Baseerat-e-Quran - Az-Zumar : 43
اَمِ اتَّخَذُوْا مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ شُفَعَآءَ١ؕ قُلْ اَوَ لَوْ كَانُوْا لَا یَمْلِكُوْنَ شَیْئًا وَّ لَا یَعْقِلُوْنَ
اَمِ : کیا اتَّخَذُوْا : انہوں نے بنا لیا مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ : اللہ کے سوا شُفَعَآءَ ۭ : شفاعت کرنے والے قُلْ : فرمادیں اَوَلَوْ : یا اگر كَانُوْا لَا يَمْلِكُوْنَ : وہ نہ اختیار رکھتے ہوں شَيْئًا : کچھ وَّلَا يَعْقِلُوْنَ : اور نہ وہ سمجھ رکھتے ہوں
کیا انہوں نے اللہ کو چھوڑ کر دوسروں کو اپنا سفارشی بنا رکھا ہے ( اے نبی ﷺ آپ ان سے کہہ دیجئے کہ کیا وہ سفارش کریں گے جن کے ہاتھ میں نہ تو کوئی چیز ( کوئی اختیار) ہے اور نہ وہ عقل و سمجھ رکھتے ہیں۔
لغات القرآن آیت نمبر 43 تا 46 : شفعائ ( شفیع) (سفارش کرنے والے ، شفاعت کرنے والے) اشمازت (وہ کڑھنے اور جلنے لگے) فاطر ( پیدا کرنے والا) تحکم (تو فیصلہ کرے گا) تحکم ( تو فیصلہ کرے گا) عباد (بندے) تشریح : آیت نمبر 43 تا 46 :۔ اس سے پہلی آیات میں اللہ تعالیٰ نے نہایت وضاحت سے ارشاد فرما دیا ہے کہ زندگی اور موت یہ سب اللہ کے قبضہ قدرت میں ہے۔ اس کے سوا نہ کوئی زندگی دیتا ہے اور نہ اس کی اجازت کے بغیر کسی کو موت آتی ہے۔ کفار و مشرکین بھی اس بات کو سمجھتے تھے مگر زبان سے نہیں کہتے تھے بلکہ اپنے بےحقیقت بتوں کے متعلق ان کا گمان یہ تھا کہ وہ کل قیامت کے دن ان کی سفارش کر کے اللہ کے عذاب سے انہیں بچا لیں گے۔ حالانکہ اللہ تعالیٰ نے صاف صاف فرما دیا ہے کہ اس کی بارگاہ میں اس وقت تک کسی کو سفارش کرنے یا لب ہلانے کی اجازت نہیں ہوگی جب تک اجازت نہ دے دی جائے۔ پتھر، لکڑی اور مٹی سے بنائے گئے ان بتوں کی کیا مجال ہے کہ یہ اللہ کی بارگاہ میں کسی کی سفارش بھی کرسکیں کیونکہ اللہ تعالیٰ ان کو تو پہلے ہی جہنم کا ایندھن بنا دیں گے لیکن ان بد عقیدہ لوگوں کے نزدیک سب کچھ یہی بت ہیں حالانکہ اس کائنات میں ساری کی ساری سلطنت صرف اللہ کے اختیار میں ہے۔ ہر جگہ اللہ کا حکم چلتا ہے، تمام انسانوں کو اللہ ہی کی طرف لوٹ کر جانا ہے جہاں وہ عدل و انصاف کے ساتھ ہر ایک کے درمیان سارے فیصلے فرما دے گا ۔ فرمایا کہ وہ زبان سے تو اللہ کا نام لیتے ہیں مگر انہوں نے بتوں کو اس طرح سب کچھ سمجھ رکھا ہے کہ اگر ان کے سامنے ایک اللہ کا ذکر کیا جائے جو سب کا معبود ، خالق اور مالک ہے تو غم و غصے سے ان کے چہرے سکڑ جاتے ہیں اور پیشانی پر بل پڑجاتے ہیں اور جب ان کے جھوٹے معبودوں کا ذکر کیا جاتا ہے تو ان کے چہرے کھل اٹھتے ہیں اور وہ بہت خوش ہوتے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ نے نبی کریم ﷺ کو تسلی دیتے ہوئے فرمایا کہ اے نبی ﷺ ! جب یہ کفار و مشرکین اپنی حرکتوں سے باز نہیں آتے اور غیر اللہ کی بندگی میں لگے رہتے ہیں اور اسی میں مگن ہیں تو آپ رنجیدہ نہ ہوں بلکہ اپنے رب سے یہ دعا کیجئے کہ اے آسمان و زمین کے رب اور کھلے چھپے کے جاننے والے پروردگار آپ ہی قیامت کے دن اپنے بندوں کے درمیان ان باتوں میں فیصلے فرمائیں گے جن میں وہ اختلاف کیا کرتے تھے۔
Top