔ ثمرات یہاں دو معنی دے رہا ہے۔ مدینہ والوں کی معیشت کا دار و مدار زراعت اور باغبانی پر تھا۔ خاص طور پر کھجور ان کی پیداوار تھی ‘ جسے آج کی اصطلاح میں cash crop کہا جائے گا۔ اب ایسا بھی ہوا کہ فصل پک کر تیار کھڑی ہے اور اگر اسے درختوں سے اتارا نہ گیا تو ضائع ہوجائے گی ‘ ادھر سے غزوۂ تبوک کا حکم آگیا کہ نکلو اللہ کی راہ میں ! تو یہ امتحان ہے ثمرات کے نقصان کا۔ اس کے علاوہ ثمرات کا ایک اور مفہوم ہے۔ انسان بہت محنت کرتا ہے ‘ جدوجہد کرتا ہے ‘ ایک کیریئر اپناتا ہے اور اس میں اپنا ایک مقام بنا لیتا ہے۔ لیکن جب وہ دین کے راستے پر آتا ہے تو کچھ اور ہی شکل اختیار کرنی پڑتی ہے۔ چناچہ اپنی تجارت کے جمانے میں یا کسی پروفیشن میں اپنا مقام بنانے میں اس نے جو محنت کی تھی وہ سب کی سب صفر ہو کر رہ جاتی ہے ‘ اور اپنی محنت کے ثمرات سے بالکل تہی دامن ہو کر اسے اس وادی میں آنا پڑتا ہے۔
Top