Bayan-ul-Quran - Al-Israa : 73
وَ اِنْ كَادُوْا لَیَفْتِنُوْنَكَ عَنِ الَّذِیْۤ اَوْحَیْنَاۤ اِلَیْكَ لِتَفْتَرِیَ عَلَیْنَا غَیْرَهٗ١ۖۗ وَ اِذًا لَّاتَّخَذُوْكَ خَلِیْلًا
وَاِنْ : اور تحقیق كَادُوْا : وہ قریب تھا لَيَفْتِنُوْنَكَ : کہ تمہیں بچلا دیں عَنِ : سے الَّذِيْٓ : وہ لوگ جو اَوْحَيْنَآ : ہم نے وحی کی اِلَيْكَ : تمہاری طرف لِتَفْتَرِيَ : تاکہ تم جھوٹ باندھو عَلَيْنَا : ہم پر غَيْرَهٗ : اس کے سوا وَاِذًا : اور اس صورت میں لَّاتَّخَذُوْكَ : البتہ وہ تمہیں بنا لیتے خَلِيْلًا : دوست
اور (اے نبی !) یہ لوگ تو اس بات پر تلے ہوئے تھے کہ آپ کو فتنے میں ڈال کر اس چیز سے ہٹا دیں جو ہم نے آپ کی طرف وحی کی ہے تاکہ آپ اس کے علاوہ کوئی اور چیز گھڑ کر ہم سے منسوب کردیں اور اگر آپ ایسا کرتے تب تو یہ لوگ آپ کو اپنا گاڑھا دوست بنا لیتے
آیت 73 وَاِنْ كَادُوْا لَيَفْتِنُوْنَكَ عَنِ الَّذِيْٓ اَوْحَيْنَآ اِلَيْكَ لِتَفْتَرِيَ عَلَيْنَا غَيْرَهٗ یہ آیت اس بےپناہ دباؤ کی طرف اشارہ کر رہی ہے جس کا سامنا رسول اللہ کو قریش کی طرف سے مکہ میں تھا۔ ایک طرف تو قریش مکہ آپ پر مسلسل دباؤ ڈال رہے تھے کہ آپ قرآن کے غیر لچک دار احکام میں کچھ نرمی پیدا کریں اس کلام میں کچھ ترمیم کرلیں کچھ اپنی بات منوائیں اور کچھ ہماری مانیں۔ یہ مضمون اس سے پہلے سورة یونس آیت 15 میں بھی آچکا ہے : ائْتِ بِقُرْاٰنٍ غَيْرِ ھٰذَآ ”اے محمد آپ اس کے علاوہ کوئی دوسرا قرآن پیش کریں یا پھر اس میں کچھ ردّوبدل کرلیں۔“ دوسری طرف وہ مسلسل یہ مطالبہ بھی کیے جاتے تھے کہ اگر آپ اللہ کے رسول ہیں تو نشانی کے طور پر ہمیں کوئی معجزہ دکھائیں۔ ان کا یہ مطالبہ ان کے عوام تک میں بہت مقبول ہوچکا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ حضور کی اپنی خواہش بھی یہی تھی کہ انہیں کوئی معجزہ دکھا دیا جائے ‘ مگر اس بارے میں اللہ تعالیٰ کا فیصلہ تھا کہ انہیں کوئی حسی معجزہ نہیں دکھایا جائے گا۔ اس سے پہلے سورة الانعام آیت 35 میں ہم اللہ تعالیٰ کا دو ٹوک فیصلہ بایں الفاظ پڑھ آئے ہیں : وَاِنْ كَانَ كَبُرَ عَلَيْكَ اِعْرَاضُهُمْ فَاِنِ اسْتَطَعْتَ اَنْ تَبْتَغِيَ نَفَقًا فِي الْاَرْضِ اَوْ سُلَّمًا فِي السَّمَاۗءِ فَتَاْتِيَهُمْ بِاٰيَةٍ ”اور اگر آپ پر ان کی یہ بےاعتنائی گراں گزرتی ہے تو اگر آپ استطاعت رکھتے ہیں تو زمین میں کوئی سرنگ کھودیں یا آسمان میں کوئی سیڑھی لگائیں اور لے آئیں ان کے لیے کوئی معجزہ !“ چناچہ ان دونوں پہلوؤں سے حضور کو شدید دباؤ کا سامنا تھا اور اسی دباؤ کا اظہار اس آیت میں نظر آ رہا ہے۔ وَاِذًا لَّاتَّخَذُوْكَ خَلِيْلًا تاریخ کے صفحات گواہ ہیں کہ اس نوعیت کی مداہنت compromise کے عوض وہ لوگ آپ کو اپنا بادشاہ بھی تسلیم کرنے کے لیے تیار تھے۔
Top